خیر مقدم پہ ہیں مامور صحیفہ بردار
آسماں کھینچ کے لاتا ہے وہ ملبہ بردار
کیا خبر کون سی نیت سے بلایا گیا ہوں
ناز برداری مری کرتے ہیں نیزہ بردار
خوشبو چوکس ہے ترے در پہ سپاہی کی طرح
پھول دیکھے ہیں ترے گھر میں دریچہ بردار
تیری آواز کی لے ٹوٹی تو یاد آئے مجھے
ساتھ ہوتے تھے کبھی جو ترے مصرعہ بردار