اس وقت پنجاب ملک کی سیاست کا گڑھ بنا ہوا ہے، جس
پر سب کی نظریں لگی ہیں۔ عام انتخابات میں چند ماہ ہی باقی ہیں۔ حکمران
جماعت دن بدن مشکلات میں گھرتی جارہی ہے، جس کی حالت اس وقت اس پہلوان کی
سی ہے، جس کو ہر بڑا چھوٹا پہلون چت کرنے پر تلا ہوا ہے اور سمجھ رہا ہے کہ
اس پہلوان کے پاؤں اکھڑ چکے ہیں اور بس ایک اور دھکا دینے کی دیر ہے یہ
دھڑام سے زمین پر ڈھیر ہونے ہی والا ہے۔ پاناما لیکس میں عدالتی احکام کی
روشنی میں شریف فیملی اور مسلم لیگ کے مرکزی رہنماؤں کی نااہلی کی وجہ سے
مسلم لیگ کو بے حد نقصان پہنچا ہے۔ کافی حد تک ووٹ بینک بھی متاثر ہوا تھا
اور اس کے فوراً بعد مسلم لیگ (ن) اصول پسند سیاست دان چودھری نثار علی خان
کی ناراضگی اور شہباز شریف فیملی کے ساتھ نواز شریف فیملی کے اختلافات کی
وجہ سے بھی مسلم لیگ کو کم نقصان نہیں پہنچا۔ بعض تجزیہ کار تو ان اختلافات
کی وجہ سے کچھ ہی عرصے میں مسلم لیگ کا شیرزاہ بکھرنے کی پیش گوئیاں بھی کر
رہے تھے، ایسا تو نہیں ہوا، لیکن مسلم لیگ (ن) نے ختم نبوت بل میں ترمیم کر
کے جو اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے، اس کا خمیازہ آئندہ الیکشن میں بھگتنا
پڑے گا، آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ
ہے، جس کی شروعات فیض آباد دھرنے سے ہوچکی ہیں اور ایک ٹریلر فیصل آباد میں
پانچ ارکان اسمبلی کے استعفوں کی صورت میں دکھایا جاچکا ہے۔ مسلم لیگ نے
مذہبی معاملے کو چھیڑ کر اتنی بڑی غلطی کی ہے، جس کا اندازہ اسے خود بھی
نہیں تھا، حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ اب مسلم لیگ دن بدن مشکلات میں
پھنستی چلی جائے گی۔
ایک جانب ختم نبوت کے نام پر مذہبی گروہ سرگرم نظر آرہے ہیں تو دوسری جانب
ماڈل ٹاؤن رپورٹ کے ایک اہم کارڈ کے ساتھ مسلم لیگ ن کی رہی سہی ساکھ اور
ووٹ بینک کو توڑنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اتوار کو فیصل آباد میں
دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں مسلم لیگ ن کے دو اراکین نے قومی اسمبلی اور تین نے
صوبائی اسمبلی سے استعفوں کا اعلان کیا۔ یہاں ختم نبوت کے نعرے لگا کر
استعفے کا مطالبہ کرنے والوں کی قیادت خادم حسین رضوی نہیں، بلکہ ان سے بھی
سینیئر شخصیت پیر حمید الدین سیالوی نے کی۔ سرگودھا سے تعلق رکھنے والی
روحانی شخصیت پیر حمید الدین سیالوی نے اس سے قبل یہ دعویٰ کیا تھا کہ
پنجاب سے تعلق رکھنے والے 14 ارکانِ پارلیمان نے اپنے استعفے ان کے پاس جمع
کروا دیے ہیں۔ پیر سیالوی نے مطالبہ کیا تھا کہ پنجاب کے وزیر قانون رانا
ثنا اﷲ نہ صرف مستعفی ہوں، بلکہ وہ ٹی وی پر آ کر یہ وضاحت بھی کریں کہ وہ
احمدیوں کو مسلمان تسلیم نہیں کرتے، جس کے بعد وہ بحیثیت مسلمان اپنے ایمان
کی تجدید بھی کریں، لیکن ان کا مطالبہ پورا نہیں ہو سکا اور وفاقی وزیر
قانون کے بعد صوبائی وزیر قانون کا مستعفی ہونا ابھی ناممکن دکھائی دے رہا
ہے، مگر اب پیر صاحب کہتے ہیں کہ بات اب وزیر قانون کے استعفے سے آگے نکل
