اقوام، ممالک اور ملل کا حافظہ تاریخ ہوتی ہے، جب تاریخ
کنفیوز ہوجائے تو اقوام اور ملل بھی کنفیوز ہوجاتی ہیں، ۴ جنوری مولانا
محمد علی جوہر کا یومِ وفات ہے، ضروری ہے کہ اس روز کی مناسبت سے تاریخ کی
چھان بین کی جائے اورکچھ تاریخی حقائق کو واضح کیا جائے۔
مولانا محمد علی جوہر کی زندگی فعالیت اور جدوجہد سے عبارت ہے، ہم مسلم لیگ
کے قیام سے شروع کرتے ہیں،1906ء میں ڈھاكہ میں محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے
سالانہ اجلاس كے ختم ہونے پر برصغیر كے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم
عمائدین نے ڈھاكہ كے نواب سلیم اللہ خاں كی دعوت پر ایك خصوصی اجلاس میں
شركت كی۔
اس اجلاس كی صدارت نواب وقار الملك نے كی۔ اجلاس میں نواب محسن الملك٬
مولانامحمد علی جوہر٬ مولانا ظفر علی خاں٬ حكیم اجمل خاں٬ اور نواب سلیم
اللہ خاں سمیت بہت سے اہم مسلم اكابرین اجلاس میں موجود تھے۔ مسلم لیگ كا
پہلا صدر سر آغا خان كو چنا گیا۔ مركزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا۔ تمام
صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں۔ برطانیہ میں لندن برانچ كا صدر سید امیر علی
كو بنایا گیا۔
اس کے بعد جو تاریخ میں اہم واقعہ رونما ہوا وہ پہلی جنگِ عظیم کا ہے ۔ یہ
جنگ 28 جولائی 1914 سے 11 نومبر 1918 تک جاری رہی،اس جنگ میں ایک طرف جرمنی
، آسٹریا ، خنگری ، ترکی اور بلغاریہ ، اور دوسری طرف برطانیہ ، فرانس ،
روس ، اٹلی ، رومانیہ ، پرتگال ، جاپان اور امریکاتھے۔ 11 نومبر 1918ء کو
جرمنی نے جنگ بند کردی ۔
۱۹۱۴ سے ۱۹۱۸ کے درمیانی چار سالوں میں برصغیر کے مسلمان خلافت عثمانیہ کی
بقا کے لئے بہت پریشان تھے۔یہاں پر برصغیر کی مسلم قیادت زبردست کنفیوژن کی
شکار تھی۔مسلم لیگ کے ہوتے ہوئے ، مسلم لیگ پر اعتماد نہیں کیا گیا بلکہ
مسلم لیگ پر عدمِ اعتماد کرتے ہوئے الگ سے خلافت کمیٹی بنائی گئی۔
خلافت کمیٹی سے منسلک لوگ ایک طرف تو ترکی کی خلافت کو الٰہی خلافت سمجھتے
تھے اور دوسری طرف اُسے بچانے کے لئے برطانیہ سے مدد کے خواہاں تھے جوکہ
اُن کے نظریہ توحید کے بالکل برعکس تھا۔
اس کی مثال کلبھوشن یادو کے بیانات اور گرفتار شدہ طالبانیوں کے اعترافات
ہیں کہ یہ خلافت کے علمبردار ، خلافت الٰہیہ کے قیام کے لئے ہندوستان سے
مدد لیتے چلے آ رہے ہیں۔
یہ صورتحال آج بھی مسلمانوں کے ہاں پائی جاتی ہے کہ ایک طرف تو توحید کے
نام پر کسی دوسرے مسلمان کو نبی اکرمﷺ کے مزار کی جالی کو بھی نہیں چومنے
دیتے اور دوسری طرف ٹرمپ اور ایلن شیراون کے گالوں کو چومتے ہوئے نظر آتے
ہیں۔
اسی طرح ترکی کی خلافت کو بچانے کے لئے جو تحریک خلافت شروع کی گئی اور جس
کا بانی مولانا محمد علی جوہر کوکہا جاتا ہے ، 5 جولائی، 1919ء کو خلافت کے
مسئلے پر رائے عامہ کو منظم کرنے اور متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے جو
بمبئی میں آل انڈیا خلافت کمیٹی قائم کی گئی اس کے صدر سیٹھ چھوٹانی اور
سیکرٹری صدیق کھشتری منتخب ہوئے۔
تحریک خلافت میں کسی طرح سے بھی دوقومی نظریہ کارفرما نہیں تھا، اس تحریک
