کشمیر کے آر پار تجارت کرنے والے ٹریڈرز نے26دسمبر سے
سرینگر مظفرآباد تجارت بند کر نے کا اعلان کر دیا ہے۔یہ اعلان مظفر آباد
میں کیا گیا۔کسٹم حکام کی جانب سے مقبوضہ کشمیر سے آنے والے مال بردار
ٹرکوں کی مبینہ پکڑ دھکڑ ،تھانہ صادق آباد راولپنڈی کی جانب سے 40جنگ بندی
لائن ٹریڈرز کے خلاف مقدمہ درج کر نے ،تین ماہ سے ہیروئن برآمدگی کیس میں
گرفتار تین بے گناہ افراد کی جوڈیشل لاک اپ چناری چکوٹھی سے عدم رہائی کے
خلاف تاجر احتجاج کر رہے ہیں ۔ ٹریڈرز کہتے ہیں کہ2008ء میں جنگ بندی لائن
کے آر پار تجارت اور سفر شروع کیا گیا۔یہ تجارت شروع کرنے کا مقصد منقسم
کشمیر کے دونوں خطوں کے عوام کو قریب لانا اور مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف
ایک مثبت کوشش کرنا تھا۔آر پار تجارت کے شروع میں کشمیر کے چند لوگوں نے اس
ٹریڈ کو چلانے کے لیے اپنے آپکو وقف کیا اور اپنی جمع پونجھی اس تجارت میں
لگا دی ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ٹریڈ کا معاہدہ کرتے وقت اس کے دیگر قواعد و
ضوابط کو مد نظر نہیں رکھا گیا جس کی وجہ سے دو طرفہ تجارت بری طرح متاثر
ہو رہی ہے۔اس وقت یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ ٹریڈ زیرو ٹیرف بغیر کسٹم کے چلے
گی اور اس پر کسی بھی قسم کی ڈیوٹی عائد نہیں ہو گی ۔اس تجارت کے بارے میں
مختلف اطراف سے تحفظات بھی ظاہر کئے گئے۔تا ہم کسی نہ کسی صورت میں تجارت
جاری رہی۔ بڑا مسلہ منشیات کی برآمدگی کی صورت میں پیدا ہوا۔آج تاجر کہتے
ہیں کہ ایل او سی ٹریڈرز کی آئے روز کسٹم کی جانب سے مشکلات میں اضافہ کیا
جا رہا ہے مقبوضہ کشمیر سے آنے والے مالوں سے لوڈ ٹرکوں کو پاکستان میں
داخل ہوتے ہی کسٹم حکام ضبط کر کے نیلام کر دیتے ہیں۔ 2008ء سے آج تک
سینکڑوں ٹرکوں کو ضبط کر کے نیلام کرتے ہوئے کشمیری تاجروں کا معاشی قتل
ہوا۔ مقبوضہ کشمیر کی عوام نے 2008ء سے قبل یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ سرینگر
کی منڈی راولپنڈی۔ جو ایک تاریخی راستہ ہے۔ مگر کسٹم کے ساتھ لا تعداد
مذاکرات کے باوجودمسلہ حل نہ ہو سکا۔ ٹریڈرز کے مال ضبط کر کے انھیں نیلام
کرتے ہوئے اس ٹریڈ کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا گیا۔ ٹریڈ رز کہتے ہیں کہ
انھوں نے متعدد مرتبہ یہ پیشکش بھی کی کہ اگر قانون اس بات کی اجازت دیتا
ہے تو مقبوضہ کشمیر سے آنے والے مال پر معقول کسٹم ڈیوٹی وصول کر کے
پاکستانی قومی خزانہ میں جمع کروائی جائے لیکن ایسا نہ کیا گیا۔ تاجر رشوت
طلب کرنے کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ جو قابل قبول نہیں ہے۔ 2008ء سے آج تک
ہزاروں کی تعداد میں مال بردار ٹرک آزاد کشمیر آئے اور مقبوضہ کشمیر گئے ۔
بلا شبہ اس سے لا تعداد گھرانوں کا روزگار وابستہ ہوا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل
ٹریڈ اینڈ ٹریول اتھارٹی آزاد کشمیر بریگیڈئیر(ر) طاہر حمید ملک نے اس
حوالہ سے متعدد کوششیں کیں ۔کسٹم حکام سے ملاقاتوں کے علاوہ انھیں خطوط بھی
لکھے گئے اور ڈی جی ٹا ٹا کی جانب سے کسٹم حکام کو یہ بھی باور کروایا گیا
کہ تاجر سی بی ایم کو چلانے کے لیے کسٹم کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں
لیکن کسٹم حکام اس تجارت کو آزاد کشمیر تک محدود کرنے کی بات کرتے ہیں۔
آزاد کشمیر کی مارکیٹ اتنے بڑے ٹریڈ کے حجم کو سہارا نہیں دے سکتی اور نہ
ہی اتنے مال کی کھپت آزاد کشمیر میں موجود ہے۔ٹریڈرزنے آزاد کشمیر کی معیشت
کی مضبوطی کے لیے بار ہا یہ بھی مطالبہ کیا کہ آزاد کشمیر میں منڈیا ں قائم
کی جائیں اور پاکستانی تاجروں کو آزاد کشمیر کی منڈیوں سے مال کی خرید و
فروخت کے لیے دعوت دی جائے لیکن اس جانب بھی کوئی توجہ نہیں کی گئی۔چکوٹھی
اور تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ سے تجارت کر نے والے تاجر ایک بار پھر آزاد
