ٹرمپ کی بدنام زمانہ ٹویٹ جس میں پاکستان اور پاکستانی
قوم کی توہین کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ گذشتہ پندرہ سالوں میں امریکہ سے
اربوں ڈالرز امداد لینے کے باوجودپاکستان نے امریکہ کو سوائے جھوٹ اور
دھوکے کے کچھ نہیں دیا ، نیز یہ کہ پاکستان نے امریکی لیڈروں کو بے وقوف
بنائے رکھا۔ اس ٹویٹ کے بعد وائیٹ ہاؤس کی طرف سے 24سے 48گھنٹے کا ٹائم دیا
گیا تھا کہ اس کے اندر پاکستان کے خلاف مزید اقدامات سامنے آئیں گے ۔ اب وہ
اقدامات سامنے آچکے ہیں ۔ امریکہ نے پاکستان کی سکیورٹی امدادمعطل کر دی ہے
اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ پاکستان نے دہشت گرد نیٹ ورکس کے خلاف
کارروائی نہیں کی ۔امریکی محکمہ ٔ خارجہ نے شرط رکھی ہے کہ جب تک پاکستان
حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا یہ امدادمعطل
رہے گی ۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق کچھ امداد پاکستان کو مل سکتی ہے اگر
وہ حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے ۔ نیز یہ
کہ منجمد کی گئی امداد کہیں اور خرچ نہیں ہوگی ۔
گویا کہ امریکہ کو ابھی بھی اُمید ہے کہ پاکستان اس کے لیے وہ کچھ کر گزرے
گا جو امریکہ چاہتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ کے تمام
دعوؤں اور پالیسیوں کی طرح نئی افغان پالیسی بھی بُری طرح ناکامی سے دوچار
ہو چکی ہے اور ان تمام ناکامیوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو باؤلا بنا دیا ہے اور
وہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق کبھی اس کا سارا الزام پاکستان پر
لگاتے ہیں ، کبھی دھمکیوں پر اُتر آتے ہیں اور کبھی پھر پاکستان سے اُمیدیں
لگانے بیٹھ جاتے ہیں ۔امریکی اپنے غم کو غصہ کی آڑ میں جتنا بھی چھپا لیں
لیکن ایک بات طے ہے کہ امریکہ جتنا جتنا بپھر رہا ہے دنیا پر اس کا غم
اُتنا ہی کھل کر سامنے آرہا ہے ۔ٹرمپ کی پالیسی کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے
کوشش کی کہ شمالی کوریا سے معاندانہ پالیسی اپنائی جائے لیکن وہ تیر بھی
نشانے پر نہیں لگا بلکہ اُلٹا شمالی کوریا امریکہ کو آنکھیں دکھا رہاہے ۔
اسی طرح مشرق وسطیٰ میں بھی امریکہ کی کئی پالیسیوں کو روس نے ناکام بنادیا
۔ خاص طور پر شام میں وہ ایک تیرسے جو کئی شکار کرنا چاہتا تھا وہ روس کی
مداخلت کی وجہ سے نہیں کر سکا ۔ ایران میں بھی انھیں کوئی خاطر خواہ
کامیابی نہیں ملی۔ اپنی گرتی ہوئی پوزیشن کو سنھبالا دینے کی کوشش میں ٹرمپ
نے یروشلم کے حوالے سے جو قدم اٹھایا اس کا بھی امریکی توقع سے زیادہ سخت
اور شدید ردعمل سامنے آیا ۔اگست 2016ء میں امریکہ نے جس نئی افغان پالیسی
کا اعلان کیا تھا وہ بھی اپنا کوئی اثر دکھاتی نظر نہیں آرہی ، بجائے اس کے
اس خطہ میں چائنہ ، روس اور پاکستان پر مشتمل ایک نیا اتحاد بنتا نظر آرہا
ہے ، اصل غصہ اس کا بھی ہے ۔لہٰذا ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ کے باؤ لا ہونے
میں اب کیا کسر باقی رہ جاتی ہے جبکہ ٹرمپ کی صدارت کی پہلی سالگرہ بھی سر
پر ہے ۔ اس سے قبل ٹرمپ نے سٹیٹ آف دی یونین ایڈریس بھی کرنا ہے ۔ وہ
امریکی عوام کو دکھانا بھی چاہتے ہیں کہ گزشتہ امریکی انتظامیہ امریکی طاقت
کو موثر انداز میں استعمال نہیں کر سکی ۔ہم آپ کو یہ کر کے دکھا رہے ہیں ۔لہٰذا
پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں مطلوبہ
نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔
پاکستان پر بڑھتا ہوا یہ امریکی دباؤ دراصل نئی افغان پالیسی کا ہی تسلسل
تھا جس کا مقصد پاکستان کو اس بات پر مجبور کرنا تھا کہ وہ افغان طالبان کے
خلاف وہ موثر کردار ادا کرے جس کا مطالبہ وہ پاکستان سے ایک عرصہ سے کر رہا
ہے ۔خاص طور پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ تو امریکہ نے
ہمیشہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ چونکہ خطہ میں نیا اتحاد بنتا نظر آرہا
ہے تو لہٰذا امریکہ کا انڈیا کی طرف جکاؤ بھی اس کی مجبور ی ہے ۔ لہٰذا
حافظ سعید کے خلاف کارروائی کا مطالبہ پاکستان سے کرکے انڈیا کو خوش کرنا
بھی امریکہ کی ضرورت بن چکا ہے ۔چنانچہ امداد روکنے سے قبل دی گئی دھمکیوں
اور نوٹس کا مطلب تھا کہ پاکستان نئے اتحاد کی طرف جانے سے باز رہے اور
امریکہ کا اتحادی رہ کر افغان طالبان کے خلاف کارروائی کرے اور ایسا نہ
کرنے کی صورت میں یکطرفہ کارروائی کی دھمکی بھی امریکہ دے رہا تھا ۔امریکی
نائب صدر مائیک پینس نے گذشتہ دنوں افغانستان میں اس جانب ایک اشارہ یہ کہہ
کر دیا کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کو نوٹس دیا ہوا ہے۔اسی طرح سی آئی اے کے
سربراہ مائک پیمپیو بھی یہ کہہ چکا ہے کہ اختلافی معاملہ پر امریکہ پاکستان
میں کسی بھی وقت اور کہیں بھی کارروائی کر سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانی
فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے نوٹس کی بات پر ناراضی کا اظہار کرتے
ہوئے کہا کہ امریکہ کو پاکستانی سرزمین پر کسی بھی یکطرفہ کارروائی سے
پرہیز کرنا چاہیے۔وزیر دفاع خرم دستگیر نے بھی ٹویٹ میں کہا کہ پاکستان
اپنی حفاظت کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
اب چونکہ امریکہ نے پاکستان کی امداد منجمد کرتے ہوئے یہ نئی شرط رکھی ہے
کہ اگر پاکستان کے اس کے مطلوبہ اہداف کو پورا کرے گا تو اس کو کچھ امداد
مل جائے گی۔ ان حالات میں بہتر فیصلہ یہی ہوگا کہ ہم بھی جواب میں امریکہ
کی لاجسٹک سپورٹ بند کردیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکہ کی اس جنگ میں
جتنی قربانیاں پاکستان نے دی ہیں شاید ہی امریکہ کے کسی نیٹو اتحادی نے بھی
دی ہوں ۔ اس کے باوجود نہ صرف امریکہ پاکستان پر اعتبار کرنے کو تیارنہیں
ہے بلکہ اُلٹا پاکستان کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار بھی ٹھہرا رہا ہے اور نہ
صرف ٹرمپ بلکہ پوری امریکی انتظامیہ کا لب ولہجہ پاکستان کے بارے میں
انتہائی توہین آمیز بن چکا ہے ۔اس کے باوجود اگر اب بھی پاکستان کی سیاسی
یا عسکری قیادت نے امریکہ کے ساتھ تعاون یا تعلقات پر نظرثانی خواہش کی تو
یہ پہلے سے زیادہ تباہ کن بات ہو گی ۔
اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو اصل دھوکے باز ، مکار اور جھوٹا تو خود
امریکہ ہے ۔ امریکہ پاکستان کی آزادی و خودمختاری کو چیلنج کرتے ہوئے اور
فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یکطرفہ کارروائی میں ایبٹ آباد میں
اسامہ بن لادن اور بلوچستان میں افغان طالبان کے امیرملا اختر منصور کے
خلاف آپریشن کر چکا ہے ۔ ڈرون حملوں کے ذریعے بھی امریکہ آئے روز عام
شہریوں کی ہلاکت کا مرتکب ہو رہاہے ۔سلالہ چیک پوسٹ کا واقعہ جس میں
25پاکستانی فوجی شہید ہوئے ، وہ بھی پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا ہی ایک
امریکہ حربہ تھا ۔1962ء میں وہ کشمیر کے معاملے میں دھوکا دے چکا ہے اور