میں مسلم لیگ کے بجائے کانگرس اور گاندھی جی پر اعتماد کیا گیا اور ہندو
ستانی قومیت کی بنیاد پر یہ تحریک چلائی گئی تھی۔
بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ تحریک خلافت چلانے والے مسلمانوں نے اپنے
اتحادی ہندووں کو خوش کرنے کے لئے یہ فتویٰ بھی دیا کہ ہندوں کے جذبات کا
لحاظ کرتے ہوئے اس سال بقرِ عید پر مسلمان گائے کی قربانی نہ کریں۔
عجیب بات یہ ہے کہ جس طرح اس وقت مسلمانوں کو پسِ پشت ڈال کر ہندووں کو خوش
کرنے کے لئے فتوے دئیے گئے تھے اسی طرح آج بھی ہمارے ہاں امریکہ و اسرائیل
کو خوش کرنے کے لئے فتوے دئیے جاتے ہیں۔
اس زمانے میں تحریکِ خلافت میں مسلمانوں کے تین ہی بڑے مطالبات تھے:
الف]ترکی کی خلافت برقرار رکھی جائے۔
ب]مقامات مقدسہ(مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ ) ترکی کی تحویل میں رہیں۔
ج]ترکی سلطنت کو تقسیم نہ کیا جائے۔
سعودی عرب میں آل سعود کے جد امجد عبدالعزیز ابن سعود نے سعودی عرب کے نام
سے الگ مملکت کے قیام کا اعلان کر تینوں مطالبات پر پانی پھیر دیا اور یوں
تحریک خلافت پر سعودی عرب نے خطِ تنسیخ کھینچ دیا۔
1920ء میں مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں ایک وفد انگلستان، اٹلی اور
فرانس کے دورے پر روانہ ہوا تاکہ وزیراعظم برطانیہ اور اتحادیوں کو ان کے
وعدے یاد دلائے۔
وفد نے برطانیہ پہنچ کر وزیراعظم لائیڈ جارج سے ملاقات کی لیکن اس کا جواب
“آسٹریلیا اور جرمنی سے خوف ناک انصاف ہو چکا اور ترکی اس سے کیوں کر بچ
سکتا ہے۔“ سن کر مایوسی ہوئی۔ اس کے بعد وفد نے اٹلی اور فرانس کا بھی دورہ
کیا مگر کہیں شنوائی نہ ہوئی۔
شنوائی کیا ہونی تھی جب ایک طرف تو مصطفی کمال پاشا نے خلافت کے خاتمے کا
اعلان کرکے اپنی صدارت کا اعلان کردیا اور دوسری طرف سعودی عرب نے ترکی سے
علیحدگی اختیار کرلی تو تحریکِ خلافت نے اب مزید کیا چلنا تھا!!!
اس تحریک کی ناکامی کے بعدحالات کا ازسرِ نو جائزہ لینے کے بجائے ایک
انتقامی سوچ کو اپنایا گیا اور تحریک عدم موالات شروع کر دی گئی جس کے
مندرجہ زیل اہداف تھے:
حکومت کے خطابات واپس کر دئیے جائیں۔
کونسلوں کی رکنیت سے استعفٰی دے دیا جائے۔
سرکاری ملازمتوں سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔
تعلیمی ادارے سرکاری امداد لینا بند کر دیں۔
مقدمات سرکاری عدالتوں کے بجائے ثالثی عدالتوں میں پیش کیے جائیں۔
انگریزی مال کا بائیکاٹ کیا جائے۔
اسی طرح مولانا عبدالباری، مولانا ابولکلام آزاد، علی برادران کی ایما پر
تحریک ہجرت بھی شروع کی گئی جس کی رو سے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر
مسلمانوں کو یہاں سے ہجرت کرنے کا فتویٰ دیا گیا۔ جس پر ہزاروں مسلمانوں نے
اپنے کاروبار اور گھربار چھوڑ کر افغانستان کی راہ لی۔ یہ ہجرت حکومت
افغانستان کے عدم تعاون سے ناکام ہوگئی ۔ یہ تو پتہ نہیں چلا کہ فتویٰ دینے
والوں نے خود بھی ہجرت کی یا نہیں البتہ اس ہجرت میں مسلمانوں کو بہت بھاری
جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
اس کی مثال بھی آپ کو ہمارے ان جہادی ملاوں کی صورت میں مل سکتی ہے کہ جن
