قائد اعظم، دو قومی نظریہ اور پاکستان

’’سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک انتہاء پسند اور متعصب ہندو لکھاری جسونت سنگھ نے بھی قائد اعظم کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ان سے بڑا لیڈر آج تک ہندوستان میں پیدا نہیں ہوا جبکہ نہرو کو اس نے ’پلے بوائے‘ کا خطاب دیا۔ شہاب الدین اور پرتھوی راج کی جب دوسری جنگ ہوئی تو پرتھوی راج نے گھبرا کر شہاب الدین غوری کو صلح نامہ بھیجا کہ کابل سے لیکر جہاں تک مسلمانوں کی آبادی ہے وہاں تک کا علاقہ واپس لے لیں اور یہاں سے واپس پلٹ جائیں باقی علاقہ میرے پاس رہنے دیں لیکن شہاب الدین غوری نے یہ پیشکش ٹھکرا دی مگر ہم اگر نقشہ دیکھیں کہ موجودہ مغربی پاکستان کا نقشہ وہی ہے جس کی پیشکش صلح نامے میں پرتھوی راج نے کی تھی دوسرے الفاظ میں 1093ء میں ہی پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ قائد اعظم نے دو قومی نظریے کے تشخص کے پیش نظر شملہ میں مہاتما گاندھی کی کانگریس کا جھنڈا لگی گاڑی میں بیھٹنے سے انکار کرتے ہوئے گاندھی سے کہا کہ یہ جھنڈا اتار دو لیکن جب گاندھی نے چالیں چلتے ہوئے اور منت سماجت کرتے ہوئے جھنڈا اتارے بغیر قائد اعظم کو اسی گاڑی میں بیھٹنے کی دعوت دی تو قائد اعظم نے فوراً دوسری گاڑی منگوا لی جس پر مسلم لیگ کا جھنڈا لگا ہوا تھا۔ اس کے برعکس جب شیخ مجیب الرحمن اور یحییٰ خان کی ایک میٹنگ ہونا تھی تو جنرل یحییٰ خان شیخ مجیب الرحمن کی اسی گاڑی میں بیٹھ گئے تھے جس پر بنگلہ دیش کا جھنڈا لگا ہوا تھا حالانکہ اس وقت بنگلہ دیش نہیں بنا تھا مگر یہ تھا حال قائد اعظم کے جانشینوں کا‘‘۔

یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ صاحب علم و دانش اور پاکستان کے سابق چیف الیکشن کمشنر کنور محمد دلشاد کے ہیں جو ہمدرد یونیورسٹی کے اسلام آباد کیمپس میں ’’قائد اعظم محمد علی جناح اور آج کے پاکستان‘‘ کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں بطور مہمان خصوصی خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی جی بھر کر تعریف کی۔ انہیں جنتی کہا اور طلباء و طالبات کو قائد اعظم کے پاکستان کی امیدوں کا محور و مرکز قرار دیا۔ قبل ازیں ڈائریکٹر امور طلباء کرنل(ر) مشتاق احمد قریشی نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے دو قومی نظریے کی روشنی میں اسلامی فلاحی مملکت کے قیام کے لئے تاریخی جدوجہد کی تھی۔ مگر آج ایک طے شدہ سازش کے تحت قائد اعظم کے پاکستان اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے تاریخ کو مسخ کرنے کے ساتھ ساتھ نظریاتی تخریب کاری کی کوششیں جاری ہیں جنہیں ناکام بنانا ہمارا فرض ہے کیونکہ دو قومی نظریہ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان دراصل اس مملکت کی بنیادی اساس ہے۔

اسلامیہ کالج پشاور میں 13 جولائی 1948 ء کو طلباء سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے واضح کیا کہ ’’اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سر چشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘۔ دو قومی نظریے کی حفاظت ہمارا فرض اولین ہیں۔ بعد ازاں ڈائریکٹر جنرل ہمدرد یونیورسٹی ڈاکٹر نذیر احمد ستارہ امتیاز نے مختلف واقعات کے حوالوں سے واضح کیا کہ قائد اعظم محمد علی جناح عاشق رسول حضرت محمد ﷺ تھے جنہیں انتہائی بدیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیکولر قرار دینے کی کوششیں ایک خاص طبقہ جان بوجھ کر جاری رکھے ہوئے ہے۔ حسرت موہانی نے قائد اعظم کو سجدے میں گر کر بارگاہ الٰہی میں قیام پاکستان کی جدوجہد کی کامیابی کے لئے دعا کرتے دیکھا۔
8 مارچ 1948ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا ’’ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے، نہ وطن نہ نسل۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا۔ وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ کیا تھا؟ اس کی وجہ نہ ہندوؤں کی تنگ نظری تھی نہ انگریزوں کی چال یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا‘‘۔

قائد اعظم اور آج کا پاکستان کے موضوع پر عروج فاطمہ، عصمت شہزادی، حافظہ مریم اقبال، قمر منیر، ذیشان بٹ، فیصل آصف، عمران تبسم، فیضان ریاض، حسین حیدر اور محمد اسامہ نے بڑے موثر انداز میں قائد اعظم، دو قومی نظریے اور پاکستان کے تعلق کو اجاگر کیا۔

عروج فاطمہ نے کہا کہ قائد اعظم کا یہ تاریخی فقرہ جو انہوں نے 7 مارچ 1940ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ایک تاریخی تقریر میں کہا تھا کہ ’’پاکستان اس دن وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا غیر مسلم مسلمان ہوا تھا‘‘۔ اگر غور سے اس بیان کا تجزیہ کیا جائے تو ساری فریڈم موومنٹ سمجھ میں آ جاتی ہے۔ دو قومی نظریہ کی اس سے جامع تعریف اور کیا ہوسکتی ہے۔

عصمت شہزادی نے واضح کیا کہ نومبر 1945 ء کو ایڈورڈ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا تھا’’ہم دونوں قوموں میں صرف مذہب کا فرق نہیں ہمارا کلچر ایک دوسرے سے الگ ہے۔ ہمارا دین ہمیں ایک ایسا ضابطہ حیات دیتا ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ ہم اس ضابطہ کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں‘‘۔

حسین حیدر نے کہا کہ 23 مارچ 1940 ء کو مسلم لیگ لاہور کے اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے دو قومی نظریے کی وضاحت ان الفاظ میں کی کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے قومی تصور اور ہندو دھرم کے سماجی طور طریقوں کے باہمی اختلاف کو محض وہم و گمان بتانا ہندوستان کی تاریخ کو جھٹلانا ہے۔ ایک ہزار سال سے ہندوؤں کی تہذیب اور مسلمانوں کی تہذیب پہلو بہ پہلو موجود رہی ہیں۔ دونوں قومیں آپس میں میل جول بھی رکھتی چلی آئی ہیں مگر ان کے قدیم اختلافات اسی شدت سے موجود ہیں۔ یہ توقع رکھنا سراسر غلط ہے کہ جمہوری آئین کا دباؤ پڑے گا تو ہندو مسلمان ایک قوم بن جائیں گے جب ہندوستان میں ڈیڑھ سو سال سے قائم برطانوی سیکولر حکومت انہیں ایک قوم نہ بنا سکی تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہندوستان کی مرکزی حکومت میں فیڈرل نظام کے جبری قیام سے وہ دونوں ایک قوم بن جائیں گے‘‘۔

Shumaila Javed Bhatti
About the Author: Shumaila Javed Bhatti Read More Articles by Shumaila Javed Bhatti: 18 Articles with 14313 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.