امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے حوالے سے جو ٹوئیٹ
کیا ، اس کی حیثیت پاکستانیوں کے لیے صفر بھی نہیں۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں
امریکہ کی پالیسی میں اس قسم کے اتارچڑھاؤ آتے رہیں موجودہ امریکی صدر تو
منتخب ہونے سے قبل اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی جو باتیں کر چکا ہے انہیں
سامنے رکھتے ہوئے اس کے موجودہ بیان کی کوئی حیثیت نہیں۔ پاکستانی قوم عرصہ
دراز سے یہ خواہش رکھتی ہے کہ پاکستان کشکول توڑ دے لیکن حکمرانوں کو
بیرونی امداد اور کشکول ہاتھ سے چھوڑنے نہیں معلوم کیا قباحت ہے ، کیا لالچ
ہے، کیا مصلحت ہے کہ ہرجمہوری دور میں ہر ڈکٹیٹر کے دور میں حکمرانوں نے
امریکہ کو اپنا مائی باپ سمجھا ، ان کے سامنے کشکول لیے رہے۔ قیام پاکستان
سے آج تک 70سالہ تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان سے کیا کسی بھی ملک سے
دوستی نہیں نبھائی، یہ اپنے مفادات کو عزیز رکھتا رہا ہے اور اب بھی اسے
اپنے مفادات ہی عزیز ہیں۔ پاکستان کی امداد میں کمی کرنے یا نہ دینے کی جو
بات امریکی صدر ٹرمپ نے کی ہے اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں ۔ یہ اس سے پہلے
بھی پاکستان ہی نہیں ایران اور شمالی کوریا کو دھمکی نہیں دے چکا ، کیا ان
دھمکیوں کا، ایران اپنے موقف پر ڈٹا رہا ، شمالی کوریہ اب بھی ٹرمپ کی
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہا ہے اس کے صدر نے صاف صاف کہہ دیا ہ کہ
بٹن میری میز پر لگا ہوا ہے، یہ پیغام امریکہ کے لیے کافی ہونا چاہیے ۔
پاکستان اب وہ پاکستان نہیں بلکہ یہ بھی ایٹمی قوت ہے۔ کوئی بھی ملک ایٹمی
قوت آسانی سے نہیں بنتا ۔ پاکستان ایٹمی قوت ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر ہے۔
ٹرمپ پاکستان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ ٹرمپ کے بارے میں کیا کہا جائے
میں اس سے پہلے بھی ٹرمپ کی پالیسیوں کے حوالے سے کالم لکھ چکا ہوں جن میں
نے لکھا تھا اور اب پھر دوہرارہا ہوں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی گفتگو
، انداز ، لہجے ، شوخ وچنچل حرکتوں ، اپنی پالیسیوں ، حتیٰ کہ اپنی شکل و
صورت سے دنیا کی سب سے بڑی اور طاقت ور ریاست کا سربراہ ہونا تو دور کی بات
ہے وہ ایک عام سیاست داں بھی نظر نہیں آتا ۔ حیرت اور افسوس اس بات کا ہے
کہ ٹرمپ کی سیاسی جماعت نے اس میں کون سی صفات اور وصف دیکھا اور اتنا بڑا
فیصلہ کیا کہ اسے اپنا صدارتی امیدوار بنالیا اور امریکی عوام پر بھی افسو
س کہ انہوں نے اس شخص کے ماضی اور حال کو دیکھے بغیر ہیلری کلنٹن جیسی
شائستہ، ملنسار، خوش اطوار، خوش مزاج، خوش خلق، خوش بیان، مؤدب، مہذب،
سیاسی سوچ ، سیاسی فکر اور سیاسی سمجھ بوجھ کی مالک ، امریکی سیاست اور
عالمی تعلقات کاادراک رکھنے والی ، سیاسی خاندان کی بہو یعنی سابق امریکی
صدر کی شریک حیات، امریکی حکومت میں اہم عہدوں پر خوش اسلوبی سے خدمات
انجام دینے والی کے مقابلے میں امریکہ کے ایک ارب پتی شخص ڈونالڈ ٹرمپ جسے
پیسے بنانیکی مشین کہا جاتاتھا ،وہ بزنس کوترقی دینے کے گُر تو جانتا ہے
لیکن سیاست میں کوراتھا، اس کے اثاثوں کی مالیت 3.7 ارب ڈالر بتائی جارہی
تھی ،دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں اس کا نمبر 324واں تھا جب کہ
