میری یہ نظم ان لڑکیوں کے نام جن کو گڑیا کی طرح بچپن میں ہی بیاہ دیا جاتا ہے!!!
"گڑیا کی شادی"
جس طرح سے کبھی، میں بیاہ گڑیا کا رچاتی تھی
اپنی سب سکھیوں، سہیلیوں کو بخوشی بلاتی تھی
پھر اپنی گڑیا کو اک سرخ لباس پہناتی تھی
بندیا، چوڑیوں اور جھمکوں سے اسکو خوب سجاتی تھی
مگر اس کو یوں سجاتے سجاتے، یہ کبھی نہ سوچتی تھی
کہ اس گڑیا ہی کی طرح، میں بھی سجا دی جاؤں گی
چاہے چاہوں یا نہ چاہوں، ڈولی میں بٹھا دی جاؤں گی
آج یہ جو لوگ میری سجاوٹ کو سراہتے ہیں
خوف کی سرخ میری آنکھوں میں انکو کیوں نہیں دکھتی؟
یہ جو میرے سر پر اک حسین سرخ دوپٹہ ہے
یہ میرے خوابوں کے لہو سے رنگا ہوا کیوں لگتا ہے؟
یہ لوگوں کے جھومنے اور گانے کی صدائیں
میری آواز کو کیوں کھا رہی ہیں؟
جو مجھ جیسیوں کے بچپن کی میّت کو قبرستان لے جائے
یہ دریچے سے دکھتی ڈولی مجھے، وہ چارپائی کیوں لگتی ہے؟
یہ قاضی ایک ہی وقت میں دو کام جانے کیسے کرتا ہے؟
نکاح اور بچپن کا جنازہ ایک ساتھ پڑھاتا ہے
میں روئی اور کپڑے کی بنی ہوئی گڑیا نہیں ہوں ابّا
کہ مجھ میں خواب و جذبات بھرا اک دل دھڑکتا ہے