| 
		 حلقہ این اے 122 لاہور کی سیاست کا اہم مرکز سمجھا جاتا 
		ہے اور اسے ملکی سیاست میں بھی غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہاں سے 
		موجودہ سپیکر قو می اسمبلی سردار ایاز صادق لگا تار چار مرتبہ رکن قومی 
		اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی 
		یہاں سے سردار ایاز صادق کے مدمقابل الیکشن لڑ چکے ہیں لیکن انہیں شکست کا 
		سامنا کرنا پڑا تھا اسی حلقہ سے محترمہ بے نظیر بھٹو ، طارق عزیز ، میاں 
		عبدلوحید ، بھی ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں یہ حلقہ سمن آباد ، 
		اچھرہ ، اپر مال ،شاہ جمال ، گڑ ھی شاہو ، دھرم پورہ پہ مشتمل ہے ، لاہور 
		ریلوے سٹیشن ، میاں میر دربار ، شملہ پہاڑی ، بھی اسی حلقہ میں آتے ہیں ،
		 
		 
		این اے 122 پہلے این اے 94 ہوا کرتا تھا سال 1988 کے الیکشن میں یہاں سے 
		محترمہ بے نظیر بھٹو ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئیں بعد میں انہوں نے یہ نشت 
		خالی کر دی تھی اور اپنی آبائی نشت لاڑکانہ کی سیٹ سے وہ وزیر اعظم 
		پاکستان منتخب ہو ئی تھیں این اے 94 میں انہوں نے یہاں اسلامی جمہوری اتحاد 
		کے حمایت یافتہ امیدوار میاں عمر حیات کو شکست دی تھی محترمہ نے 53425 ووٹ 
		لیئے جبکہ عمر حیات نے 43733 ووٹ حاصل کیئے ، 1990 میں یہاں مقابلہ اسلامی 
		جمہوری اتحاد کے عمر حیات اور سابقہ گورنر پنجاب مرحوم سلمان تاثیر میں ہوا 
		جو پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے مگر یہاں اس بار کامیابی میاں عمر حیات کو 
		ملی انہوں نے 53353 ووٹ لیئے جبکہ سلمان تاثیر نے 51953 ووٹ لیئے یہ ایک 
		کافی سخت مقابلہ تھا جس میں فتح عمر حیات کے حصہ میں آئی ، 1993 میں مسلم 
		لیگ ن نے اپنا امیدوار میاں عبدلوحید کو نامزد کر دیا جبکہ پیپلز پارٹی کی 
		طرف سے ایک بار پھر سلمان تاثیر ہی امیدوار بنے اس بار بھی یہاں کامیابی 
		مسلم لیگ ن کے حصہ میں آئی یاد ر رہے 1988 1990 کے الیکشن مسلم لیگ ن نے 
		ایک سیاسی اتحاد بنانے کی وجہ سے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے لڑے تھے جو 
		بعد ازاں ٹوٹنے کے بعد نواز شریف نے مسلم لیگ ن کی بنیاد رکھی تھی ، 1993 
		میں یہاں عبدلوحید نے 52038 ووٹ لیکر کامیابئ حاصل کی جبکہ سلمان تاثیر نے 
		47283 ووٹ لیئے ، 1997 میں یہاں سے مسلم لیگ ن اپنا امیدوار ایک بار پھر 
		بدل لیا اور اس بار یہاں ٹکٹ معرف ٹی وی انیکر پرسن طارق عزیز کو دیا جبکہ 
		پیپلز پارٹی نے بھی اس بار اپنا ٹکٹ سلمان تاثیر کی بجائے میاں مصباح 
		ارحمان کو دیا لیکن اس الیکشن میں بھی فتح مسلم لیگ ن کے طارق عزیز کے حصہ 
		میں آئی انہو ں نے 50,333 ووٹ لیئے جبکہ میاں مصباح ارحمان صرف 17821 ووٹ 
		لے سکے تھے ، 1997 کے بعد نئی حلقہ بندیوں کے بعد این اے 94 کو این اے 122 
		کر دیا گیا 2002کے الیکشن میں مسلم لیگ ن مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی انکے 
		اپنے گڑھ لاہور میں بھی اسے کوئی خاظر خواہ کامیابی نہیں مل سکی تھی مسلم 
		لیگ ن کے بڑے بڑے نام جن میں ہمایوں اختر خان ، میاں منیر ، میاں اظہر ، 
		طارق بانڈے ملک احد ، جیسے لوگ مسلم لیگ ن چھوڑ کے مسلم لیگ ق میں شامل ہو 
