سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں صاف ستھری سیاست
ہونی چاہیے جس کے اندر قول فعل میں تضاد اور بدتہذیبی کا عنصر کسی بھی طور
پر شامل نہیں ہوگا صرف اور صرف ملک و قوم کی فلاح وترقی اور اس کی سا لمیت
کو مقدم رکھنا ان کی ترجیحی ہوگی اور دوسری بات ملک کو جن درپیش مشکلات کا
سامنا ہے اس سے نبرد آزما ہونے کی جراتمندانہ جزبے کے حامی افراد کی قوم کو
ضرورت ہے اگر یہ تمام چیزیں ان خواہشمند حضرات کے پاس موجود ہیں تو اُن کے
لئے ھال کھلا ہے جس کے لئے قوم کی آواز ہے کہ ٹکٹ خریدو وزیر اعظم بنو لیکن
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم بننے کے لئے ہر شخص خواہش رکھتا ہے مگر
وزیر اعظم ایک اور خواہشمند حضرات کی اکثریت زیادہ ہے پھر اس ضمن میں سوال
کا جواب کیا ہوگا سوچنے کی بات ہے تاہم اس میں پریشان ہونے کی قطعی ضرورت
نہیں لیکن اچھی سوچ و بچار رکھنا عین تقاضہ بھی ہے اس بات کا جواب اس انداز
سے دینا چاہتا ہوں اور سب سے بڑی بات ان لیڈران کی انکی اپنی زبانی کے طور
پر جواب مل جاتا ہے اگر چہ یہ لوگ اپنی زبان سے نکلے قول پر عمل کریں پھر
کوئی مسئلہ ہی نہیں بس ٹکٹ خریدو وزیراعظم بنو
اب میں ان کے وہ قول جو آپ لوگ اکثر ان لیڈروں سے منعقدہ اجلاس جلسے، جلوس،
ریلیاں، اجتماعات اور دیگر پروگراموں میں ان کو کہتے سنتے چلے آرہے ہیں کہ
اگر ہمیں اقتدار مل گیا تو یہ کردیں گے وہ کردوں گا اور جس میں عوام کو
سنہری خواب دکھانے کی تاویلیں بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہیں اور اس طرح یہ
لوگ عوام کو چکمہ دے کر مختلف ادوار میں اقتدار پر قابض ہوتے چلے آرہے ہیں
کھبی کوئی اور کھبی کوئی مگر دیکھا جائے تو ان اقتداریوں نے قوم کا بہت
قیمتی وقت ضائع کردیا اور اب پھر اقتدار کے لئے بے چینی کے عالم میں مبتلا
ہیں ہو نا تو یہ چاہیے جیسا کہ اس سلسلے میں ڈاکڑ حفیظ الرحمن صدیقی کامقصد
اچھی سرگرمیوں میں پوری لگن سے حصہ لے تو یہی سرگرمیاں ہمارے روشن مستقبل
کی ضمانت بن سکتی ہے ہم ممتاز اور باعزت قوم کے طور پر پہنچانے اور جانے
جائیں ہمیں وہ کام نہیں کرنا چاہیے جس سے تاریخ ہمیں کبھی معاف نہ کرے وطن
کی خدمت کے لئے ہمارا انداز نمایاں ہونا چاہیے اگر ہم پختہ ارادہ کرکے اُٹھ
کھڑے ہوں تو ہم دنیا کی سب سے بڑی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں اپنی جگہ بنا
سکتے ہیں یہ صرف خواہش کی بات نہیں بلکہ دور جدید کا سب سے اہم عصری تقاضا
ہے ہماری قومی وطنی ضرورت بھی ہے اگر موجودہ لیڈران کو بھی آئندہ اقتدار
نہیں ملا تو قوم پر کیا گزرے گی یہ سوچا ہے تو کیوں نہ ان خواہش کو موجودہ
حکومت کے ساتھ شامل کرلیں اور وقت کا انتظار کریں اس لئے کہ آپ اس معاشرے
کا حصہ ہیں آپکو پورا پورا حق ہے کہ اس میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں تو
کوئی مشکل نہیں یہ بات بھی عیاں ہے کہ ہر شخص کی خواہش وقتاً فوقتا
ًخواہشات میں تبدیل ہوجاتی ہے اور بعض لوگ خواہشات تو درکنار وہ تو خواہش
کی دل میں تمنا لئے بغیر مایوس ہوجاتے ہیں اس لحاظ سے خواہش یا خواہشات کو
ماحول کی نزاکت کے تحت مد نظر رکھنی چاہیے لیکن اس کے لئے اپنی بھر پور
کوشش جاری رکھیں اس کے لئے پہلی فرصت میں ٹکٹ خریدو وزیر اعظم بنو ہوسکتا
ہے آپکو کو موقع فراہم کیا جائے اور آپ ہی اس ملک کے وزیر اعظم بن جائیں یہ
تو ہے آپ کی خواہشات کی تکمیل کی طرف جانے کا راستہ دوسری طرف ایک نظر یہاں
پر بھی کہ اب تک پاکستان میں ملک کے وزیر اعظم بننے والے جن کے اسماء گرامی
