ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 25 کروڑ 80 لاکھ
افراد اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں رہ رہے ہیں۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے
کہ یہ سن 2000 کے بعد سے ترک سکونت کرنے والوں میں 49 فی صد اضافہ ہے۔
تارکین وطن سے متعلق عالمی ادارے کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں
بتایا گیا ہے کہ بین الاقوامی طور پر اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں
آباد ہونے والے تارکین وطن میں سن 2000 سے 2 اعشاریہ 8 فی صد اضافہ ہوا ہے،
جب کہ اس سال یہ اضافہ 3 اعشاریہ 4 فی صد ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ
امیر ملکوں کی جانب ترک سکونت کرنے والوں کی شرح سن 2000 میں 9 اعشاریہ 6
فی صد تھی جو سن 2017 میں بڑھ کر 14 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے
اقتصادیات اور سماجی امور کے محکمے نے کہا ہے کہ قابل اعتماد اعداد و شمار
اور شواہد کی مدد سے ترک وطن اور اس سلسلے میں پالیسیوں کے بارے میں پھیلے
ہوئے غلط تصورات کا ازالہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ پچھلے سال ستمبر میں
اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ملکوں نے، جن میں امریکہ بھی شامل ہے، سابق
صدر براک اوباما کی قیادت میں پناہ گزینوں اور تارکین وطن سے متعلق اعلان
نیویارک منظور کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ کوئی بھی ملک تنہا بین الاقوامی
نقل مکانی کے مسئلے سے نہیں نمٹ سکتا۔اس اعلان میں رکن ملکوں نے ترک وطن سے
متعلق بہتر پالیسیاں اختیار کرنے اور پناہ گزینوں کا بوجھ زیادہ برابری کی
بنیاد پر مل کر بانٹنے پر اتفاق کیاتھا۔ انہوں نے تارکین وطن کے حقوق کا
تحفظ کرنے، بہتر برتاوکا بھی عہد کیا تھااور اس بات کا اشارہ بھی دیا تھا
کہ 2018 میں ایک عالمی پالیسی اختیار کی جائے گی۔ لیکن دسمبر کے اوائل میں
امریکہ نے کہہ دیا کہ ہم عالمی اثرات سے متعلق پالیسی کے مذاکرات میں حصہ
لینے کے عمل سے خود کو الگ کر رہے ہیں۔ٹرمپ کی پالیسی تو سامنے آچکی
ہے۔اقوام متحدہ کے لیے امریکی سفیر نکی ہیلی کا رد عمل تھا کہ یہ اعلان
امریکہ کی خودمختاری سے مطابقت نہیں رکھتا۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا
گیاہے کہ 2017 میں امیر ملکوں نے دنیا بھر میں 64 فی صد تارکین وطن کا بوجھ
اٹھایا ۔ یہ تعداد تقریباً 16 کروڑ 50 لاکھ ہے۔اس سال تقریباً دو تہائی
تارکین وطن صرف 20 ملکوں میں رہ رہے ہیں۔ شمالی امریکہ اور بحر اقیانوس کے
گرد واقع ملکوں میں تارکین وطن کے منتقل ہونے سے وہاں آبادی کی شرح میں
اضافہ ہوا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ انسانوں کو جنگ خود ختم کر دینی چاہیے اس سے پہلے کہ جنگ
انھیں ختم کردے۔لیبیا ،عراق میں شورش اورشام میں شروع ہونے والی جنگ نے
پوری دنیا خصوصا یورپ کو بدترین انسانی المیے سے دوچار کر دیاہے۔ خانہ جنگی
نے شام کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے اور اس کے اپنے باشندے امن کی تلاش
میں سمندر کی بے رحم لہروں کی نذر ہو رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اب تک 2 لاکھ
20ہزار شامی اس جنگ کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان میں 30 ہزارباغی بھی شامل ہیں۔