		چکے تھے مسلم لیگ ن کو اپنا امیدوار ڈھونڈنے میں بھی سخت مشکلات کا سامنا 
		کرنا پڑ رہا تھا لیکن تحریک انصاف چھوڑ کے مسلم لیگ ن میں آنے والے سردار 
		ایاز صادق کو مسلم لیگ ن نے اپنا امیدوار نامزد کیا اور انہوں نے مسلم لیگ 
		ن کے ٹکٹ پہ کامیابی حاصل کی اور مزے کی بات یہاں انکا مقابلہ بھی انکے 
		پرانے دوست اور سابق پارٹی کے لیڈر عمران خان سے تھا سردار ایاز صادق نے 
		یہاں 37531 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی جبکہ عمران خان نے 18638 ووٹ لیئے 
		پیپلز پارٹی کے غلام قادر 17561 جبکہ مسلم لیگ ق کے محمد امین چوہدری 12605 
		ووٹ لے سکے 2008میں یہاں ایک بار پھر مسلم لیگ ن نے اپنا امیدوار سردار 
		ایاز صادق کو ہی نامزد کیا جس میں انہوں نے واضع اکژیت سے کامیابی حاصل کی 
		انہوں نے 79506 ووٹ لیئے انکے قریب ترین حریف میاں مصباح ارحمان کے بیٹے 
		میاں عمر مصباح ارحمان تھے جنہوں نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پہ 24963 ووٹ لیئے 
		مسلم لیگ ق کے میاں جہانگیر صرف 10657 ووٹ لے سکے یاد ر ہے سال 2008کے 
		الیکشن کا پاکستان تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا ہوا تھا جس وجہ سے عمران خان 
		یہاں سے الیکشن نہیں لڑ سکے تھے ، لیکن سال 2013 میں ایک بار پھر دو دوستوں 
		میں کانٹے کا جوڑ پڑا قومی امکان تھا کے عمران خان یہاں سے کا میابی حاصل 
		کر لینگے لیکن سردار ایاز صادق نے لگا تار تیسری مرتبہ کامیابی حاصل کر کے 
		ہیٹرک مکمل کی انہوں نے 93362 
		ووٹ لیے جبکہ عمران خان نے 84417 ووٹ لیئے باقی تمام امیدوار بشمول پیپلز 
		پارٹی کے سب نے اپنی ضمانتیں ضبط کروائیں - 
		 
		تحریک انصاف نے سال 2013 کے الیکشن میں الزام لگایا کے مسلم لیگ ن نے مخصوص 
		35حلقو ں میں دھاندلی کروا کے نتائج کو بدلہ ہے جن میں سے این اے 122بھی 
		شامل تھا ۲ سال بعد سپریم کورٹ نے یہاں دوبارہ الیکشن کا حکم دیا اور یہاں 
		اس بار تحریک انصاف نے عمران خان کی بجائے سابق صوبائی وزیر علیم خان کو 
		ٹکٹ دیا ایک نہایت سخت مقابلے کے بعد سردار ایاز صادق نے علیم خان کو 
		تقریبا 2500 ووٹوں سے مات دی اور لگا تار چار مرتبہ الیکشن جیتنے کا اعزاز 
		حاصل کیا انہوں نے 74525 ووٹ جبکہ علیم خان نے 72082 ووٹ لیئے لیکن اس 
		الیکشن میں مسلم لیگ ن صوبائی اسمبلی کی سیٹ ہار گئی تھی یہاں سے تحریک 
		انصاف کے شعیب صدیقی نے بیگم کلثوم نواز کے بھانجے محسن لطیف کو ہرا دیا 
		تھا ، اب اگر موجودہ سیاسی صورتحال کی بات کی جائے تو یہاں تحریک انصاف کی 
		پوزیشن کافی اچھی نظر آرہی ہے این اے 122کے نیچے آنے والے دونوں صوبائی 
		حلقوں کی سیٹ تحریک انصاف کے میاں اسلم اقبال اور شعیب صدیقی کے پاس ہے 
		میاں اسلم اقبال لاہور کی سیاست کا ایک بڑا نام سمجھے جاتے ہیں پرویز الہی 
		دور میں وہ صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں مسلم لیگ ن کے بہت سے لوگ 2013 کے 
		الیکشن کے بعد ناراض ہو کر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے جن میں ایک نام 
		2008میں پی پی 148سے ایم پی اے بننے والے نعیم میر کا بھی تھا جو سابقہ 
		اولمیپین اختر رسول کو ٹکٹ دیئے جانے پہ ناراض ہر کر تحریک انصاف میں شامل 
