جب سے دہلی مرکز اور ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میں بی جے
پی کی حکومتیں اقتدار میں آئی ہیں، ملک میں آئے دن مختلف بہانوں سے اقلیتوں
میں خوف وہراس پھیلایا جارہا ہے۔ ایک مسئلہ کے بعد دوسرے مسئلہ میں اقلیتوں
کو الجھاکر انہیں ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے روکا جارہا ہے۔ کانگریس نے
بھی اپنے دورِ اقتدار میں مسلمانوں پر ظلم وزیادتی کرنے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑی تھی لیکن پھر بھی مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کے بعض
مسائل کا حل کرنا اور کسی درجہ میں ان کو خوش رکھنا کانگریس کی مجبوری تھی۔
بی جے پی کو مسلمانوں کے ووٹوں کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی وہ اسمبلی
یاپارلیمنٹ میں مسلم نمائندگی کی خواہش رکھتی ہے، گزشتہ متعدد مرتبہ ایک
بھی مسلمان کو اپنا امیدوار نہ بنانا اس بات کی واضح دلیل ہے۔ ملک کی ترقی
وخوشحالی پر صلاحیتیں لگانے کے بجائے گائے، مذبح خانے، گوشت کی دکانیں،
حکومت کے فنڈ سے چلنے والے بعض مدارس، ٹیپو سلطان، مندر، مسجد، اذان،
لاؤڈسپیکر اور طلاق جیسے غیر ضروری مسائل اٹھاکر ہندوستانی تہذیب وتمدن کے
خلاف ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلاکر حکمراں پارٹی صرف ہندؤوں
کا ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ گجرات اسمبلی کے الیکشن کے نتائج سے گھبرائی بی
جے پی نے ۲۰۱۹ کے پارلیمنٹ کے الیکشن میں جیت کو یقینی بنانے کے لیے ملک کی
امن وسلامتی کی فضا میں گھناؤنے بادلوں کو منڈلانے کی غرض سے ملک کے بڑے
بڑے مسائل کو پس پشت ڈال کر ضرورت سے زیادہ تیزی دکھاکر ہندوستانی قوانین
کے مطابق ملی مذہبی آزادی پر قدغن لگاکر ایک مجلس میں تین طلاق دینے والے
شخص کو شہر میں دنگا وفساد برپا کرنے والے شخص سے بھی زیادہ سخت سزا دلانے
کے لیے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کرڈالا، جو فی الحال راجیہ سبھا میں معلق
ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ بل مسلم معاشرہ کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت
ہوگا کیونکہ یہ بل جس نام اور جن مقاصد کے تحت لایا جارہا ہے، نافذ ہونے کے
بعد تین طلاق تک محدود نہیں رہے گا بلکہ خواتین کے حقوق کے نام سے ایک سے
زیادہ نکاح اور بچوں کی تعداد کو محدود کرنے جیسے سینکڑوں مسائل ا س کی زد
میں آئیں گے۔
میڈیا اور کچھ مسلم اسکالرز کے ذریعہ ٹی وی چینلوں پر عوام کے سامنے تین
طلاق کا مسئلہ کچھ اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کے مطابق ایک وقت
میں دی گئیں تین طلاقیں ایک واقع ہوتی ہیں، البتہ دوسرے خلیفہ حضرت عمر
فاروق رضی اﷲ عنہ کے عہد خلافت میں بعض سیاسی مقاصد کے پیش نظر ایک وقت کی
تین طلاقوں کو تین ہی تسلیم کیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن کریم میں یہ
حکم وضاحت کے ساتھ مذکور ہے کہ ایک وقت میں تین طلاقیں دینے پر ایک ہی واقع
ہوتی ہیں تو حضرت عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ جیسے عظیم شخص کو یہ کیسے ہمت
ہوئی کہ انہوں نے قاضیوں سے قرآن کریم کے واضح حکم کے خلاف فیصلہ صادر
کروایا۔ نیز دوسرا سوال یہ ہے کہ صحابۂ کرام کی جماعت میں سے آپﷺکے دونوں
داماد حضرت عثمان غنی اور حضرت علی مرتضی، آپﷺ کے چچا حضرت عباس بن
عبدالمطلب اور اسی طرح حضرت عبداﷲ بن عباس، حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت عبد
اﷲ بن عمر، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہم اجمعین جیسے ہزاروں فقیہ
صحابہ حیات تھے، انہوں نے اس فیصلہ کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھائی؟ یاد
رکھیں کہ دنیا کی کسی بھی مستند کتاب میں اِس فیصلہ کے خلاف کسی ایک صحابی