دوسری طرف یونیسیف کے مطابق 12 ہزار بچے اور 77 ہزار عورتیں اس بھیانک
لڑائی کی نذر ہو چکے ہیں جبکہ زندگی بچانے کی کوشش میں سمندر کے راستے یورپ
میں داخلے کی کوششوں میں جان سے ہاتھ دھونے والوں کی تعداد الگ ہے۔
افغانستان میں کئی دہائیوں سے جاری جنگ نے بھی وہاں کے لوگوں کو پاکستان
اور یورپ کی جانب ہجرت پر مجبور کیا۔ پاکستان لاکھوں مہاجرین کا بوجھ
برداشت کر رہا ہے اسی طرح آج کل لیبیا کو بھی انسانی سمگلروں اور مافیا نے
جنت بنا رکھا ہے اس ب کی ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے جنہوں نے ان ممالک
کے امن کو تہس نہس کیا،منتخب حکومتیں گرائیں،وسائل لوٹے اور اب وہی ظالم
ممالک ان مہاجرین کو مستقل سٹیٹس دینے کے لئے بھی زور دے رہے ہیں جو کہ
قبول نہیں کیا جا رہا۔گزشتہ برسوں میں پاکستان پر دباو ڈالا گیا تھا کہ
افغان مہاجرین کو مستقل شہریت دے دی جائے مگر حکومت نے اسے یکسر مسترد کیا
اس ضمن میں اسلام آباد میں متعین لیبیا کے سفیر نظار احمد نبیہا کا کہنا
تھا کہ پناہ گزین ترکی کے راستے یونان اور لیبیا کے راستے اٹلی میں داخل
ہونے کی کوشش کر تے ہیں۔ تارکین وطن کی جانب سے لیبیا سے اٹلی تک کا سمندری
راستہ سب سے زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیبیا نے بھی غیر قانونی تارکین
وطن کو مستقل سکونت دینے کے عالمی طاقتوں کے مطالبہ کو مسترد کر تے ہوئے
کہا ہے کہ اِ سوقت ڈیڑھ ملین سے زائد غیر قانونی تارکین وطن لیبیا میں ڈیرہ
ڈالے ہوئے ہیں اور عالمی طاقتیں بضد ہیں کہ انہیں لیبیا میں ہی مستقل سکونت
دے دی جائے جو کہ سراسر غیر اخلاقی غیرقانونی مطالبہ ہے۔ قومی اتفاق رائے
سے بنی لیبیا کی حکومت اِسکو قبول نہیں کرتی ۔ سی این این کی حالیہ رپورٹ
کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ لیبیا کے آئین و قانون کے مطابق انسانی
سمگلنگ، منشیات سمگلنگ ممنوع ہے۔ اِس وقت دنیا بھر میں لیبیا واحد ملک ہے
جو غیر قانونی تارکین وطن کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ سالانہ 6-5 لاکھ مختلف
ممالک سے یہاں پہنچتے ہیں جو مافیا، انسانی سمگلرز کو پیسے دیتے ہیں تا کہ
انہیں یورپ پہنچایا جائے ۔لیبیا کو انسانی سمگلنگ میں ملوث کئے جانے کے
مغربی الزامات بے بنیاد ہیں یہ کام تو انسانی سمگلنگ میں ملوث گروہ کرتے
ہیں۔ مقامی طور پر اس دھندے سے نمٹنے کے لئے کمیشن قائم کیا گیا ہے۔ عالمی
طاقتوں کی جانب سے ان غیر قانونی تارکین وطن کو لیبیا میں ہی مستقل سکونت
دینے کو کوششوں کی ہر ممکن مزاحمت کی جائے گی۔غیر قانونی تارکین وطن کو
عالمی گروہ دہشتگردی، منشیات ،اسلحہ سمگلنگ کے لئے بھی استعمال کر رہے ہیں
۔ امریکی جنگ نے لیبیا کی فوج اور فضائیہ کو ختم کر دیا ہے ،چھ ہزار
کلومیٹر سرحد اور اڑھائی ہزار کلومیٹر ساحل کو کیسے محفوظ بنایا
جائے۔پاکستان پر افغانیوں کا بوجھ ہے اس بوجھ نے معیشت اور امن کو سخت
متاثر کیا ہے جب کہ لیبیا کو مختلف ممالک کے مہاجرین نے یورپ جانے کے خواب
کی تعبیر پانے کے لئے گزرگاہ بنایا ہوا ہے۔یہ حقیقت آشکار ہوگئی ہے کہ غیر
قانونی تارکین وطن غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے ہیں انہیں ان کے
ممالک کو بھجوانا ہی امن کی ضمانت ہے۔ |