پیتے ہیں جسے امرت کی طرح
لوگ اسے زہر کہتے ہیں
تلخی حیات کا کڑوا جام
تیرے نام سے پی جاتے ہیں
زندگی کی چھوٹی چھوٹی رنجشیں
عمروں کے روگ بن جاتے ہیں
شام ہوا سے جب بجھتے ہیں چراغ
دیے یادوں کے جل جاتے ہیں
رات بھر ہوتا ہے درد کا چراغاں
تو ستاروں کے آنسو نکل آتے ہیں
جب ٹپکتا ہے لفظوں سے لہو
غزل کے مفہوم بدل جاتے ہیں