کا بھی اعتراض یا اختلاف مذکور نہیں ہے۔ اس نقطۂ نظر کو اگر صحیح مان لیا
جائے تو لازم آئے گا کہ حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد خلافت میں حلال کو حرام
اور حرام کو حلال تسلیم کیا گیا، نعوذ باﷲ ، جو کسی حال میں قابل قبول نہیں
ہے۔
ایک ساتھ تین طلاق دینے پر تین یا ایک کے واقع ہونے پر امت مسلمہ میں ابتدا
سے ہی اختلاف چلا آرہا ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں چاروں ائمہ (حضرت امام
ابوحنیفہ، حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل
رحمہم اﷲ) نے فرمایا ہے کہ ایک وقت میں تین طلاق دینے پر تین ہی واقع ہوں
گی۔ امام المحدثین حضرت امام بخاریؒ نے اپنی مشہور ومعروف کتاب (بخاری) میں
کتاب الطلاق کے تحت ایک باب ترتیب دیا ہے جس کا نام رکھا ہے: باب من اجاز
طلاق الثلاث، یعنی تین طلاق کے جواز کی بحث۔ اس باب کے تحت بخاری شریف کی
سب سے مشہور شرح لکھنے والے علامہ ابن حجر العسقلانی ؒنے تحریر کیا ہے کہ
شیعہ اور بعض اہل ظواہر کے علاوہ علماء امت کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ
ایک وقت کی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں۔ مسلم شریف کی سب سے مشہور شرح
لکھنے والے علامہ نوویؒ نے مسلم ۔ کتاب الطلاق ۔ باب طلاق الثلاث کے تحت
لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بیوی کو کہے کہ میں نے تجھے تین طلاق دی تو
اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک، حضرت
امام ابوحنیفہ، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اﷲ اور اخلاف واسلاف کے جمہور
علماء نے فرمایا ہے کہ تین طلاقیں واقع ہوں گی، البتہ صرف بعض اہل ظواہر کی
رائے ہے کہ ایک واقع ہو گی۔ سعودی عرب کے علماء بورڈ کی اکثریت نے ۱۳۹۳ھ
میں اپنے اجلاس میں موضوع کے تمام گوشوں پر بحث ومباحثہ کر کے فیصلہ کیا کہ
ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں۔ یہ بحث ومباحثہ اور
قرارداد ۱۳۹۷ھ میں مجلہ البحوث الاسلامیۃ میں شائع ہوئی ہے۔ اس فیصلہ میں
اس بات کا بھی اقرار کیا گیا ہے کہ جمہور علماء کرام کا مسلک ہے کہ بیک لفظ
تین طلاق دینے سے تین واقع ہوجائیں گی ، یہی صحابۂ کرام وتابعین اور ائمہ
مجتہدین (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل
رحمہم اﷲ) کی رائے ہے۔ علامہ ابن القیمؒ نے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے کہ
چاروں ائمہ کی رائے ہے کہ ایک لفظ سے تین طلاق دینے پر تین ہی واقع ہوں گی۔
نیز انہوں نے یہ بھی اقرار کیا ہے کہ جمہور تابعین اور اکثر صحابہ کی بھی
یہی رائے ہے کہ تین طلاقیں ہی واقع ہوں گی۔ نیز انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ
ایک بار تین طلاق دینے سے ایک طلاق کے واقع ہونے کا قول شیعہ اور بعض اہل
ظواہر نے اختیار کیا ہے۔ (زاد المعاد ص ۱۶۴)
دیگر احکام کی طرح قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ یہ مذکور نہیں ہے کہ طلاق
کس وقت دی جائے؟ (پاکی کی حالت میں یا ناپاکی کی حالت میں) کیسے دی جائے؟
کن الفاظ سے دی جائے؟ اور کن کن حالات میں دی جائے؟ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور
حج کی طرح طلاق کے احکام ومسائل حضور اکرم ﷺ نے کھول کھو ل کر بیان فرمائے
ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ احادیث نبویہ
کے بغیر قرآن فہمی ممکن نہیں ہے۔ دونوں موقف رکھنے والوں نے قرآن کریم سے
اپنی رائے کو مدلل ضرور کیا ہے لیکن پورے قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ یہ
کہیں مذکور نہیں ہے کہ ایک ساتھ طلاق دینے پر کتنی طلاق واقع ہوں گی۔
احادیث نبویہ اور صحابۂ کرام کے عمل سے ہی قرآن کریم کو سمجھنا ہوگا۔ عمومی
