ہم ہر روز تیرے دیے ہوئےزخموں کا حساب لکھتے ہیں
تیرے اک اک لفظ پے ہم پورا پورا نصاب لکھتے ہیں
کبھی شعر کبھی غزل لکھتے ہیں پھر کچھ حرف راہ جاتے ہیں
دِل میں خیال آتا ہے کیوں نہ تُجھ پہ کوئی نفیس کتاب لکھتے ہیں
کبھی لِکھنےہی لگتا ہوں جنجھوڑ دیتا ہے کوئی شخص پکڑکر گیرے بان میرا
کچھ خیال کرو کیا رشتہ ہےتمارامُجھ سےجومُجھ پہ باتیں بےحساب لکھتےہیں
اکژ کہہ دیتا ہوں نہ تُجھ پہ لکھتے ہیں غزل نہ تیرے خالات پہ لکھتے ہیں
ہم تو بَس تنہائی کے عالم میں خود پہ گزرےوقت کا عذاب لکھتے ہیں
ہاں مَگر یہ بات بھی سَچ ہے تُجھ سے میری زندگی کا کچھ حصہ جُھڑا ہے
کرکہ سوال خود سےاُسےبھی ہے محبت کہ نہیں پِھر خودہی اُس کا جواب لکھتے ہیں
پڑھ کر میری شعایری کبھی،خَبرنہیں تیرے مُنوں سےخرف نکلیں یاآنکھ سے آنسوں
جِس نے بھی پڑھیں مِیری غزلیں وہ روپڑاہم اِس قدرزندگی،مجسف،بےنقاب لکھتے ہیں