ہماری زبان میں ایک کہاوت مشہور ہے ’’ہلکو لوئی
حوالدار نو‘‘ یعنی ہلکا خون حوالدار کا ۔ شہر کے حالات خراب ہوں، چوری
ہوجائے قتل ہوجائے، ناکامی ہو، غصہ اور ذمہ داری کا بوجھ ہوتے ہوتے حوالدار
پر ہی آتا ہے۔ سو اس وقت پاکستان بھی ایسا ہی حوالدار ہے کہ قصور وار کوئی
بھی ہو غصہ نکالنے کے لیے اس وقت پاکستان سے بہتر کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ تو
دو ہزار سترہ کے جاتے جاتے یہ بھی ہونا تھا سو ہو کر رہا۔ سن تو لیا ہوگا
آپ نے پاکستان کے ناقابلِ فراموش اتحادی امریکا جس پر اعتبار کرنا ہمیشہ ہی
پاکستان کو بھاری پڑا ہے کے صدر ڈونلڈٹرمپ کہتے ہیں کہ پاکستان نوٹس پر ہے۔
اب اس نوٹس کا نوٹس لینے کہ لیے بائیس کروڑ پاکستانی تیار نظر آتے ہیں۔
ذرا سوچیے امریکا کے ڈومور کے نعرے کے جواب میں ہاں میں ہاں ملاتے ملاتے
اگر پاکستان نے نومور کا نعرہ لگا دیا تو امریکا کا کیا ہوگا۔
بہرحال آتے ہیں امریکا کے غصے کی طرف۔ غصہ تو آنا ہی تھا جب ٹرمپ کو اقوامِ
متحدہ میں اُس کی سوچ کے برعکس نتائیج حاصل ہوئے۔
پاکستان، یمن اور ترکی کی جانب سے اقوامِ متحدہ میں امریکا کی جانب سے بیت
المقدس کو اسرائیل کا مستقل دارالحکومت تسلیم کرنے اور تل ابیب سے امریکی
سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے خلاف قرارداد پیش کی جاتی ہے۔ امریکا
کا خیال ہے کہ اس قرارداد مختلف ممالک کی طرف سے مخالفت ہوگی۔ لیکن یہ کیا!
اچانک بساط پلٹ جاتی ہے اورایک سو اٹھائیس ممالک اس کی حمایت میں ووٹ دیتے
ہیں، جب کہ مخالفت میں صر ف نو ووٹ پڑتے ہیں اور پینتیس ممالک غیرحاضر ہوتے
ہیں۔ یوں امریکا ناکام ہوجاتا ہے۔ اسلامی ممالک ہی نہیں امریکا کے یورپین
اتحادی بھی امریکا کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی
میں امریکا کر رد کردیا جاتا ہے اور ہمیشہ کی طرح امریکا اپنی ناکامی کا
ملبہ ایک بار پھر پاکستان پر گراتا ہے۔
سولہ سال امریکا افغانستان میں اپنی قوم کا پیسہ ضائع کرکے بھی کام یاب
نہیں ہوتا۔ پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کی سپورٹ کا الزام لگانے والا امریکا
اتنی ہی صلاحیت رکھتا ہے تو خود کیوں اب تک حقانی نیٹ ورک کو ختم نہ کرسکا۔
پاکستان کو امداد کا طعنہ دینے والا امریکا خود گذشتہ چھے سال سے پاکستان
کے اعلٰی حکام سے مل کر اس بات کا حل نکالنے میں لگا ہوا ہے کہ کس طرح
افغانستان سے اُس کے ٹینکرز اور اسلحہ نکالا جائے۔ ظاہر ہے یہ سب پاکستان
کے تعاون کے بنا ممکن ہی نہیں۔ امریکا نیٹو کو پاکستان کی مدد سے اسلحہ اور
سامان سپلائی کرتا ہے۔ کراچی کی بندرگاہ اس وقت ایشیا میں واحد محفوظ گرم
پانی کا علاقہ ہے جسے استعمال کیے بنا امریکا کام یاب ہو ہی نہیں سکتا۔
پاکستان کو ملنے والی امداد اگر پاکستان کی ضرورت ہے تو امریکا کی بھی
ضرورت ہے کہ وہ پاکستان سے اپنے تعلقات خراب نہ کرے۔
ماضی پر نظر دوڑائے تو علم ہوگا کہ پاکستان نے امریکا سے وفاداری کرتے کرتے
اپنی جڑوں کو کھوکھلا کرلیا۔ سوویت یونین کو ناراض کرکے امریکا کی گود میں
بیٹھنے والا میرا پاکستان آج اپنے غلط فیصلوں کی پاداش میں جل رہا ہے۔ نائن
الیون کے بعد افغان جنگ میں پاکستان سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگاتے ہوئے
اپنے افغان بھائیوں کو جنگ کی طرف دھکیل دیتا ہے، جس کے نتیجے میں افغان