اور ان کی معیاد مدت یہ ہیں ملک کے سب سے پہلے (وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت
علی خان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ سے ۱۶ اکتوبر ۱۹۵۱ تک وزیر اعظم رہے )( وزیر اعظم
خواجہ نظام الدین ۱۷ اکتوبر ۱۹۵۱ سے ۱۷ اپریل ۱۹۵۳ تک) (وزیر اعظم محمد علی
بوگرہ ۱۷ اپریل ۱۹۵۳ سے ۱۱ اگست ۱۹۵۵ تک)( وزیر اعظم چوہدری محمد علی ۱۲
اگست۱۹۵۵ سے ۱۲ ستمبر ۱۹۵۶ تک ) )وزیر اعظم حسین شہیدسہروردی ۱۲ ستمبر۱۹۵۶
سے ۱۷ اکتوبر ۱۹۷۵(وزیر اعظم ابراہیم اسماعیل چندریگر۱۷ اکتوبر۱۹۵۷ سے ۱۶
دسمبر ۱۹۵۷ تک)( وزیر اعظم فروز خان نون ۱۶ دسمبر ۱۹۵۷ سے ۷ اکتوبر ۱۹۵۸
تک)( وزیر اعظم محمد ایوب خان ۲۴ اکتوبر ۱۹۵۸ سے ۲۸ اکتوبر ۱۹۵۸ تک )(نور
الامین ۷ دسمبر ۱۹۷۱ سے ۲۰ دسمبر ۱۹۷۱ تک وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ۱۴
اگست ۱۹۷۳ سے ۵ جولائی ۱۹۷۷ تک)( وزیر اعظم محمد خان جونیجو۲۴ مارچ ۱۹۸۵ سے
۲۹ مئی ۱۹۸۸ تک )( وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ۲ دسمبر ۱۹۸۸ سے ۱۶ اگست ۱۹۹۰
تک)( وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی ۶ اگست ۱۹۹۰ سے ۶ نومبر ۱۹۹۰تک)( وزیر
اعظم میاں محمد نواز شریف ۶ نومبر ۱۹۹۰ سے ۱۸ اپریل۱۹۹۳ تک)( وزیر اعظم میر
بلخ شیر مزاری ۱۸ اپریل ۱۹۹۳ سے۲۶ مئی تک)( وزیر اعظم میاں نواز شریف ۲۶
مئی ۱۹۹۳ سے ۱۸ جولائی ۱۹۹۳ تک)( وزیر اعظم معین احمدقریشی ۱۸ جولائی ۱۹۹۳
سے ۱۹ اکتوبر ۱۹۹۳ تک)( وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ۱۹ اکتوبر ۱۹۹۳ سے ۵ نومبر
۱۹۹۶ تک)( وزیر اعظم ملک معراج خالد ۵ نومبر ۱۹۹۶ سے۱۷فروری ۱۹۹۹ تک) وزیر
اعظم نواز شریف ۱۷فروری۱۹۹۷ سے۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ تک ( وزیر اعظم ذوالفقار خان
جمالی۲۳ نومبر ۲۰۰۲ سے ۲۶ جون ۲۰۰۴ تک )( وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین ۳۰
جون ۲۰۰۴ سے ۲۰ اگست ۲۰۰۴ تک)( وزیر اعظم شوکت عزیز۲۸ اگست ۲۰۰۴ سے۱۵ نومبر
۲۰۰۷ تک )( وزیر اعظم میاں محمد سومرو ۱۶ نومبر ۲۰۰۷ سے ۲۵ مارچ ۲۰۰۸ تک)(
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ۲۵ مارچ ۲۰۰۸ سے ۲۶ اپریل ۲۰۱۲ تک)( وزیر اعظم
راجہ پرویز اشرف ۲۲ جون ۲۰۱۲ سے ۲۴ مارچ ۲۰۱۳ تک)( وزیر اعظم جسٹس میر ہزار
خان کھوسو ۲۵ مارچ ۲۰۱۳ سے۵ جون ۲۰۱۳ تک)( وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ۵
جون ۲۰۱۳ سے ۲۸ جولائی ۲۰۱۷ تک وزیر اعظم رہے جبکہ موجودہ وزیر اعظم شاہد
خاقان عباسی یکم اگست ۲۰۱۷ میں وزیر اعظم بنے ہیں ان سب وزیر اعظموں کے دور
اقتدار میں ملک میں کیا کیا تبدلیاں آئیں کن کن حالات سے ْقوم کو گزرنا پڑا
اور ان کے کارنامے ہائے پر پھر کبھی تفصیل کے ساتھ اپنی تحریر لکھوں گا ہاں
ایک بات توبتانی تھی اور آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ ٹکٹ ملے گی کہاں سے ان کو
لیں جو موجودہ ملک میں وکٹ کی سیاست کرنے والا شخص جس نے سینما گھر کی ٹکٹ
بیچنے والے شخص پرطنز کیا تھا قوم پوچھتی ہے کیا یہ طرز سیاست ہے لہذا ملک
سے اس گھٹیا طرز سیاست کو ترک کرکے اصولوں پر مبنی سیاست کو فروغ دینا ہوگا
جبکہ واضح رہے کہ ٹکٹ بیچنے والا شخص تو اس ملک کا صدر بھی بنا اور اب تو
وہ ایک پارٹی کا سربراہ بھی ہے آپ سمجھ گئے ہونگے وہ کون شخص ہے خیر
خواہشمند حضرات کو ٹکٹ با آسانی مل جائے گی مگر اس کے لیے لازم ہے کہ ملک
سے وفاداری کا ثبوت دینا ہوگا بس ہمیشہ یہی کرو ٹکٹ خریدو اور ملک کے وزیر
اعظم بنو |