امریکہ میں امارت کے اعتبار سے وہ 156ویں نمبر پر تھا ۔ عادات و اطوار کے
اعتبار سے وہ بد تہذیب، بد اطوار، اوچھے پن کا مالک، فحش کلامی کرنے والا،
دشنام طراز، دریدہ دہن، کثیف الطبع، کرخت، اجڈ، شیخی خورا اورچھچورا قسم کا
انسان سمجھا جاتا تھا ،عمر کے اعتبار سے اب72 سے اوپر کا ہوچکا ہے ،غیر
امریکیوں کو پسند نہیں کرتا حتیٰ کہ اس نے انتخابی مہم کو اپنے حق میں
ہموار کرنے کے لیے گورے اور کالے امریکیوں میں نفرت کی دیوارکھڑی کرنے جیسا
حربہ بھی استعمال کیا تھا، گویا متعصب ذہنیت کا حامل بھی ہے۔ اس کی رائے
میں امریکہ میں موجود اقلیتی عوام امریکہ پر بوجھ ہیں اور مسلمان دہشت گرد
۔ گزشتہ تین دہائیوں میں وہ بے شمار مقدمات میں ملوث رہا،یہ مقدمات اس کے
کاروبار کے حوالے سے تھے۔ اس کی آمدنی کا کوئی ٹھکانا نہیں 2015میں ٹرمپ نے
اپنے آپ کو کوئی 38کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا مالک ظاہر کیاتھا۔ اس کی اچھی
عادتوں میں ایک اچھی عادت یہ ہے کہ وہ کسی بھی قسم کا نشہ نہیں کرتا۔
نیویارک میں پیدا ہوا ،ٹرمپ کا باپ جرمن اور ماں اسکاٹش تھی، ٹرمپ نے تین
شادیاں کیں تینوں کا تعلق شوبیز سے ہے ، وہ خود بھی شوبیز کا آدمی ہے،
موصوف ٹی وی نیٹ ورک میں پروڈیوسر اور میزبان بھی رہ چکے ہیں۔تعلیم کوئی
خاص نہیں 1968 میں معاشیات میں گریجویشن کیا تھا ۔ اپنے والد کے رئیل اسٹیٹ
کے کاروبار کاجانشین ہے ۔ میں نے ٹرپ کی زندگی کی کہانی میں بہت کھوج لگایا
کہ کہیں اس کا تعلق سیاسی معاملات، حکومتی مشینری سے وابستگی ، فلاحی اور
عوام کی بہتری کے لیے اس کا کوئی کام سامنے آئے لیکن کہیں بھی ایساکچھ نہیں
ملا۔ افسوس امریکی عوام نے ایک مداری کے مقابلے میں سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے
والی سیاست داں ہیلری کلنٹن کو ریجیکٹ کردیا۔وہ ایک پڑھی لکھی ، سمجھ بوجھ
رکھنے والی خاتون تھی۔ وہ 2009سے 2013تک اس اہم امریکی عہدے پر کام کرتی
رہی تھی۔ اس اعتبار سے ہیلری امریکہ کی سیاست ، عالمی سیاست ، مسائل اور
انتظامی امور میں مہارت کے درجہ پر پہنچ چکی تھیں۔ وہ ایک تخلیق کار بھی
ہے۔ کالم نویس بھی اور کتابیں بھی لکھیں۔ ان سب باتوں کے باوجود امریکی
عوام نے امریکہ کی صدارت کے لیے ٹرمپ جیسے شخص کا انتخاب کیا۔ اب جیسا وہ
ہے ، جو قابلیت، سیاسی تجربہ و بصیرت وہ رکھتا ہے ،وہ جو بھی فیصلے بھی
ایسے ہی کریگا، اس کی باتوں میں پختگی نہیں ، سنجیدگی نہیں ، بردباری نظر
نہیں آتی۔ اس کی واضح مثال 19ستمبر 2017کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی
اجلاس سے اس کا خطاب تھا۔ جس میں اس نے انتہائی بھونڈے انداز سے کئی ملکوں
کے بارے میں امریکی پالیسی کا اظہار کیا اس سے اس کے سیاسی تدبر اور سوچ کی
عکاسی ہوتی ہے ۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ’ امریکی سلامتی سب سے اہم ہے‘ ، چلیے
اس بات میں کوئی برائی نہیں ، امریکیوں کو اپنے سپر ہونے کا گھمنڈ ہمیشہ سے
رہا ہے۔ پھر شمالی کوریا اور ایران کے بارے میں کہا کہ ایران سرکش اور کرپٹ
، شمالی کوریا خود کش باز نہ آیا تو تباہ کر دینگے، تہران سے جوہری معاہدہ
شرمناک تھا، ختم کر دینگے، طالبان کے خلاف جنگ میں رولز تبدیل کردیے، ان کے
خلاف آپریشن ہوگا، دہشتگردوں کی پناہ گاہیں دوبارہ نہ بننے دی جائیں،