کشمیر اور پاکستان کی حکومتوں اور ملکی سلامتی کے اداروں کے ذمہ داران سے
مطالبہ کرترہے ہیں کہ اگر قانو نا ًمقبوضہ کشمیر سے آنے والے مال پر کسٹم
عائد ہوتا ہے توکسٹم وصولی کا طریقہ کار واضع کیا جائے۔تا کہ بھارت کو کسی
پروپگنڈہ کا موقع نہ مل سکے۔
یہ فیصلہ اب پاک بھارت وزارت خارجہ میں ہو گا کہ کشمیر کے آر پار تجارت اور
سفر کا مستقبل کیسا ہونا ہے۔ کیوں کہ اکتوبر 2008سے کشمیر کی جنگ بندی لائن
کے آر پار شروع کی گئی تجارت کو ایک بار پھر بند کر دیا گیا ہے۔ ایک بار
پھر بھارت کے حکام نے الزام لگایا ہے کہ آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر جانے
والے ایک ٹرک سے منشیات کی بھاری کھیپ برآمد کی گئی ۔ جسکی مالیت عالمی
مارکیٹ میں اربوں روپے بتائی گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی اسی طرح کا الزام
لگایا گیا تھا ۔ ٹریڈ اینڈ ٹریول اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر جنرل بر
یگیڈئیر(ر)محمد اسماعیل نے کہا تھا’’اگر کسی ٹرک سے منشیات بر آمد ہوئی ہیں
تو اس کی اطلاع اور ثبوت متعلقہ حکام کو دیئے جائیں۔ ورنہ ڈرائیور کہے گا
اسے کچھ معلوم نہیں مال تو تاجر کا ہے۔ تاجر کہے گا اسے کیا معلوم ڈرائیور
نے کیا ڈال دیا ہے۔ ان الزامات کے درمیان حقائق سامنے کبھی نہیں آ سکیں گے۔
اگر بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی عدالت میں گرفتار ڈرائیور کو پیش کیا۔ اس
مقدمہ کا حال بھی اجمل قصاب جیسا ہی ہو گا یا افضل گورو جیسا۔خود ہی قاتل
اور خود ہی جج۔ بھارت اس واقعہ کی انوسٹی گیشن رپورٹ اور میٹیریل شواہد
آزاد کشمیر کے متعلقہ حکام کو فراہم کرے۔ یک طرفہ کارروائی کا مقصد یہ
تجارت اور سفر کو بند کر دینا ہے۔ سفر اس لئے بند ہے کہ اگر بھارتی فورسز
نے چیکنگ کے دوران کوئی ہیروئین کا پیکٹ کسی مسافر کے سامان میں ڈال دیا تو
کیا ہو گا۔ یہ خطرناک صورتحال ہے۔ ‘‘کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان تجارت
اور سفر چار مقامات سے ہوتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ مصروف یہی چکوٹھی اوڑی
کا راستہ ہے۔مقبوضہ کشمیر سے آنے والے مال بردار ٹرکوں سے مال ڈرائیورز اور
تاجروں کے سامنے اتارا جاتا ہے۔ سب کو پتہ ہوتا ہے کہ یہی مال ہے۔ اس میں
شفافیت بھی نظر آتی ہے۔ کوئی اپنی مرضی سے اپنا سامان اس میں شامل کر کے
اسے کسی کے سر پر نہیں تھونپ سکتا ہے۔ اس کے بر عکس آزاد کشمیر سے مقبوضہ
کشمیر جانے والے ٹرکوں سے مال اتارتے وقت ڈرائیورز اور تاجروں کی موجودگی
ممنوع قرار دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز اس پار منشیات سمگلنگ کی
باتیں سامنے آتی ہیں۔ ٹرکوں سے قابل اعتراض اشیاء بھی بر آمد کر لی جاتی
ہیں۔وہاں کوئی شفاف نظام متعارف نہیں کیا گیا ہے کہ جس سے مستقبل میں
شکایات کا خاتمہ ہو سکے۔ کبھیبھارتی حکام اشیاء پر اعتراض کرتے ہیں اور
کبھی منشیات سمگلنگ کا الزام لگا دیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ جموں و کشمیر کی
مصنوعات پر ہی تجارت ہونی چاہیئے۔ کشمیر میں پیدا ہونے والی مصنوعات کی
تعداد قلیل ہے۔ کشمیری اسے جذباتی طور پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آزاد کشمیر
اور مقبوضہ کشمیر میں ہی نہیں بلکہ جہاں بھی منقسم کشمیری ہیں ان کو ملاقات
کا موقع اورسہولت پہنچانے سے ہی کشمیر کے سی بی ایمز کی اہمیت بڑھ سکے گی۔
پابندیوں ، رکاوٹوں، مال ضبطی اور سمگلنگ کے الزامات سے اعتماد سازی کی فضا
ہی سوگوار بن جاتی ہے۔کسٹم حکام کو بھی کسی قاعدے قانون کے دائرہ میں
لایاجانا چاہیئے ۔ حکومت پاکستان کشمیری تاجروں کا ہر گز نقصان نہیں چاہتی۔
البتہ کسٹم حکام کی جانب سے مال کی ضبطی اور اس کی نیلامی سے تاجروں کو
نقصان ہو رہا ہے۔ اس پر ہمدردانہ غور کیا جانا ضروری ہے۔ |