نہیں شوریدگانِ شہر میں وہ سوزِ جاں اب کے
ہیں شامیں سوختہ جانوں کی بے شورِ فغاں اب کے
ہیں شوقِ گرمئ آغوش کے جذبے زمستانی
شب اندر شب ہو جیسے برفباری کا سماں اب کے
کوئی لہجہ یہاں شعلے پہن کے اب نہیں آتا
نہیں سایہ فگن محفل پہ سانسوں کا دھواں اب کے
سرود و ساز ہیں سرما فروشِ حلقۂ یاراں
دلوں میں زمہریری کپکپی ہے پر فشاں اب کے
ستم ہے رشتہ ہائے آشتی کی پاسداری ہے
مرے یارو! تمہارے اور خدا کے درمیاں اب کے
لباسِ آتشِ انکارِ ابلیسی جلا ڈالا
یقیں کے ستر پوشانِ گماں نے بے گماں اب کے
ہوئی گم اے گروہِ دل تپاں، آتش بجاں آخر
ترے احساس اور انفاس کی سوزش کہاں اب کے
ہے اک خورشیدِ یخ بستہ کا پرتو خاک پر غلطاں
ہے زندہ دھوپ کو ترسی ہوئی یہ بستیاں اب کے
سیاہی کی لپک ہے اور ہیں آتشکدے اپنے
کہاں پائیں فروغِ چشمِ جاں زردشتیاں اب کے
در و دیوار یخ ہیں اور ہوائیں زمہریری ہیں
لبِ شکوہ کھلے بھی تو صدائیں زمہریری ہیں
دلوں کی فصل برفانی ہے اور شیوے زمستانی
وفائیں زمہریری ہیں، جفائیں زمہریری ہیں
کسے کس سے گلہ ہو اور گلے کا کیا صلہ ٹھہرے
سماعت یخ زدہ ہے، التجائیں زمہریری ہیں
کیا خونِ جگر کا خوش گمانی میں زیاں ہم نے
شفق کے رنگ لکھے داستاں در داستاں ہم نے
فضا ہے ایسی برفانی کہ سانسیں جم کے رہ جائیں
نہ کی ہوتی یہاں سینے کی گرمی رائیگاں ہم نے
نفس ٹھٹھرے ہوئے ہیں شعلہ ہائے لب کے موسم میں
مجھے سردی زیادہ ہی لگے گی اب کے موسم میں