جو گزر دشمن ہے اس کا رہ گزر رکھا ہے نام
ذات سے اپنی نہ ہلنے کا سفر رکھا ہے نام
پڑ گیا ہے اک بھنور اس کو سمجھ بیٹھے ہیں گھر
لہر اٹھی ہے لہر کا دیوار و در رکھا ہے نام
نام جس کا بھی نکل جائے اسی پر ہے مدار
اس کا ہونا یا نہ ہونا کیا، مگر رکھا ہے نام
ہم یہاں خود آئے ہیں لایا نہیں کوئی ہمیں
اور خدا کا ہم نے اپنے نام پر رکھا ہے نام
چاک چاکی دیکھ کر پیراہن پہنائی کی
میں نے اپنے ہر نفس کا بخیہ گر رکھا ہے نام
میرا سینہ کوئی چھلنی بھی اگر کر دے تو کیا
میں نے تو اب اپنے سینے کا سپر رکھا ہے نام
دن ہوئے پر تو کہیں ہونا کسی بھی شکل میں
جاگ کر خوابوں نے تیرا رات بھر رکھا ہے نام