نہ جانے کتنے برس بیت گئے مگر آنسوؤں سے بھیگاناامیدی میں
ڈوبا اس نظام کا ماتم کرتا ہوا وہ چہرہ اکثر میری نگاہوں کے سامنے گھوم
جاتا ہے اس چہرے کی بے بسی میرے ضمیر پر چابک برساتی ہے اور بہت سارے
سوالیہ نشان مجھے مضطرب کردیتے ہیں ۔ اس نظام کی چکی میں پستے کروڑوں لوگوں
کی گھٹی گھٹی چیخیں سماعتوں سے یوں ٹکراتی ہیں جیسے کوئی کانوں میں ابلا
ہوا گرم لاوہ انڈیل رہا ہو اور آنکھیں فتح کا نشان بنائے شاہ رخ جتوئی جیسے
کرداروں کو دیکھتی ہیں پھر چیختی چھنگاڑتی بدمست طاقت کے قدموں تلے کچل کر
امید ایک بار پھر وینٹی لیٹر پر منتقل ہوجاتی ہے ۔
وہ چہرہ تو میری یاداشت پر نقش ہے مگر نام گڈ مڈ سا ہوگیا ہے مگر اس سے کیا
فرق پڑتا ہے کہ اس کا نام کیا تھا ۔ ان دنوں میں ایک مقامی روزنامہ اخبار
میں ایڈیٹر کے فرائض سر انجام دے رہا تھا ۔ ایک روز وہ نوجوان میرے پاس آیا
، اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی ،وہ خاموشی سے میرے سامنے بیٹھ گیا میرے
استفسار پر اس نے کچھ کاغذات میری طرف بڑھادیے میں نے دیکھا وہ اس کی میڑک
اور ایف ایس سی کے رزلٹ کارڈز کی نقول تھیں ، میں سمجھا شاید وہ ملازمت کی
غرض سے آیا ہے مگر اس کے امتحان میں حاصل کردہ نمبروں نے مجھے
جھٹکاسالگایااس نے میڑک اور ایف ایس سی دونوں امتحانات میں بورڈزسے
پوزیشنیں حاصل کی تھیں اور ایف ایس سی پری میڈیکل میں اس کے نمبر شاید 95
فیصد کے قریب تھے ۔ اس کے شاندار امتحانی نتائج دیکھ کر میں نے سوالیہ
نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا
’’سر مجھے کسی سرکاری میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں مل سکا ، میں میڈیکل
کالجز کے انٹری ٹیسٹ میں کامیاب نہیں ہوسکا‘‘
’’مگر کیسے؟ یہ کیونکر ممکن ہے ؟‘‘ میں حیرت کی شدت سے تقریباً چیخ ہی
اُٹھا۔
’’ اس کیسے اور کیوں کا جواب ہی ڈھونڈ رہا ہوں ، ہر در پر دستک دے چکا مگر
کوئی شنوائی نہیں ہے ‘‘ اس کی آواز آنسوؤں میں رندھ گئی تھی ‘ میرا باپ راج
مزدور ہے ، بہ مشکل گزر اوقات ہوتی ہے پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں تو داخلہ
کا سوچ بھی نہیں سکتا خواہش تھی کہ ڈاکٹر بنتا مگر غریب صرف خواب ہی دیکھ
سکتا ہے جو آنکھ کھلتے ہی بے رحم حقیقیں نوچ ڈالتی ہیں‘‘
میں کیا کرسکتا تھا سوائے دکھ کے اظہار ، تسلی کے چند جملوں اور فرسودہ
نظام کو لعن طعن کرنے کے ، ایک خبر بنادی جو چھپ بھی گئی مگر یہ کون سا
مہذب معاشرہ ہے جہاں کوئی خبر کو اہمیت دے گا ۔ یہاں تو اپنی جائز بات
منوانے کیلئے بھی مسلح جھتے چاہیں جومہینوں مرکزی شاہراہوں کو بند کردیں
وفاقی دارالحکومت میں خیمہ زن ہو جائیں تو شاید حکومت وقت خواب غفلت سے
انگڑائی لے اور پھر بھی بات چیت میں ذمہ داری پر مجبوری جیت جائے ۔
میری اس نوجوان سے پھر کبھی ملاقات نہیں ہوئی مگر اس معاشرے کے ہر گلی کو
چے میں بکھری حق تلفی کی کوئی نئی داستان سننے کوملتی تو وقت کی گرد تلے سے
وہ بے بس ، لاچار اور مجبور چہرہ دوبارہ نکل کرسامنے آجاتا ۔ پھر برسوں بعد
انٹری ٹیسٹ کی آڑ میں کھیلا جانے والا ڈرامہ بے نقاب ہوگیا ۔ پورے ملک میں
ہاہا کار مچ گئی چند روز کے شور و غل کے بعد حسب معمول یہ سیکنڈل بھی سرد
خانے کی نذر ہوگیا اس گھناؤنے کھیل کی بھینٹ چڑھنے والوں کو انصاف ملا نہ
ہی نظام کی درستگی کا کوئی طریقہ متعین ہوا بس چند دن ٹی وی چینلز کی
سکرینوں پر بریکنگ نیوز جھلملائی اخبارات کی شہ سرخیاں چھنگاڑیں سیاسی
جماعتوں نے ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھا لا انصاف کے علمبرداروں نے اپنی حیثیت
منوائی نئی حصہ داریاں وجود میں آئیں اور پھر سب ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا ۔
انصاف کی سب سے بلند مسند پر تشریف فر ما چیف جسٹس ثاقب نثارنے حالیہ دنوں
میں تعلیم کے سوداگروں کے گرد گھیرا تنگ کیا ہے ان کے از خود نوٹس کے دوران
رونگٹے کھڑے کردینے والے انکشافات سامنے آرہے ہیں لیکن یہ از خود نوٹس بھی
اس نظام کے منہ پر طمانچہ ہے ایسے نظام پر دو حرف کیوں نہ بھیجے جائیں کہ
جہاں تعلیمی اداروں میڈیکل کالجوں اور لاء کالجز تک کی ہیرا پھیریوں پر
ہماری سے سے بڑی عدالت کو حرکت میں آنا پڑتا ہے اس ملک کے دیگر سارے ادارے
کس مرض کی دواہیں اور کب تک قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھیرنے والوں کو
’’چونکہ چنانچہ‘‘ کی پتلی گلی فراہم کی جاتی رہے گی ۔ اس نظام کی فرسودگی
کے ملبے تلے دبی چیخیں اگر اب بھی ہم نے نہ سنی اور بہرہ پن کا تماشہ جاری
رہا تو اس نظام کو ناکارہ بنا کر اس کی پوجا پاٹ پر اصرار کرنے والے خود
ناکارہ ہوجائیں گے کیونکہ اقربا پروری ، خود غرضی اور بے حسی کی بھی کوئی
نہ کوئی حد ہوتی ہے اور آخری حدیں پھلانگنے والے پھر صرف تاریخ کے اوراق
میں عبرت کے طور زندہ رہ جاتے ہیں ۔#
|