1971ء میں اس کے بحری بیڑے کا انتظار کرتے کرتے پاکستان دولخت ہو گیا۔ سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرایسی کیا وجہ ہے کہ امریکہ کو پاکستان میں ہی ہر طرح
کی چھوٹ حاصل ہے کہ جب چاہے تو پاکستان کو استعمال کرلے اور جب چاہے تو اس
کی عزت ، آزادی اور خودمختاری کو روند ڈالے ۔ جب چاہے تو امداد دینے کے نام
پر پاکستان کی قربانیوں کا مذاق اُڑائے ۔جبکہ شمالی کوریا ، ایران ،
افغانستان اور دیگر بیشتر مقامات پر وہ منہ کی کھارہا ہے اور اسے گھاس تک
کوئی نہیں ڈال رہا ۔لہٰذا ہمارے لیے بھی یہ بہترین موقع ہے کہ ہم امریکہ
جیسے دھوکہ باز اتحادی سے اپنا پیچھا چھڑا لیں ۔بصورت دیگر کیاٹرمپ اور اس
کی انتظامیہ کے اس ہتک آمیز رویہ کے بعد بھی امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے اور
اس کے سامنے بچھ جانے سے پاکستان کی جان چھوٹ جائے گی ؟حالانکہ نائن الیون
کے بعد کا سولہ سالہ تجربہ صاف طور پر یہ بتا رہا ہے کہ وہ نہتے اور مٹھی
بھر طالبانِ افغانستان جو ڈٹ گئے تھے آج امریکہ جیسی سُپر پاور کی دُم ان
کے قدموں تلے آچکی ہے اور امریکہ اُسے چھڑانے کے لیے کبھی بھاگا بھاگا
انڈیا کے پاس جاتا ہے اور اسے لالچ دیتا ہے اور کبھی پاکستان پر غرّا تے
ہوئے دھمکیوں پر اُتر آتا ہے ۔جبکہ دوسری طرف پاکستان نے ایک کال پر خود کو
امریکہ کے حوالے کرتے ہوئے سولہ سالوں میں جو کچھ حاصل کیا وہ سب کے سامنے
ہے ۔یہ بھی اُسی تعاون کا صلہ ہے جو آج پاکستان کو ہر نئی صبح ایک نئے
الزام اور پوری قوم کی توہین کی صورت میں مل رہا ہے ۔
لہٰذا ہمارے نزدیک موجودہ حالات میں جبکہ امریکہ کسی صورت بھی پاکستان پر
اعتبار کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے بلکہ پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف
کرنے کی بجائے ان قربانیوں کی توہین پر اُتر آیا ہے ، اس سے تعلقات پر
نظرثانی کی استدعا کرنے یا مزید تعاون کی یقین دہانیاں کرانے کی بجائے ہمیں
اپنے اس اصولی موقف پر ڈٹ جانا چاہیے کہ ہم باڈر کے اندر کی صورتحال کے تو
خود ذمہ دار ہو سکتے ہیں یعنی ہماری کوشش ہو گی کہ پاکستان کی سرزمین
امریکہ کے خلاف استعمال نہ ہو لیکن افغانستان میں ہم کسی قسم کی آپ کی مدد
نہیں کر سکتے۔ امریکہ اپنی امداد اپنے پاس رکھے ۔اس وقت مجبوری امریکہ کی
ہے کہ وہ افغانستان میں پاکستان کی مدد کے بغیر جنگ جیت ہی نہیں سکتا ۔ اگر
پاکستان ہمت سے کام لے اور غیر جانبدار رہ کر اپنے اصولی موقف پر ڈٹ جائے
اور امریکہ کی لاجسٹک سپورٹ بند کردے تو امریکہ کچھ بھی نہیں کر سکتا بلکہ
اُمید ہے چند ہی سالوں میں اس کا دماغ ٹھیک ہو جائے ۔پاکستان چائنہ اور روس
کے ساتھ مل کر ایک نیا اتحاد بنا سکتا ہے اور یہ وہ اتحاد بن سکتا ہے جس سے
امریکہ کے پاؤں ہی اس خطے سے اُکھڑ جائیں گے ۔ اگر امریکہ پاکستان کے خلاف
کوئی اقدام کرے تو پاکستان کے پاس دوسرے بھی کئی آپشنز ہیں جیسا کہ وہ
زمینی راستے جو سلالہ واقعہ کے بعد بند کر دیے گئے تو امریکہ کے ہوش ٹھکانے
آگئے تھے ۔اسی طرح پاکستان کا ائیر کوریڈور بھی امریکہ کے استعمال میں ہوتا
ہے ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شمالی کورین ہو ں ، ایرانی ہوں یا افغان طالبان ،
وہ اپنی مٹی کے ساتھ کے ساتھ مخلص ہیں لہٰذا کوئی بھی بیرونی طاقت ان کا
کچھ نہیں بگاڑ سکتی مگر ہمارے اوپر مسلط غاصب اپنے ذاتی مفاد اور اقتدار کے
لیے وطن کی مٹی کو بھی گروی رکھ چکے ہیں ۔ کا ش کہ دھرتی کو وفا مل جائے !۔ |