ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں
بے اماں تھے اماں کے تھے ہی نہیں
ہم کہ ہیں تیری داستاں یکسر
ہم تری داستاں کے تھے ہی نہیں
ان کو آندھی میں ہی بکھرنا تھا
بال و پر آشیاں کے تھے ہی نہیں
اب ہمارا مکان کس کا ہے
ہم تو اپنے مکاں کے تھے ہی نہیں
ہو تری خاک آستاں پہ سلام
ہم ترے آستاں کے تھے ہی نہیں
ہم نے رنجش میں یہ نہیں سوچا
کچھ سخن تو زباں کے تھے ہی نہیں
دل نے ڈالا تھا درمیاں جن کو
لوگ وہ درمیاں کے تھے ہی نہیں
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں