ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ جو کچھ ہم سیاست میں اپنی
جماعت، سیاسی سرگرمیوں اور حصول اقتدار کے لیے کرتے ہیں اگر وہی کچھ اپنی
ذات کے لیے کریں تو سب سے بڑے شیطان کہلائیں۔ اگر اس تجزیہ پر غور کریں تو
بات بالکل درست نظر آتی ہے ۔ اپنے اہل سیاست پر نگاہ دوڑا لیں کہ کیا دور
حاضرہ میں کوئی ایک بھی سیاست دان جھوٹ، ریاکاری، منافقت، ہوس اقتدار،
الزام تراشیوں اور دوسری برائیوں سے مبرا نہیں ہے۔بدقسمتی سے اس فہرت میں
وہ سب بھی شامل ہیں جو نظریاتی سیاست کے دعویٰ دار ہیں اور وہ بھی جو مذہب
کے نام پر کارزار سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔ کوئی خال خال مثال ان برائیوں
سے ماورا ہوسکتی ہے جو میدان سیاست میں بھی اعلیٰ اوصاف کی حامل ہو لیکن
غالب اکثریت تو میکاولی سیاست کی امین ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں
اگر کوئی جھوٹا اور بد دیانت ہو تو کبھی بھی قیدات کا اہل نہیں ہوتا لیکن
ہمارے ہاں صادق اور امین کی شرائط کا مذاق اڑایا کاتا ہے۔ ہمارے سیاستدان
جب حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو ان کی سیاست کا ہدف اور مطالبات اور ہوتے
ہیں اور انہیں ہرطرح کا احتجاج او ر جدوجہد عین عبادت نظر آتی ہے لیکن جب
انہی کے سر پر اقتدار کا ہما بیٹھتا ہے تو پھر سارے معیار بدل جاتے ہیں اور
ہر سیاسی جدوجہد کو وہ ملک دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اپنی جماعت کی قیادت
کی ہر بات عطر وگلاب میں دھلی ہوئی اور سچ نظر آتی ہے جبکہ مخالف کی درست
بات کو بھی جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنما اس قدر اخلاقی
دیوالیہ پن کا شکار کیوں ہیں۔ اس فہرست میں صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ
زندگی کے ہر شعبہ کے لوگ بھی شامل ہیں لیکن رہنماء اس لیے زیاد اہمیت رکھتے
ہیں کیونکہ وہ ملک و قوم کی قیادت کرتے ہیں اور قوم ان کے پیچھے چلتی ہے اس
لیے ان پر عام لوگوں سے کہیں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ذاتی زندگی میں
ہمارے راہنماء کردار میں کفار مکہ سے بھی گئے گذرے ہیں۔ بات بہت سخت ہے مگر
سچ تو یہ ہے کہ رسولﷺ کا بدترین دشمن اور کفار مکہ کا سردارابوسفیان کا
کردار بھی سچ بولنے کے حوالے سے ہمارے ان لوگوں سب سے کہیں بہتر تھا۔تاریخ
گواہ ہے کہ جب بازنطینی بادشاہ ہرقل روم نے اہل دربار کے سامنے (اُس وقت کے)
دشمن رسولﷺ ابوسفیان سے پوچھا کہ محمدﷺ کیسے انسان ہیں، کیا وہ جھوٹ بولتے
ہیں، کیا امانت دار ہیں، کیا وہ عدوہ پورا کرتے ہیں ـ؟ ابوسفیان نے بلا
تعامل کہا کہ محمدﷺ سچے انسان ہیں اور جھوٹ نہیں بولتے، امانت دار ہیں اور
وعدہ خلافی نہیں کرتے۔
اگر ہرقل روم کے دربار میں ابوسفیان کی جگہ آج کا کوئی بھی سیاستدان ہوتا
تو کیا جواب دیتا؟کیا وہ اپنے پاس سے مزید جھوٹ اور الزامات شامل کر نہیں
لیتا؟ اپنے قائد کی ہر غلط بات کا دفاع کرنا اور مخالف کی درست بات کو بھی
غلط ثابت کرنا ان کا وطیرہ ہے۔رسول اﷲ ؐ کا فرمان ہے کہ میری امت کے لئے
دجال سے زیادہ خوفناک چیز گمراہ کن قائدین ہیں۔ لیڈر کیا ، کارکنوں کا بھی
یہی حال ہے۔ خدا کا کوئی خوف یا ضمیر نام کی چیز ان کے ہاں نہیں۔ ہمارے
سیاست دان توکفار مکہ کے سردار ابو سفیان جتنے بھی صاحب کردار نہیں کم از
کم اس کی طرح سچ بولیں۔ساغر صدیقی نے درست ہی کہا تھا کہ
رہبروں کے ضمیر مجرم ہیں ، ہر مسافر یہاں لٹیرا ہے
معبدوں کے چراغ گل کردو قلب انساں میں اندھیرا ہے
لیڈر کیا اور عوام کیا ، اس حمام میں سب ننگے ہیں۔عام آدمی سے لیکر اوپر تک
سب ہی اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ کہنے کو کہا جاتا ہے کہ ہم زندہ وقوم
ہیں۔ لیکن زندہ قوم کیا ایسی ہوتی ہیں کہ ہر برائی ہمارے اندر موجود
ہے۔قرآن حکیم نے اقوام سابقہ اور ان کے جرائم کی فہرست بھی دی ہے جن کے
باعث وہ ہلاک ہوئے اور نشان عبرت بنے۔ ان سب جرائم کی ایک فہرست مرتب کرلیں
اور ہم اپنا جائیزہ لیں، وہ تما م برائیاں اور جرائم ہمارے اندر موجود ہیں
لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمیں احساس تک نہیں بقول حکیم الامت
وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ہم ایک نظریہ اور ضابطہ حیات کے مطابق زندگی بسر کرنے کے دعویٰ دار ہیں
لیکن اُس کی معمولی سی بھی جھلک ہمارے اندر نظر نہیں آتی۔ اس کے بر عکس
دنیا کی بہت سی اقوام اخلاق و کردار میں کیوں بہت بہتر ہیں۔ ادویات میں
ملاوٹ کرنے والوں، مردہ گوشت بیچنے والوں، مصنوعی دودھ اورگھی تیار کرنے
والوں، کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ ، جھوٹ بول کر مال فرخت کرنے والوں
اور رشوت لینے والوں کے ضمیر کیوں نہیں جاگتے۔ قومی خزانے کو بے دریغ ہڑپ
جارہاہے پوری دنیا میں ہمارے راہنماؤں کی کرپشن کی داستانیں عام ہیں ۔
ہمارے اساتذہ کلاس میں پڑھانے کی بجائے ٹیوشن میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں،
ڈاکٹر مریضوں کو ہسپتال کی بجائے پرائیویٹ دیکھیں ،جہاں مذہبی رہنماء قوم
کو فرقوں میں بانٹ دیں اور حرام مال شیر مادر کی حلال سمجھا جائے وہاں کیا
ضمیر زندہ رہے گا۔ زندگی کو کوئی سا بھی شعبہ لے لیں یہی صورت حال نظر آئے
گی۔قافلہ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں۔ تبدیلی اور انقلاب صرف حکومتوں کے
بدلنے سے ہی نہیں آتے بلکہ جب تک قلب و ذہن میں تبدیلی نہیں آتی حقیقی
انقلاب نہیں آسکتا ۔قرآن نے بالکل واضع بتا دیا ہے کہ جب تک کوئی قوم اپنے
قلب و ذہن میں اور اپنے سوچنے کے انداز میں تبدیلی نہیں لاتی،اپنی طرز فکر
کو بدلتی نہیں تو خدا بھی اُس قوم کے حالات نہیں بدلتا۔ یہ وہ ذمہ داری ہے
جو سب پر عائد ہوتی ہے اور ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہے بصورت دیگر ہم
اسی دلدل میں ہی پھنستے چلے جائیں گے۔ |