القاعدہ، داعش اور اسلامی دہشتگردی ختم کردیں گے، شمالی کوریا کو دھمکی
دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر شمالی کوریا نے امریکہ یا اس کے اتحادیوں کو
اپنے دفاع پر مجبور کیا تو امریکہ اسے صفحہ ہستی سے مٹادے گا۔ افغانستان کے
بارے میں انہوں نے طالبان کے خلاف جنگ کے رولز تبدیل کردئے اور اب ان کے
خلاف ملٹری آپریشن کا آغاز کیا جائے گا۔ٹرمپ نے شمالی کوریا کے رہنما کم
جونگ کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ’راکٹ مین خود کش مشن پر ہے‘ ۔ ایران
کے بارے میں کہا تھاکہ ایران امریکہ اور اسرائیل کو تباہ کرنا چاہتا
ہے۔ٹرمپ نے وینزویلا کو بھی امریکہ کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ وہ پاکستان
کے بارے میں بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں تنقید کر چکا ہے اب کھل کر اس نے
پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنا یا اور امداد بند کرنے کی دھمکی دی۔ لیکن یہ
سب باتیں ٹرمپ کی گیدڑ بھپکی سے زیادہ نہیں وہ ایک چرب زبان ، ڈرپھوک لیڈر
ہے، باتوں سے کام چلا تا ہے، شیخی خورہ ہے، بھڑکیا مار نے میں ماہر ہے۔ٹرمپ
نے پہلے بھی شمالی کوریا کے میزائل تجربات کے بعد جس قسم کے بیانات دیے
ایسا لگتا تھا کہ امریکہ شمالی کوریا کو دنیا کے نقشے سے مٹادے گا لیکن اس
وقت بھی ٹرمپ کے بیانات بھڑکیا ں ہی ثابت ہوئیں اور اب بھی ایسا ہی نظر آتا
ہے کہ ٹرمپ کے اندر کچھ اور ہے اظہار کچھ اور کرتا ہے۔اب زمانہ بدل چکاہے
دنیا کے نقشے پر صرف امریکہ ہی جوہری طاقت نہیں، بڑی طاقت نہیں اور بھی
ہیں، امریکہ نے اگر کسی ملک پر چڑھائی کی تو اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا
پڑے گا۔ چین جیسا ملک امریکہ سے کم طاقت کا مالک نہیں اور وہ پاکستان کا
قدیم دوست بھی ہے۔ اس لیے ٹرمپ کو بلا وجہ کی دھونس دھمکی کے بجائے افہام و
تفہیم سے کام لینا چاہیے۔امریکہ نے ایران کا کیا بگاڑ لیا، اس کی تمام
تردھونس و دھمکی ، زبانی جمع خرچ ہی ثابت ہوئی ہیں۔
ٹرمپ نے پاکستان کی امداد بند یا کم کرنے کی جو دھمکی دی ہے پاکستانی عوام
کی یہ دلی خواہش ہے کہ امریکہ اپنی اس خواہش کا احترام کرے اور جو بھیک وہ
پاکستانی قوم کو دیتا ہے وہ دینا بند کردے، پاکستانی عوام اس کشکول کو توڑ
دینا چاہتے ہیں ۔ امریکہ کی جنگ میں پاکستان کا جانی و مالی نقصان جس قدر
ہوا ہے اس کے پیش نظر اب ڈو مور نہیں بلکہ نو ڈو مور ہوگا۔ امریکہ اپنی
امداد کل کا بند کرتا آج ہی بند کر دے۔ عوام اس کے انتہائی شکر گزار ہوں
گے۔ لیکن پاکستان ٹرمپ جیسے شخص کی گیدڑ بھپکی میں نہیں آئیں گے۔ ہم ایک
خود دار قوم ہیں۔ پاکستان کے وسائل وسعت کے اعتبار سے اس قدروسیع ہیں کہ
پاکستان اپنے بل بوتے پر خوش حال زندگی گزار سکتاہے۔ امریکہ بہادر تمہیں
خیرات میں دی گئی رقم تمہیں ہی مبارک ہو رکھو اپنے پاس۔ ہمارے حکمرانوں نے
اس خیرات کے بدلے تمہیں جو کچھ دیا وہ بھی سب کی نظروں کے سامنے ہے۔ تمہیں
ہمارا کندھا درکار تھا تم نے لیا اور استعمال کیا، راستہ چاہیے تم ہمارے
گھر سے ہوکر افغانستان گئے ، ہوائی اڈے تمہیں ہمارے چاہیں تھے وہ تم نے لیے
اور استعمال کیے ،لیکن حاصل کیا ہو ؟کیا تم وہ جنگ جیت گئے؟ نہیں نہ جیتے
ہو اور نہ ہی فتح تمہارے مقدر میں ہے۔ بڑے شوق سے پاکستان کی امداد بند کر
دو۔
|