آزاد ہندوستان میں انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کے علاوہ
اگر کسی سیاسی پارٹی ونظریہ نے اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں تو وہ کمیونسٹ پارٹی
آف انڈیا ہے۔جس نے ریاست مغربی بنگال میں 33سال اور تقریبا11مہینہ لگاتار
حکومت کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں رکھی۔21جون 1977کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا
کے لیڈر جیوتی باسو پہلی مرتبہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے اور 5نومبر 2000تک وہ
ریاست کے وزیر اعلیٰ بنے رہے۔اس کے بعد 6نومبر2000سے لے کر 13مئی 2011تک
بدھادیب بھٹاچاریہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے وزیر اعلیٰ رہے۔اس پورے عرصہ
میں ریاست و ملک کے عوام محسوس کر رہے تھے کہ غالباً مغربی بنگال سے
کمیونسٹ پارٹی کا سورج اب کبھی نہیں ڈوبے گا۔لیکن نہ صرف ریاست کے عوام نے
دیکھا بلکہ پورا ملک اس پر شاہد ہے کہ 20مئی 2011کے دن جب ممتا بنرجی نے
ریاست کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تو اس کے بعد سے اب تک ریاست میں
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی ہے۔1977میں جہاں
294اسمبلی سیٹس میں سے لیفٹ فرنٹ کو 231سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی
وہیں2011میں ترنمول کانگریس کو 294میں سے 184، کانگریس کو 42اور کمیونسٹ
پارٹی آف انڈیا کوصرف40سیٹوں پر ہی کامیابی حاصل ہوئی۔لیکن اگر 2016کے
اسمبلی الیکشن پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 34سال اقتدار میں رہنے
والی پارٹی مزید تنزلی کا شکار ہوئی اور2016میں ترنمول کانگریس کو 294میں
سے 211، کانگریس کو 44اور لیفٹ فرنٹ کو کل 32سیٹوں پر ہی کامیابی مل
پائی۔اور آج یعنی 24دسمبر2017میں بائے پول الیکشن کے نتائج جو سامنے آئے
ہیں اس میں ترنمول کانگریس کی گیتا رانی بھونیا نے 64,172ووٹ سے اپنے حریف
سی پی ایم کے سیتا منڈل کو ناکام بنادیا ہے۔اس پس منظر میں جہاں ایک جانب
یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جمہوریت میں کوئی بھی پارٹی مستقل
بنیادوں پر کسی بھی ریاست و مقام پے قائم نہیں رہ سکتی وہیں یہ بات بھی پیش
نظر رہنی چاہیے کہ بظاہر بہت مضبوط قلعوں میں خود کو محفوظ سمجھنے والے آخر
کار نامراد ٹھہرتے ہیں اور ٹھہرتے رہیں گے۔
گزشتہ دنوں ہماچل پردیش کے ساتھ ریاست گجرات کے الیکشن کے نتائج منظر عام
پر آچکے ہیں۔ان نتائج میں جہاں ایک جانب ہماچل پردیش میں کانگریس کو ناکامی
اور بی جے پی کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔وہیں ریاست گجرات میں 182اسمبلی
سیٹوں میں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو 99، کانگریس پارٹی کو 77اور6آزاد امید
وار کامیاب ہوئے ہیں۔ریاست گجرات میں پہلی مرتبہ بی جے پی نے جنتا دل کے
ساتھ 1990میں حکومت بنائی تھی۔اس سے قبل جنتا پارٹی جو بعد میں تقسیم ہوئی
اوربھارتیہ جنتا پارٹی کی شکل میں سامنے آئی،نے حکومت کی باگ دوڑ11اپریل
1977سے 17فروری 1980تک سنبھالی تھی۔لیکن 13مارچ1995کے بعد کانگریس کی حکومت
ریاست میں نہیں بن سکی ۔وہیں 14مارچ1995سے لگاتار بھارتیہ جنتا پارٹی ریاست
میں حکومت کرتی آئی ہے۔اس کے باوجود برسراقتدار پارٹی کی ساخ کمزور ہوئی
ہے،عوام کا اعتماد ان پر کم ہوا ہے،مسائل میں اضافہ ہوا ہے،نتیجہ میں گزشتہ
تین مرتبہ سے ان کی سیٹوں میں گراوٹ آرہی ہے۔ساتھ ہی جس چہرے کو لے کر کئی
سالوں سے وہ حکومت کرتے آئے ہیں اس چہرے کی ساکھ بھی کمزور پڑی ہے اس کے
باوجود کہ وہی چہرا اس مرتبہ 2017میں بھی حکومت بنوانے میں مددگار ثابت ہوا
ہے۔دوسری جانب کانگریس کی سیٹوں میں گزشتہ دومرتبہ سے 2012اور2017کے اسمبلی
الیکشن میں بڑھوتری سامنے آئی ہے اور بی جے پی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔اس
مرتبہ ریاست کے عوام کی بڑی تعداد برسراقتدار حکومت اور ان کی پارٹی کے
خلاف میدان میں سامنے آئی تھی۔مختلف طبقات نے بی جے پی کے خلاف محاذ آرائی
کی تھی۔کانگریس پارٹی کے نوجوان لیڈار راہل گاندھی نے گزشتہ کارکردگی کے
مقابل بہتر کارگردگی دکھائی تھی۔ساتھ ہی پہلی مرتبہ زبان،ایشوزاور سوشل
میڈیا کا بھر پور استعمال کیاگیا تھا۔اس کے باوجود وہ ناکام رہے اور حکومت