طور پر احادیث میں جمہور علماء کی تائید ہوتی ہے۔ دوسری رائے اختیار کرنے
والوں نے حضرت عبدا ﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کی ایک حدیث کو دلیل کے طور پر
پیش کیا ہے لیکن جمہور علماء نے سند اور الفاظ کے اختلاف کی وجہ سے اس کو
قابل عمل تسلیم نہیں کیا ہے۔ پوری امت مسلمہ کا اس بات پر ضرور اتفاق ہے کہ
حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں قاضیوں نے ایک وقت میں تین طلاقیں دینے
پر تین ہی طلاقوں کے واقع ہونے کے فیصلے صادر فرمائے ۔
آئیے اب قرآن کریم میں طلاق سے متعلق آیات پر اختصار کے ساتھ غور وخوض
کریں۔ پورے قرآن کریم میں تین مقامات پر طلاق کے احکام ومسائل بیان کیے گئے
ہیں۔ سورۃ البقرہ میں ۲۲۶ آیت سے ۲۴۲آیت تک۔ سورۃ الطلاق کی ابتدائی سات
آیات اور سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۴۹۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۴۹میں صرف
یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر عورت کو نکاح کے بعد لیکن صحبت سے قبل طلاق دے
دی جائے تو اُس عورت کے لیے عدت نہیں ہے۔ سورۃ الطلاق کی ابتدائی سات آیات
میں سے تیسری آیت سے ساتویں آیت تک جو احکام ذکر کیے گئے ہیں اُن میں عمومی
طور پر امت مسلمہ کے درمیان کوئی قابل ذکر اختلاف نہیں ہے۔ سورۃ الطلاق کی
پہلی دو آیات میں صرف دو جگہ پر قرآن فہمی میں اختلاف ہواہے:
فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِمْ اور وَمَن ےَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ
فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہ جمہور علماء بشمول چاروں ائمہ نے انہیں دونوں آیات
کی روشنی میں کہا کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں سے تین ہی واقع ہوں گی جبکہ
شیعہ، اہل ظواہر اور اہل حدیث نے اسی آیت سے اپنے قول کو مدلل کیا ہے۔ لیکن
صحیح بات یہ ہے کہ کوئی بھی شخص احادیث نبویہ کی روشنی کے بغیر قیامت تک
اِن ایات کا صحیح مفہوم نہیں سمجھ سکتا ہے۔ سورۃ البقرہ (آیت ۲۲۶ سے آیت
۲۴۲) میں بیان کردہ طلاق کے احکام ومسائل کو سمجھنے میں ۲۲۹ اور ۲۳۰ دو
آیات کے علاوہ قابل ذکر اختلاف نہیں ہے۔ اِن دو آیات میں اصل میں
الطَّلَاقُ مَرَّتَان کے دو الفاظ کو سمجھنے میں اختلاف ہوا ہے۔ قرآن کریم
میں طلاق سے متعلق تینوں آیات کو سمجھنے کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم
میں کسی ایک جگہ بھی یہ مذکور نہیں ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینے پر ایک
طلاق واقع ہو گی جیساکہ میڈیا اور کچھ مسلم اسکالرز کے ذریعہ عوام کے سامنے
ٹی وی چینلوں پر بحث ومباحثہ کے دوران غلط بیانی سے کام لیا گیا۔ مجھ جیسا
قرآن کریم کا ادنی سا طالب علم بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ احادیث
نبویہ کی روشنی کے بغیر اِن آیات کا سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ ان آیات
میں کہیں یہ مذکور نہیں ہے کہ طلاق کب دی جائے؟ (ناپاکی کی حالت میں یا
پاکی کی حالت میں)، دو طلاق کے درمیان کتنا فاصلہ رکھا جائے؟ (ایک ماہ کا
یا ایک سال کا) یا کسی طرح دی جائے؟ کیا الفاظ استعمال کیے جائیں اور کن کن
حالات میں دی جائے؟ قرآن کریم میں تین مقامات پر طلاق کے احکام ومسائل سے
کسی حد تک واقفیت کے بعد قرآن کریم کے پہلے مفسر حضوراکرم ﷺ کے اقوال
وافعال کی روشنی میں اس مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اختصار کے پیش نظر
یہاں صرف تین احادیث پیشِ خدمت ہیں۔
پہلی حدیث: بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص
نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔حضور اکرم ﷺ سے پوچھا گیا اب پہلے کے