کے فتووں کی وجہ سے لوگوں کے بچے تو دہشت گرد بن کر جیلیں کاٹ رہے ہیں یا
دربدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور ان کے اپنے بچے لندن و امریکہ سے اعلیٰ
تعلیم کی ڈگریاں لئے پھرتے ہیں۔
یہ سب کچھ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں تاریخ کو بیان کرتے ہوئے اسے
اپنی پسند و ناپسند میں ڈھالنے کے بجائے شفاف طریقے سے بیان کرنا چاہیے
تاکہ ہم قومی و نظریاتی طور پر کنفیوژن کے شکار نہ ہوں۔
ہمیں مطالعہ پاکستان میں تحریکِ خلافت کے حوالے سے صاف بتانا چاہیے کہ اس
تحریک کا مسلم لیگ یا دوقومی نظریے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اورمولانا محمد
علی جوہر اگر متحدہ قومیت کے علمبردار تھے تاہم انہیں کانگرس اور گاندھی جی
کے رویے سے اتنی مایوسی ہوئی کہ بالاخر آپ کانگرس سے ہمیشہ کے لئے جدا
ہوگئے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے تاریخی حافظے سے اچھی طرح کام لیں اور غلط کو صحیح
سے جدا کریں۔کانگرس اور گاندھی جی پر اعتماد کرنا ایک تاریخی غلطی تھی ،
چونکہ مولانا محمد علی جوہر جس خلافت کے داعی تھے ، کانگرس یا گاندھی جی
کبھی بھی اس کے حامی نہیں ہو سکتے تھے۔
اس سلسلے میں مولانا محمد علی جوہر کے ایک اداریے سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
”اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے وہ مسلمانوں کے ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو
ہمارے ہندوستان کے مسلمانوں کا ہو اور جس وقت تحریک خلافت کو ایک دفعہ پھر
منظم کر دیا جائے گا تو اس سے عالم اسلام کی رہنمائی ہو گی۔ جیسا کہ جنگ
عظیم کے بعد ہوا تھا۔ موتمر اور اس کی مجلس تنفیذیہ میں تمام دنیا کے
مسلمانوں کے ایک نظام کا سلسلہ قائم ہو گیا ہے اور یہ مختصر سا بیج مستقبل
میں ازسرنو قائم کردہ خلافت کی جڑ ہو گا جو خلافت راشدہ کے نمونے پر قائم
ہو گی۔
اسلام کا یہی سب سے بہتر نظام ہے اور ہمیں بجائے اس کے کہ ہم دوسرے چھوٹے
چھوٹے نظام قائم کریں۔ اس کے قیام کی طرف متوجہ ہو جانا چاہئے۔ اب ہمیں اس
مینار کو اٹھانے کے لئے چاروں طرف سے لگ جانا چاہئے۔ جس کی ابتدا ہندوستان
سے ہو اور انشااللہ بہت جلد ہم یہ دیکھیں گے کہ اس عمارت کی چوٹی تاج خلافت
سے مزین ہو گی اور یہ خلیفہ عالم اسلام کی آزادی راہ سے منتخب ہو گا۔“
(ہمدرد 20ستمبر 1924ئ)
جنوری 1931ء میں مولانا محمد علی جوہر گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے
انگلستان گئے۔ جہاں آپ نے آزادی وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم
انگریز میرے ملک کو آزاد نہ کرو گے تو میں واپس نہیں جاؤں گا اور تمہیں
میری قبر بھی یہیں بنانا ہوگی۔
۴؍ جنوری 1931کو ساڑھے نو بجے صبح لندن کے ہائڈ پارک ہوٹل میں جہاں ان کا
قیام تھا، وہیں آپ نے وفات پائی اور مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی کی
خواہش کے پیشِ نظر انہیں بیت المقدس میں دفن کیا گیا، مولانا کی قبر پر
انہیں کا ایک شعر آج بھی لکھا ہوا ہے۔
جیتے جی تو کچھ نہ دکھلائی بہار
مر کے جوہرؔ آپ کے جوہر کُھلے |