پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھارتی دہشت
گرد اور جاسوس کلبھوشن یادیو کی اُس کی والدہ اور بیوی سے ملاقات کرائی۔
تاہم اس کے جواب میں بھارت نے اپنی روایتی ذلالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لائن
آف کنٹرول پر فائرنگ کرکے پاکستان کے تین فوجیوں کو شہید کردیا۔ بھارت کو
عزت راس نہیں آتی اور ہمیشہ پاکستان کی خیر سگالی کا جواب زیادتی سے دیتا
ہے۔ قیدیوں سے سلوک کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کی پالیسیوں میں زمین
آسمان کا فرق ہے۔ بھارت نے ایک جنگی قیدی سپاہی مقبول حسین کو بدترین تشدد
کا نشانہ بنایا اور پاکستان مردہ باد کا نعرہ نہ لگانے کی پاداش میں اُس کی
زبان تک کاٹ دی۔ اسی طرح بھارت نے ایک کشمیری رہنماء افضل گورو کو عوامی
خواہشات کی تکمیل کے لئے نہ صرف پھانسی کی سزا دی بلکہ اُس کے اہل خانہ کو
بھی افضل گورو سے ملنے کا موقع فراہم نہ کیا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے
کلبھوشن یادیو سے اُس کی والدہ اور اہلیہ کی انسانیت کی بنیاد پر ملاقات
کرائی۔ حالانکہ یہ وہی کلبھوشن یادیو ہے جو اعتراف کرچکا ہے کہ وہ بھارتی
بحریہ کا حاضر سروس افسر اور خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا ایجنٹ ہے جو کراچی کے
علاوہ کوئٹہ، تربت اور بلوچستان کے دیگر شہروں میں دہشت گردی کی مذموم
کارروائیوں میں ملوث رہا۔ بالآخر ایران سے پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے
سکیورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں پکڑا گیا۔ فوجی عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی
جس کے خلاف بھارت اس کا مقدمہ عالمی عدالت میں لڑ رہا ہے۔ کلبھوشن نے اپنی
اہلیہ سے ملاقات کی درخواست کی تھی جس پر حکومت پاکستان نے نہ صرف اس کی
بیوی بلکہ والدہ کو بھی اس سے ملنے کی اجازت دے دی۔ اس موقع پر بھارتی ڈپٹی
ہائی کمشنر بھی ساتھ والے کمرے میں کلبھوشن یادیو سے اس کی والدہ اور بیوی
کی ملاقات کا منظر دیکھ رہے تھے تاہم کلبھوشن کیونکہ اپنے دہشت گرد ہونے کا
اعتراف کرچکا ہے اور وہ عام قیدی نہیں اس لئے اس پر ویانا کنونشن کا اطلاق
نہیں ہوتا۔ اس لئے قونصلر رسائی نہیں دی گئی لیکن بھارتی میڈیا مسلسل
پاکستان کے خلاف من گھڑت اور بے بنیاد منفی پراپیگنڈا مہم چلائے ہوئے ہے
حالانکہ پاکستان نے ملاقات کی کوریج کے لئے بھارتی میڈیا کے نمائندوں کو
ویزوں کی پیشکش کی تھی کیونکہ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق اس کے پاس
چھپانے کے لئے کچھ نہیں لیکن بھارتی حکومت کے پا س اپنے پاکستان دشمن رویے
کو چھپانے کے لئے بہت کچھ ہے۔ اس لئے اس نے اجازت نہیں دی۔ پاکستان نے
مقدمہ عالمی عدالت میں زیر سماعت ہونے کے باعث قونصلر رسائی کی بھارتی
درخواست مسترد کردی تھی تاہم اس کے سفارتی نمائندے کو ملاقات کے وقت موجود
رہنے کی اجازت دیدی گئی۔ پاکستان نے یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ یہ آخری
ملاقات نہیں۔ گویا ملاقاتوں کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ کلبھوشن یادیو ایک
دشمن ملک کا جاسوس ہے جو کسی ہمدردی کا مستحق نہیں لیکن اس نے خود اعتراف
کیا ہے کہ پاکستانی حکام مجھ سے بہت عزت اور وقار سے پیش آئے اس کا خیال
رکھا اور وہ مکمل طور پر صحت مند ہے ۔ کیا بھارت دعویٰ کرسکتا ہے کہ معمولی
باتوں پر پکڑے جانے والے پاکستانی قیدیوں، خصوصاً جموں و کشمیر میں حریت
رہنماؤں اور عام شہریوں سے اس کا سلوک وحشیانہ نہیں ہے؟۔بھارت نے پاکستان
کے خلاف جو نیا جنگی ڈاکٹراین بنا رکھا ہے اس کا مرکزی ہدف بلوچستان اور
کراچی ہے۔ کلبھوشن علیحدگی پسندوں کو فنڈنگ دیا کرتا تھا،انہیں اسلحہ فراہم
کرتا تھا۔ پوراپاکستان گواہ ہے کہ ضرب عضب اور کراچی میں رینجرز کے آپریشن
سے پہلے حالات کس قدر خراب تھے۔ہر روز دہشتگردی کے واقعات اور ٹارگٹ کلنگ
نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔لیکن جیسے جیسے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن
کامیاب ہوتے گئے حالات میں بہتری آتی گئی۔کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد تو
بلوچستان اور کراچی دونوں میں حالات مزید بہتر ہوئے۔ کلبھوشن کی گرفتاری نے
بھارت کے پورے نیٹ ورک کو عیاں کردیا جو بھارت کے ایما پر پاکستان میں
دہشتگردی کررہا تھا۔یہ بروقت کارروائی کی گئی جس نے پاکستان کو بہت بڑی
تباہی سے بچا لیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ کلبھوشن ایک غیر ملکی جاسوس ہے، جو
پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی غرض سے داخل ہوا تھا، جسے
رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا، اس لیے قیدیوں سے متعلق ویانا کنونشن کی
شقوں کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانیوں کے قاتل
اور دہشت گرد کلبھوشن یادیو کو پھانسی کی سزا دینے میں مزید کوئی تاخیر نہ
کی جائے۔ انسانی ہمدردی کے تحت پاکستان کی بھارتی دہشت گرد سے اس کی والدہ
اور بیوی کی ملاقات کے جواب میں بھارت نے اپنی احسان فراموشی اور اخلاقی
پستی کا جواب اس طرح دیا آزاد کشمیر کے ضلع راولا کوٹ میں رکھ چکری کے مقام
پر کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلا اشتعال فائر کھول کر تین
پاکستانی جوانوں کو شہید اور ایک کو زخمی کردیا۔ پاک فوج نے اگرچہ موثر
جوابی کارروائی کرکے بھارتی توپوں کو خاموش کردیا لیکن اس واقعے سے پاکستان
اور بھارت کے اخلاقی اور سفارتی معیارات واضح ہو گئے۔ |