100 سال قبل دین اسلام میں کوئی فرقہ وجود میں نہ تھا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کسی محفل میں ایک حضرت نے ایک بات پر سوال کیا کہ
"آپ کا مسلک کیا ہے؟"
جواب دیا گیا "کچھ نہیں"۔
کہنے لگے "پھر بھی"۔
کہا گیا "الحمدللہ میں مسلم ہوں اور یہ نام اللہ کا دیا ہوا ہے۔
طنزیہ فرمانے لگے کہ "کہیں بھی جانا ہو، بندے کا کوئی ایک راستہ ہوتا ہے۔"
ادب سے عرض کیا گیا ، "حضور پکی سڑک پر چلنا پسند کرتا ہوں، پگڈنڈیاں چھوڑ دیتا ہوں۔"
اور یہ صرف ایک دفعہ کی بات نہیں، اکثر لوگ اچھے بھلے سمجھدار اور پڑھے لکھے بھی یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کہ دوسرا کسی مسلک کی پیروی نہیں کرتا۔

تو ایک چھوٹی سی بات ہے، آپ مدد کر دیجئے !!

خطبہ حجۃالوداع اورتاریخی موقعے کا ذکر تو آپ سب نے یقینا” پڑھا ہوگا۔ کوئی لاکھ سوا لاکھ کا مجمع تھا۔ کوئی مجھے بتائے گا کہ اس وقت موجود صحابہ اور نو مسلم شیعہ تھے یا سنی؟
میں جاننا چاہتا ہوں کہ
1703 سے پہلے عبدالوہاب نجدی،
1856 سے پہلے احمد رضا خان بریلوی،
1866 سے پہلے دارلعلوم دیوبند، یا بریلی کا وجود تھا؟
لگ بھگ 100 سال پہلے جب اہل حدیث اور سلفی تحریک جب وجود نہیں رکھتے تھے
تو عام سادہ اہلِ اسلام کو کیا کہا جاتا تھا اور کیا ان سب تحریکوں، مدرسوں اور شخصیات نے خود یا اپنے ماننے والوں کی وجہ سے ایک مسلک اور فرقوں کا روپ نہیں دھارا ؟
کیا ان سب نے اہلِ اسلام کو تقسیم کیا یا متحد کیا؟
رنگ، نسل، زبان، وطن، علاقے اور برادری کی تعصبات پر مبنی جاہلانہ تقسیم و تفرق کیا ابھی مسلمانوں کے لئے ناکافی تھیں کہ مذاہب، مسالک، مکاتب فکر کے نام پر فرقے متعارف کروائے گئے؟

کیا ہمارے قابل احترام اساتذہ، جن کو ہم آئمہ کرام کہتے ہیں، کیا ہم کو کبھی اپنی پوری زندگیوں میں ایک بار بھی حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، اور جعفری میں بٹنے کا درس دے کر گئے؟