		ہو گئے تھے جسکا مسلم لیگ ن کو کافی نقصان ہوا لیکن اب کچھ ماہ پہلے حمزہ 
		شہباز نے انہیں آئندہ الیکشن میں ٹکٹ دینے کا وعدہ کر کے پارٹی میں دوبارہ 
		شامل کر لیا یہاں مقابلہ آرائیں براداری میں ہی ہوتا رہا ہے اور ہر پارٹی 
		کی کوشش ہوتئ ہے کے ہمیں آرائیں برادری کا مظبوط سے مظبوط امیدوار ملے 
		میاں اسلم اقبال اختر رسول نعیم میر ان سب کا تعلق آرائیں برادری سے ہی ہے 
		، مسلم لیگ ن اچھرہ دھرمپورہ اپر مال ، کے علاقے میں اچھی پوزیشن میں ہے 
		لیکن اسے سمن آباد ، گڑھی شاہو کے علاقوں میں بہت مشکلات کا سامنا ہے 
		بلدیاتی الیکشن میں تحریک انصاف 200کے قریب چیرمین کی سیٹوں میں سے صرف 8پہ 
		کامیابی حاصل کر سکی تھی ان میں سے ۲ گڑھی شاہو اور سمن آباد کے علاقوں سے 
		تھے مسلم لیگ ن نے اپنا موجودہ مئیر آف لاہور بھی گڑھی شاہو کے علاقے سے 
		ہی منتخب کیا ہے اور سردار ایاز صادق حلقہ میں کافی ترقیاتی کام کروا رہے 
		ہیں لیکن پھر بھی علاقے کی عوام سردار ایاز صادق سے خوش نظر نہیں آرہے خاص 
		کر گڑھی شاہو کے علاقے سے لوگ تحر یک انصاف کو ترجیح دے ر ہے ہیں اگر ریلوے 
		آبادیوں کی بات کی جائے تو یہاں ملازم پیشہ لوگ مسلم لیگ ن سے قربت رکھے 
		ہیں قومی امکان ہے کے مسلم لیگ ن آئندہ الیکشن میں یہاں محسن لطیف کو ٹکٹ 
		دینے کی بجائے کسی اور امیدوار کو میدان میں اتارے گئ اور سننے میں آرہا 
		ہے کے صوبائی اسمبلی کی سیٹ پہ مریم نواز شریف اس حلقہ سے الیکشن لڑ سکتی 
		ہیں اور وہ اپنی والدہ بیگم کلثوم نواز کی سیٹ پہ قومی اسمبلی کا الیکشن 
		بھی لڑئیں گئی اگر وہ یہاں سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑتی ہیں تو مسلم 
		لیگ ن کے لیئے یہ سیٹ نکالنا آسان ہو جائے گا اگر کسی اور کے پاس سیٹ گئی 
		تو پھر بھی سخت مقابلہ کا امکان ہے یہاں اب تحریک انصاف علیم خان کو ہی 
		میدان میں اتارے گئی اور ایک بار پھر یہاں گھمسان کا رن پڑنے کا امکان ہے 
		کیونکہ یہاں قومی اور صوبائی اسمبلی کی تینوں سیٹوں پہ بہت سخت مقابلہ ہوگا 
		مسلم لیگ ن اپنی عزت بچانے کے لیئے صوبائی اسمبلی کی دونوں سیٹ وآپس لینے 
		کی پوری کوشش کرے گئی کیونکہ حمزہ شہباز کو ناراض کارکنوں کو منانے کا ٹا 
		سک دیا گیا ہے جس میں وہ کافی کامیاب ہوتے نظر آر ہے ہیں اور کافی لوگوں 
		کو وآپس لانے میں کامیا ب بھی ہو ئے ہیں الیکشن کا نتیجہ کوئی بھی ہو مگر 
		مارجن بہت کم ہوگا اس بار کیونکہ تحریک انصاف پورنے ملک کی طرح لاہور میں 
		بھی پنجہ گاڑھ چکی ہے اور اسکی کوشش ہے کے لاہو ر میں مظبوط سے مظبوط 
		امیدوار میدان میں اتارے جائیں اور سننے میں آیا ہے کے شاہ محمود قریشی کو 
		حمزہ شہباز کے مقابلے میں میدان میں اتارا جائے گا ، مریم کے مقابلہ میں 
		یاسمین راشد ، اور این اے ۱۱۸ میں سابق گورنر چوہدری سرور میدان میں اتریں 
		گئے لیکن یہاں سے مسلم لیگ ن بھی اپنا امیدوار بدلے گئی کیونکہ اس حلقہ میں 
		بھی آرائیں برادری کی اکژریت موجود ہے تو مسلم لیگ ن ملک ریاض کی جگہ کسی 
		اور کو امیدوار نامزد کر سکتی ہے جبکہ عمران خان کے بارے میں کہا جا رہا ہے 
		کے وہ این اے ۱۲۵ میں خواجہ سعد رفیق کا مقابلہ کریں گئے -  |