چکی ہے۔ فیض آباد سے شروع ہونے والی ختم نبوت تحریک کے دوسرے دور میں 2 ایم
این ایز اور 3 ایم پی ایز سمیت 5 اراکین اسمبلی نے ختم نبوت کے نام
پراستعفے دے کر مسلم لیگ(ن) کا ووٹ بنک کمزور کرنے کے لیے خطرے کی گھنٹی
بجادی ہے۔ یہ دعویٰ بھی کیاگیا کہ پہلی قسط میں 5 استعفے پیش کیے گئے، اگلے
مرحلے میں مزید 20 استعفے آنے والے ہیں، جو بقول ان کے مسلم لیگ(ن) کے اونٹ
کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوں گے۔ یہ تنکے وہ ممکنہ استعفے ہیں جو مسلم
لیگی اراکین قومی و صوبائی اسمبلی وقتاً فوقتاً پیش کریں گے۔ کانفرنس میں
اعلان کیا گیا کہ اگر رانا ثناء اﷲ کو برطرف نہ کیا گیا تو اگلی ختم نبوت
کانفرنس وزیر اعلیٰ ہاؤس لاہور کے سامنے ہوگی اور یہ کانفرنس دھرنے میں بھی
تبدیل ہو سکتی ہے اور مزید ممبران اسمبلی کے استعفوں کا اعلان اگلی کانفرنس
میں کیا جائے گا۔ مشائخ کا اتحاد ملک کی سیاست میں گیم چینجر ثابت ہو گا۔
ذرایع کے مطابق فیصل آباد میں ختم نبوت کانفرنس کے بعد گوجرانوالہ میں بھی
سیرت کانفرنس کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ گوجرانوالہ کے اراکین اسمبلی فیصل
آباد کے اراکین کی پیروی کرتے ہوئے اپنے استعفے پیر حمیدالدین سیالوی کے
حوالے کر سکتے ہیں۔ جن ارکان کے استعفے آسکتے ہیں، ان میں رانا نزید اور ان
کے بیٹے عمر نزید ،چوہدری اقبال گجر ِ،طارق محمود گجر اور میاں رشید ختم
نبوت کے معاملے پر مسلم لیگ (ن) سے اپنی راہیں جدا کر سکتے ہیں۔ مقامی
صحافیوں کا کہنا ہے کہ مقامی سطح کے اسی میدان میں بہت جلسے ہوئے ہیں۔
پچھلے سات سالوں میں یہ سب سے بڑا جلسہ تھا۔ دھوبی گھاٹ میں کانفرنس کے
دوران سٹیج پر آکر انھوں نے سیالوی صاحب کی حمایت کرنے اور ختم نبوت کے لیے
جان تک قربان کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس علاقے کی سیاست پر نظر رکھنے والے
سینیئر صحافیوں کے مطابق مستعفی ہونے والے اراکین اگر استعفے نہ دیتے تو
پھر انھیں آئندہ انتخابات میں اپنی نشستوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے، کیونکہ
ان کے وٹرووں کی بڑی تعداد پیر سیالوی کے حامیوں اور مریدوں میں سے ہے اور
یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے لوگ ہوا کا رخ دیکھ کر جماعت بدلتے ہیں اور اب
یہ رخ کم ازکم مسلم لیگ ن کے حق میں نہیں لگتا۔ختم نبوت کانفرنس میں مستعفی
ہونے والے بعض ارکان اسمبلی کا کہنا تھا کہ وہ علمائے اکرام اور علاقے کے
معززین کے دباؤ کا سامنا نہیں کر سکتے تھے اس لیے استعفے کا اعلان کیا۔
مسلم لیگ کے بعض ارکان کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ مسلم لیگ کے خلاف بہت بڑی
گیم ہورہی ہے، اسے آئندہ الیکشن سے پہلے کمزور سے کمزور کرنے کی سازش ہورہی
ہے، جس کے پس پردہ معلوم نہیں غیر جمہوری قوتیں ہیں۔
دوسری جانب صحافی چودھری غلام حسین نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے 55 قومی
اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اراکین مستعفی ہونے والے ہیں۔ ان کا کہنا تھا
کہ مسلم لیگ ن کی کہانی ختم ہونے جا رہی ہے۔ اگر یہ استعفے سامنے آگئے تو
پھر ممکن ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کا وہ سلسلہ شروع
ہوجائے جو بالآخر ان اداروں کے اختتام پر منتج ہوجائے، کیونکہ پوزیشن
جماعتیں بھی استعفے دینے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی
اور پیپلز پارٹی کے درمیان بیک ڈور چینل سے اس بات پر اتفاق ہوگیا ہے کہ
اسمبلیوں کی رکنیت سے استعفوں کا آپشن موجودہ حکومت پر آخری وار کے طور پر
استعمال کیا جائے گا، اس سے ایک پنتھ دو کاج ہوں گے، ایک تو سینٹ الیکشن
کیلئے الیکٹرول کالج ادھورا ہوجائے گا، دوسرے موجودہ حکومت نئے عام
انتخابات پر جانے کے لیے مجبور ہوجائے گی، تاہم ایسی صورت میں نگران حکومت
آتی ہے، قومی حکومت یا ٹیکنو کریٹس کی حکومت، اس پر ملک میں آئندہ جمہوریت
کا دارومدار ہوگا۔ واقفان حال اس امر کا عندیہ دے رہے ہیں کہ آنے والے دن
سیاست میں نئے بھونچال، ہوشربا سیاسی اتحاد اورحیران کن واقعات لے کر طلوع
ہوں گے۔
2018 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک تقسیم کرنے کے لیے سیاسی
و غیر سیاسی اور دینی قوتیں سرگرم عمل ہو گئی ہیں۔ سیاسی میدان میں ازسرنو
صف بندی شروع ہو گئی ہے۔ 21 روزہ دھرنے کے خاتمہ کے لیے سابق وزیر قانون و
انصاف کے استعفیٰ لینے کے بعد بریلوی مکتبہ فکر کے جید علماء کرام و مشائخ
عظام نے صوبائی وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ کے استعفے کے لیے حکومت پنجاب پر
دباؤ بڑھا دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اپنی سیاسی زندگی میں ختم نبوت کے ایشو
پر بے پناہ مسائل کا سامنا ہے۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی قیادت تحریک
لبیک یارسول اﷲ اور ملی مسلم لیگ کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک
تقسیم کرنے کی حکمت عملی ناکام بنانے کے لیے دیوبند، اہل حدیث اور بریلوی
مکتبہ فکر کی جماعتوں سے روابط بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پنجاب مستقبل کی سیاست کا بڑا مرکز ہے، لاہور میں ڈاکٹر طاہر القادری کی
ایک نئے دھرنے کی تیاریاں عروج پرہیں۔ پانامہ لیکس، فیض آباد دھرنے اور
نجفی رپورٹ سے حکمران جماعت کی ساکھ متاثر ہوئی ہے، طاہر القادری نجفی
رپورٹ کی بنیاد پر ایک نیا سیاسی اتحاد بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ آصف علی
زرداری اور عمران خان کی پارٹیاں قادری احتجاج کے لیے پہلے ہی تعاون کی
یقین دہانی کراچکی ہیں، جبکہ دیگر مذہبی و سیاسی جماعتیں بھی حکومت مخالف
اتحاد میں ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹح گئی ہیں۔ ان کی جانب
سے ماڈل ٹاؤن فائرنگ کیس کی تحقیقات کے لیے پانامہ کی طرز پر جے آئی ٹی
بنانے کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہاہے۔ یہ مطالبہ پورا ہوتا ہے یا نہیں، لیکن