البتہ یہ بھی رہنمائی کوئی فرما دے کہ اگر یہ محض فقہی، فکری اور علمی مسالک ہیں تو مسجدیں کیوں الگ ہیں؟
ڈاڑھی کا وضع، ٹوپی کا سٹائل، عمامے کا رنگ، جھنڈے کی شبیہ، نماز کا طریقہ، اور مدارس کا نصاب کیوں الگ الگ ہے؟
تقسیم اتنی خوفناک ہے کہ عقائد، رسومات، تہوار، بچے اوربچیوں کے نام، زمانے کے امام، حتی کہ صحابہ کرام تک بانٹ کر رکھ دیئے گئے۔
یہاں شہہ دماغوں نے کالا، سفید، نارنجی، ہرا ،پیلا اور بھورا سب رنگ اپنے ساتھ مخصوص کر رکھے ہیں۔ سارا زور اس بات پر کیوں ہے کہ کوئی ہمیں جس ‘حالت‘میں بھی دیکھے پہچان جائے کہ ہم ‘الگ‘ ہیں اور فلانے ہیں۔
جناب والا صاحب علم و عقل یہ بھی سمجھا دیں کہ مدرسوں، فتووں کی کتابوں اور لوگوں کی باتوں سے نکلا ہوا مسلک اور فرقہ موروثی کیسے ہو تا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ بھی کسی ملٹی نیشنل پراڈکٹ کی طرح لیبل لگا کر آتا ہے کہ ان کے سامنے ماڈرن کارپوریٹ کلچر، مارکیٹنگ اور برانڈنگ تو ابھی کل کی بات لگتی ہے۔
آج کے مقابلے میں تو اچھے دور تھے شاید وہ جب مناظرے اور چیلنج کیے جاتے تھے۔ اول اول بحث مباحثہ ہی تھا لیکن پھر بات آگے بڑھتی گئی۔ پہلے تو محض ایک دوسرے کو لعنت ملامت اور تبرا بھیج کر کام چلا لیا جاتا تھا، پھر کفر کے فتوے مارکیٹ میں آئے۔ بات جنت اور دوزخ کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے تک چلی گئی۔ پھر چند "جدت پسندوں" نے سیدھا وہاں تک پہنچانے کا کام بھی اپنے ذمہ بحسن و خوبی لے لیا۔ ٹیکنالوجی نے ترقی کی اور یہ "سائنسدان" گروہ در گروہ لوگوں کو جنت بلکہ اپنی طرف سے دوزخ کی جانب روانہ کرنے لگے۔
رسول ہادی و برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے تو منع کرنے کے لئے اور امت کی پستی و ابتری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے
بنی اسرائیل سے تقابلے میں 73 فرقے کہے تھے۔ افسوس کہ مذکورہ حدیث سے اپنے فرقے کے صحیح اور جنتی ہونے کا جواز گھڑ لیا، اور باقی سب کو ٹھکانے لگا دیا۔ اب آپ ہوتے تو پتہ نہیں کیا کہتے،
لیکن نصف صدی پہلے ابن انشاء نے لکھا تھا،
"دائروں کی کئی اقسام ہیں۔ ایک دائرہ اسلام کا بھی ہے ۔ پہلے اس میں لوگوں کو داخل کیا جاتا تھا ۔ اب عرصہ ہوا داخلہ بند ہے صرف خارج کیا جاتا ہے ".
اللہ رب العزت نے تو کہا "اُن لوگوں میں سے نہ ہونا جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور فرقے فرقے ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اُن کے پاس ہے" (سورہ الروم)۔
اور اللہ تعالی یہ بھی تو کہتا ہے کہ "جن لوگوں نے دین کو فرقے کر دیا اور گروہوں میں بٹ گئے،(اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دو تمہارا ان سے کوئی واسطہ نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو (سب) بتائے گا" (سورہ الانعام)۔
یہ آیت بھی تو سب کو یاد ہی ہوگی کہ "سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور فرقے فرقے نہ ہو جانا" (سورہ آل عمران)۔
اور کیا اللہ نے اپنے تقسیم کو اپنے عذاب سے تشبیہ نہیں دی؟؟
جب فرمایا کہ
"کہہ دو کہ وہ قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے یا تمہیں فرقہ فرقہ کردے اور ایک کو دوسرے (سے لڑا کر آپس) کی لڑائی کا مزہ چکھادے۔ دیکھو ہم اپنی آیتوں کو کس کس طرح بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں" (سورہ الانعام)۔
جو دین فرق مٹانے اور ایک لڑی میں پرونے آیا تھا،اس کو ہم نے بالکل الٹ بنا کر خانوں میں رکھ دیا۔
سمجھ نہیں آتا کہ کوئی بھی شخص فارم پر کرتے ہوئے جب مسلک کا خانہ خالی چھوڑتا ہے تو دوسرے کو اعتراض کیوں ہوتا ہے۔ جب کوئی تعارف کرواتا ہے تو اس کو صرف الحمدللہ میں مسلم ہوں کہنے پر شرمندگی کیوں ہوتی ہے۔
کیا ہماری نظروں سے یہ آیت نہیں گزری کہ "اس ( ﷲ) نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے، اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسولِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو جائیں اور تم بنی نوع انسان پر گواہ ہو جاؤ’’۔ (سورہ الحج)۔
معاذاللہ،نعوذ باللہ ہم اور ہمارے تکبر کیا اتنے بڑے ہیں کہ ہم کو اسلام اور اللہ کے بیان میں کوئی کمی لگتی ہے اور ہم اللہ کے دیئے ہوئے نام یعنی صرف مسلم کے ساتھ شیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی، سلفی، اہل حدیث یا بریلوی لگا کر پورا کرتے ہیں۔ ہم نے تمام أئمہ کرام کو زمانے کا استاد تسلیم کیوں نہیں کیا؟
اگر ایک ہی مسئلے پر سپیشلسٹ ڈاکٹرز کا پینل اختلاف رائے کا اظہار کرتا ہے، اگر ایک ہی کیس میں سپریم کورٹ کے ججز اختلافی نوٹ لکھتے ہیں اور اگر مظاہر کائنات پر سائنسدان متنوع نظریات پیش کر سکتے ہیں تو ہم کبھی طب،قانون اور سائنس اور اس کے ماہرین پر انگلی نہیں اٹھاتے، ان کے پیچھے مسالک قائم نہیں کرتے اور ان کےمشترکہ نقائص نہیں نکالتے۔ بلکہ ایک طالب علم کی حیثیت سے سب کو مان کر اور پڑھ کر اپنی تحقیق کے بعد اپنے علم کی بنیاد رکھتے ہیں۔ تو پھر ہمیں کس چیز نے کاٹا ہے کہ ہم در بدر، رنگ برنگی دکانوں پر پھرتے ہیں اور اصل تو دور کی بات،کیوں نقل کے دھوکے میں خالی رنگین پیکنگ اٹھائے لئے پھرتے ہیں!
تو کیوں نہ اس تفریق کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں...

آئیے مفید معلومات زیادہ سے زیادہ پھیلائیں تاکہ اسے پڑھ کر کچھ لوگ تو شعور پا جائیں۔

Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 334473 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More