بنانے کی پوزیشن میں سیٹیں حاصل نہیں کرپائے۔اس درمیان ای وی ایم پربھی
2014کے بعدسے لگا تارسوالات اٹھتے رہے ہیں۔یہاں تک کہ یہ معاملہ ملک کی سب
سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں پہنچا۔الیکشن کمیشن آف انڈیا کے دیئے گئے بیان
کی روشنی میں انہوں نے بھی ہر ممکن کوشش کی کہ اس میں گڑبڑی نہ ہو۔ای وی
ایم اور وی وی پی اے ٹی پرچیوں کے ملان کا مرحلہ بھی مکمل کیا گیا۔اس کے
باوجود ای وی ایم سے متعلق کچھ مشینوں کی خرابی پر گجرات الیکشن افسر نے
اعتراف کیا ہے۔4نشستوں کے ہر بوتھ پر 'کچھ'ووٹ آپس میں میچ نہیں کھا رہے
تھے۔سوالوں کے گھیرے میں آنے والے بوتھ کی تعداد معمولی نہیں ہے ان کی
تعداد1102ہے۔جس کے معنی یہ ہیں کہ 182اسمبلی حلقوں میں 1102بوتھوں پر ممکنہ
گڑبڑی ہوئی ہے۔الیکشن کے نتائج کو دیکھتے ہوئے پاٹیدار تحریک کے سربراہ
ہاردک پٹیل نے بھی ای وی ایم میں ہیرا پھیری کا الزام لگایا ہے۔ ان کا کہنا
ہے کہ ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑمیں بی جے پی ملوث ہے۔ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ
ریاست کی اسمبلی میں اس نے اکثریت حاصل کرنے میں چالاکی کا استعمال کیا
ہے۔وجے روپانی ایک بار پھر بی جے پی کی جانب سے وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں۔وہیں
دیکھنا یہ ہے کہ 2019میں کانگریس اور اس کے حلیف کیا لائحہ عمل تیار کرتے
ہیں اور کس حد تک ای وی ایم کو کنٹرول کیا جائے گا۔لیکن 2019سے قبل چند
ریاستوں میں اسمبلی الیکشن باقی ہیں جو کسی حد تک ملک اور شہریوں اور ای وی
ایم کے مزاج کو سمجھنے میں مدد کریں گے۔لہذا ضروری ہے کہ نہ صرف کانگریس
اور ان کی دیگر حلیف پارٹیاں بلکہ عوام بھی جو حکومت بنانے میں اپنا ووٹ دے
کر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔انہیں بھروسہ دلایا جائے کہ جن بنیادوں پر
الیکشن جاری ہے اور ای وی ایم جو ہر مرتبہ ایک خاص پارٹی کے حق میں غلطی
کرتی ہے اُس مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے گا؟
ہماچل پردیش اور گجرات میں گرچہ کانگریس پارٹی کو ناکامی حاصل ہوئی اور وہ
حکومت نہیں بنا سکی ۔لیکن ابھی دو دن پہلے ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالہ میں سبھی
19ملزمین کے بے قصور قراردیئے جانے کو لے کر کانگریس پارٹی خوش ہے۔سابقہ یو
پی اے حکومت کے خاتمہ اور این ڈے ای حکومت کے آنے میں جس کی سربراہی نریندر
مودی کر رہے ہیں کی بنیادی اور اہم ترین وجہ ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالہ
تھا۔ایک لاکھ 76ہزار کوڑ روپے کے ٹوجی اسپیکٹرم الاٹمنٹ گھوٹالہ کی شکل میں
پیش کیا گیا تھا۔لیکن چھ سال کے بعد آنے والے اس فیصلہ نے ان ایشوز کی پول
کھول دی ہے جو درحقیقت ایشو تھا ہی نہیں۔ثبوتوں کے فقدان کی بنا پر سی بی
آئی کی خصوصی عدالت نے کہا ہے کہ کوئی گھوٹالہ ہوا ہی نہیں۔یو پی اے کے
وزیر اعظم منموہن سنگھ کا کہنا ہے کہ فیصلہ اپنی کہانی خود کہہ رہا ہے،بڑے
پیمانے پر ہمارے خلاف پروپگنڈہ کیا گیا تھا ۔وہیں کانگریس کے لیڈر اورسینئر
وکیل کپل سبل کہتے ہیں کہ ٹوجی بدعنوانی کو اقتدار کی سیڑھی بنایا گیا،پی
ایم ،جیٹلی اور ونودرائے نے مل کے پروپگنڈہ کیا،معیشت کو بھی نقصان
پہنچایا،لہذا ان تمام لوگوں کو پورے ملک سے معافی مانگنی چاہیے۔ساتھ ہی اے
راجہ کا کہنا ہے کہ میں نے ٹیلی سیکٹر میں انقلاب لانے کا کام کیا تھا اور
مجھے ہی مجرم بنادیا گیا،قوم کبھی معاف نہیں کرے گی اور اب جبکہ عدالت کا
فیصلہ آچکا ہے اپنے آپ کو راحت محسوس کر رہا ہوں۔ادھر کنی موزی کہتی ہیں کہ
مجھے اس دن کا 6برسوں سے انتظار تھا،میرا ہمیشہ سے یقین رہا ہے کہ اندھیرا
ختم ہوگا اور بالآخرروشنی آہی گئی ۔چھ سال قبل اس گھوٹالہ نے میڈیا کے
ذریعہ عوام کا ذہن یو پی اے کے خلاف بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا،نتیجہ
میں یوپی اے کو حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔آج جبکہ فیصلہ سامنے آیا ہے
اور وہ بھی گجرات الیکشن کے نتائج کے بعد تو اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا اثر
2019کے پارلیمنٹ الیکشن پر کیا پڑے گا۔کیونکہ 2019کے لوک سبھا الیکشن اور
اس کے نتائج ملک کو ایک نئی سمت دینے والے ہیں جس کے مثبت و منفی اثرات دیر
پا ہوں گے!
|