محمد بن قاسم: فاتح سندھ

 ’’ اے بصرہ کے والی ! مجھے یقین ہے کہ قاصد کی زبانی مسلمان بچوں اور عورتوں کی مصیبت کا حال سن کر اپنی فوج کے غیرت مند مجاہدوں کو گھوڑوں کی زینیں ڈالنے کا حکم صادر کر چکے ہوگے۔میں ایک مسلمان کی بیٹی ہوں اور میرے تمام ساتھی ایک ایسے دشمن کی قید میں ہیں جس کے دل میں رحم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔قید خانے کی اس تاریک کوٹھری میں موت ہر وقت سروں پر منڈلارہی ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں موت سے ڈرتی ہوں۔ لیکن مرتے وقت مجھے یہ صدمہ ہوگا کہ وہ تلوار جو روم و فارس کے مغرور تاجداروں کے سروں پر بجلی بن کر کوندی۔ لیکن سندھ کے راجا کے سامنے کند ثابت ہوئی۔

اے بصرہ کے والی ! اگر تم زندہ ہو تو اپنی قوم کے یتیموں اور بیواؤں کی مدد کو پہنچو ‘‘

جب قاصد یہ تڑپا دینے والا خط بصرہ کے گورنر حجاج بن یوسف کے پاس لایا۔ اور اس نے پڑھا تو وہ بے ساختہ پکار اٹھا۔ ’’ بیٹی میں تیری مدد کو آرہاہوں ‘‘

حجاج نے خلیفہ ولید کو جب ساری صورت حال سے آگاہ کیا تو انہوں نے سندھ کے راجہ داہر کے خلاف جہاد کی اجازت دے دی۔ سب سے پہلے حجاج نے سندھ کے راجہ داہر کو خط لکھا کہ ڈاکوؤں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے اور نقصان کی تلافی کرکے مسلمان عورتوں اور بچوں کو رہا کرے۔راجہ داہر نے جواب دیا کہ سمندری ڈاکو میرے قابو سے باہر ہیں ۔ آپ خود آکر ان سے نمٹ لیجئے۔لہٰذا بصرہ کے والی نے پہلے دو لشکر روانہ کیے لیکن ان کو کامیابی نہ ملی۔ بالآخر اس نے ایک سترہ سالہ نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم کو چھ ہزار شامی اور عراقی سپاہیوں اور تین ہزار اونٹوں پر لدے ہوئے سامان حرب و رسد کے ساتھ روانہ کیا ۔سامان حرب میں منجنیق بھی شامل تھی جس کا نام عروسی تھا اور جس کو چلانے کے لئے 500 افراد کی اجتماعی قوت درکار تھی۔یہ ایمان افروز اور ولولہ انگیز مجاہدین کا لشکر اپنے کم عمر سپہ سالار اعلیٰ اور بہترین منتظم کے ہمراہ 712 ء میں دیبل (سندھ ) کے ساحل پر لنگر انداز ہوا۔

اسلامی لشکر نے پہلا حملہ دیبل کی بندرگاہ پر کیا۔اہل شہر میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ میدان میں نکل کر مقابلہ کرتے۔ اس لئے قلعہ میں محصور ہو گئے۔اسلامی لشکر نے قلعہ شکن توپوں سے پتھر برسائے مگر اہل شہر نے بڑی دلیری سے مدافعت کی۔مسلسل ایک ماہ تک محاصرہ جاری رہا مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔بالآخر جاسوسوں نے خبر دی کہ جب تک شہر کے مندرکا جھنڈا اپنی جگہ قائم رہے گا۔اس وقت تک ہندو ہار نہیں مانیں گے۔پس محمد بن قاسم نے اپنی منجنیق کا رخ مندر پر لہراتے ہوئے جھنڈے کی طرف کردیا۔بس جونہی جھنڈے کا گرنا تھا کہ ہندوؤں نے حوصلہ ہار دیا اور اسلامی لشکر شہر میں داخل ہوگیا۔ دیبل کی فتح کے بعد اسلامی لشکر نے حیدر آباد بغیر کسی مزاحمت کے فتح کرلیا۔اسی اثناء خبر ملی کہ راجہ داہر 50000 لشکر کے ہمراہ دریائے سندھ کے کنارے پہنچ گیا ہے۔ اسلامی لشکر نے اپنا رخ ادھر کردیا۔ جہاں اسلام کی قوت کفر پر غالب آگئی اور راجہ داہر بھی مارا گیا۔دیبل ، حیدر آباد ، اروڑ کی فتوحات کے ساتھ آپ کے قدم ملتان تک پہنچ گئے۔

ان عظیم الشان فتوحات کے بعد اس نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم نے تین چار سال میں سندھ کی کایا پلٹ دی ۔ عوام اور رعایا سے حسن سلوک کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ ہندوؤں کو مکمل مذہبی آزادی دی۔جزیے کے سوا تمام ٹیکس معاف کیے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ آپ کے حسن سلوک اور تدبر کی وجہ سے جوق در جوق مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اور جس کی بدولت پورے جنوبی ایشیا میں اسلام پھیلتا گیا۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 265474 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.