اس وقت ملکی سطح حکمران جماعت کے لیے ہر آنے والے دن کا سورج ایک نئی مشکل
لے کر طلوع ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ فیض آباد دھرنے سے حکومتی عمل داری کی
کمزوری کا جو سلسلہ شروع ہوا اس سے ریاستی مشینری بھی بتدریج غیر موثر
ہورہی ہے۔ ایسے میں نوشتہ دیوار یہ ہے کہ جمہوریت کی کشتی کو انتخابات کے
ذریعے ساحل مراد تک پہنچایا جائے تاکہ امید کے چراغ روشن رہیں اور مملکت کو
باوقار بنانے کے حسین خوابوں کا سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے۔ پیپلز پارٹی ن لیگ کو
پس پردہ اہم سیاسی پیغام دے چکی ہے کہ حکمراں جماعت ملک میں جمہوریت کے
تسلسل کے لیے تمام صوبوں میں اپنی حکومتوں کو تحلیل کردے اور عبوری حکومتوں
کے قیام کے لیے بات چیت کا آغاز کرے۔ اگر ن لیگ اس معاملے پر مذاکرات کے
لیے تیار ہے تو پیپلز پارٹی اس کے خلاف کسی احتجاجی تحریک کا حصہ نہیں بنے
گی۔
پاناما مقدمے سے لے کر ختم نبوت کے دھرنے تک اور اب ماڈل ٹاؤن سانحے کی
نجفی رپورٹ کا اجرا، یہ وہ سنگ میل ہیں جو یکے بعد دیگرے حکمران جماعت کی
سیاسی ساکھ کے لیے ایک سے ایک بڑھ کر دھچکا کہے جا سکتے ہیں۔ حکمران جماعت
اشاروں اور کنائیوں میں اپنے اوپر ان سیاسی حملوں کی ذمہ داری ان پاکستان
کی غیر مرئی قوتوں پر عاید کر رہی ہے جنھیں عرف عام میں اسٹیبلشمینٹ کہا
جاتا ہے۔ مسلم لیگ دن بدن مشکلات کا شکار ہورہی ہے۔ غالباً مسلم لیگ کی اس
حکمت عملی کو اس کے مخالفین بھی سمجھ چکے ہیں اور انھوں نے اس کے مقبولیت
کے گراف کو جھکانے کے لیے اس کے اپنے گھر میں جا کر حملہ کیا ہے اور ان
تمام حملوں کے لیے ایندھن مسلم لیگ ن نے اپنی تمام سمجھداری کے باوجود اپنے
مخالفین کو مہیا کیا ہے۔ ختم نبوت کی قضیے کے بارے میں بروقت اقدام نہ کر
کے وہ خود ہی اس میں پھنسے اور پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اب ماڈل ٹاؤن کے
سانحے پر غیر مقبول اقدام کرکے مسلم لیگ ن اپنی مقبولیت میں مزید شگاف
ڈالتی نظر آرہی ہے۔ اِدھر اْدھر کے الزامات کے ذریعے کوئی بھی حکومت 14
افراد کے پولیس فائرنگ میں ہلاک ہونے کے واقعے کی ذمہ داری سے راہِ فرار
اختیار نہیں کر سکتی ہے۔ ماڈل ٹاؤن کا واقعہ ایسا ہے جس پر نواز شریف کے
برادرِ خورد شہباز شریف کی پنجاب حکومت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ غالباً
اسی لیے پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری نے پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر
طاہرالقادری کے ساتھ شہباز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا ہے اور تحریک
انصاف کے عمران خان بھی اسی مطالبے کی حمایت میں کھڑے ہونے کو تیار ہیں۔
2016 اور 2017 میں مسلم لیگ ن کو جس طرح کے یکے بعد دیگرے سیاسی دھچکے لگے
ہیں اور جس طرح وہ اپنی غلطیوں کا دفاع کر رہی ہے اور جس طرح ماضی میں اس
کی حامی مذہبی جماعتیں ان سے الگ ہو کر اپنی اپنی سیاسی جماعتیں کھڑی کررہی
ہیں جس سے نواز شریف کے ووٹ کے معقول حد تک کٹنے کے سنگین خدشات ہیں۔ |