طالبان بھاگ کر پاکستان کا رخ کرتے ہیں اور یہاں دہشت گردی کی کارروائیوں
کو بڑھاوا دیتے ہیں، جس کے بعد دو ہزار چودہ میں نوازحکومت کی سربراہی میں
طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا دور شروع کیا جاتا ہے، جو بعد میں ناکام
ہوجاتا ہے اور یوں پاک فوج دہشت گردوں کو اُن کی زبان میں جواب دیتے ہوئے
آپریشن ضرب العضبِ کا آغاز کرتی ہے، جس میں ساڑھے تین ہزار سے زائد دہشت
گردوں کو جہنم واصل کیا جاتا ہے اور پاک فوج کے لاتعداد افسران اور جوان
دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ معاملات یہاں ختم
نہیں ہوتے، پاکستان اُس کے بعد سے اب تک قربانیاں دیتا آیا ہے اور اس جنگ
نے اب تک نہ جانے کتنے پاکستانی فوجیوں، ایف سی اہلکاروں اور پولیس افسران
کی قیمتی جانیں لے لی ہیں۔ معاملات مزید بگڑتے ہیں اور پاکستان کو ایک دفعہ
پھر اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے مزید دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے
جواب میں دو ہزار سترہ میں آپریشن رَدُالفساد شروع کیا جاتاہے۔ پاکستانی
قوم اور پاکستانی فوج ملک کے دفاع میں اور دنیا کو دہشت گردی سے محفوظ
رکھنے کے لیے اپنی قیمتی جانیں دیتی رہی اور امریکا کو اپنی وفادایوں کا
یقین بھی دلاتی رہی لیکن ہاتھ کچھ نہ آیا۔ سوائے اس کے کہ پاکستان نوٹس پر
ہے کی دھمکی سنائی دی۔
امریکا کی اس دھمکی کے جواب میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ
قیام امن کے لیے پاکستان کی کوشش کو ہماری کم زوری نہ سمجھا ئے۔ پاکستان
ترقی کررہا ہے جس کی واضح مثال یہ ہے پاکستان میں سی پیک جیسا بڑا منصوبہ
تیزی سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا جارہا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ پاکستان کے
سیاسی حالات بہت الجھ گئے ہیں۔ ملک میں اس وقت لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ اس ملک
کی تنزلی کی وجہ روز اول سے یہی رہی کہ یہاں کے سیاست داں کبھی بھی ملک سے
مخلص نہیں رہے۔ پاکستان کے باسیوں نے نہ تو خود بہ حیثیت قوم اپنی پہچان
بنائی اور نہ ہی مستقبل میں کوئی لیڈر ایسا نظر آتا ہے جو اس قوم کا شمار
طاقت ور قوموں میں کرواسکے۔ اس قوم کو لیڈر کی ضرورت ہے، تنخواہ دار ذاتی
مفادات کے بَل پر حکومت کرنے والے غلاموں کی نہیں۔ اور امریکا یہ اچھی طرح
جانتا ہے کہ یہی پاکستان کی کم زوری ہے، جس کا فائدہ وہ ہمیشہ سے اٹھاتا
آیا ہے۔
امن کے دعوے دار امریکا نے عراق کو تباہ کردیا، لیبیا کے سیاسی ڈھانچے کو
تہس نہس کردیا، ساری دنیا میں انسانی جانیں ضایع کیں اور اس تباہی میں
اسرائیل امریکا کے ساتھ ہمیشہ کھڑا رہا اور اُس کا ساتھ دیتا رہا۔ اب
امریکا اپنے اوپر یونی پاور کا ٹیگ لگائے یہ کہتا ہے کہ تمام امن معاہدے
وائٹ ہاؤس کے لان میں طے پاتے ہیں۔ حد ہوگئی، اس وقت امریکی حکومت کا یہ
حال ہے کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے امریکا کو اب یقین ہو گیا ہے کہ یونی
پاور ہونے کے اعزاز سے وہ جلد محروم ہونے والا ہے۔ کم از کم اس سال کا
دسمبر تو مستقبل کی یہی پیش گوئی دے کر جارہا ہے۔ امریکا اور اسرائیل چھپ
کے وار کرنے والوں میں سے ہیں۔ امریکا خود اپنی سیاست کا پوسٹ مارٹم ہوتے
دیکھ رہا ہے اور ظاہر ہے یہ ٹرمپ حکومت کے لیے تشویش ناک ہے۔ |