لیے حلال ہوگی یا نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، یہاں تک کہ دوسرا شوہر پہلے
شوہر کی طرح لطف اندوز صحبت نہ کرلے۔ ممکن ہے کہ کوئی شخص کہے کہ یہ تینوں
طلاقیں تین پاکی کے وقت میں الگ الگ دی گئی ہوں گی۔ بخاری شریف کی سب سے
مشہور شرح لکھنے والے علامہ ابن حجر العسقلانیؒ نے اپنی کتاب (فتح الباری)
میں اس کا جواب لکھا ہے کہ یہ تینوں طلاقوں کے بیک وقت واقع ہونے میں ظاہر
ہے لہٰذا ظاہر کو چھوڑ کر بلاوجہ اور بلا قرینہ غیر ظاہر کو استعمال نہیں
کیا جاسکتا۔ نیز امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو جس باب کے تحت ذکر کیا ہے اُس
میں اُس موقف کو ذکر کیا گیا ہے جو ایک لفظ سے تین طلاق دینے پر تین واقع
ہونے کے قائل ہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ امام بخاریؒ نے بھی یہی سمجھا ہے کہ
اس واقعہ میں ایک ساتھ تین طلاقیں مراد ہیں۔
دوسری حدیث: حدیث کی مشہور کتابوں میں سے مصنف ابن ابی شیبہ، بیہقی اور دار
قطنی میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے طلاق کا واقعہ مذکور ہے: انہوں
نے حضور اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ اگر میں نے تین طلاقیں دی ہوتیں تو میرے لیے
رجعت کرنا حلال ہوتا یا نہیں؟ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ وہ تم سے بائنہ
ہوجاتیں اور ایسا کرنا گناہ ہوتا۔ نبی اکرم ﷺ کے فرمان کا دوسراحصہ (اور
ایسا کرنا گناہ ہوتا) اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اس جگہ ایک مجلس کی تین
طلاقوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
تیسری حدیث: حدیث کی مشہور کتاب دار قطنی میں ہے کہ حضرت حسن بن علی رضی اﷲ
عنہما نے اپنی بیوی حضرت عائشہ خشعمیہ کواس لفظ سے طلاق دی: اذہبی فانت
طالق ثلاثا) یعنی تو چلی جا، تجھے تین طلاق ہے۔ عائشہ چلی گئیں۔ بعد میں
حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کو معلوم ہوا کہ عائشہ کو جدائی کا بڑا رنج ہے تو
رودئے اور فرمایا: اگر میں نے اپنے نانا حضور اکرم ﷺ سے نہ سنا ہوتا کہ جو
شخص اپنی بیوی کو تین مبہم (یعنی ایک لفظ سے) طلاق دے دے یا تین طہروں میں
تین طلاقیں دے تو جب تک وہ عورت دوسرے سے نکاح نہ کرے پہلے کے لیے حلال
نہیں ہوسکتی، تو میں عائشہ سے رجعت کرلیتا۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ایک بار تین طلاق دینے پر تین یا ایک طلاق کے واقع
ہونے پر عرصۂ دراز سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ جمہورعلماء ومحدثین ومفسرین
بشمول چاروں ائمہ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں تین طلاق کے واقع ہونے کا
موقف اختیار کیا ہے، نیز اس بات پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ حضرت عمر
فاروقؓ کے عہد خلافت میں تین ہی طلاق واقع ہونے کے فیصلے کیے گئے ۔ شیعہ،
اہل ظواہر اور عصر حاضر میں اہل حدیث حضرات نے ایک طلاق کے واقع ہونے کا
موقف اختیار کیا ہے۔ ہندوستان کے بھی ۹۰فیصد سے زیادہ مسلمان سینکڑوں سالوں
سے قرآن وحدیث کی روشنی میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی تسلیم کرتے
چلے آرہے ہیں، اگرچہ دوسرے مکتب فکر کو اپنی رائے پر عمل کرنے کی مکمل
اجازت ہے۔ لیکن ایک وقت میں تین طلاقیں دینے پر اب ہندوستانی حکومت نے قرآن
وحدیث کے ماہرین سے رجوع کے بغیر ہندوستانی قوانین کے خلاف جو سزا متعین کی
ہے یہ مذہبی امور میں دخل اندازی کے ساتھ مسلم معاشرہ کو تباہ کرنے کا قدم
بھی ہے۔ لہٰذا ہم سب کو ایک پلیٹ فارم پر آکر نہ صرف اس مذموم بل کی مخالفت
کرنی چاہئے بلکہ اپنے عملی اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہئے تاکہ موجودہ حکومت
آئندہ اس نوعیت کا قدم آسانی سے نہ اٹھا سکے۔ نیز طلاق دینے میں جذبات سے
کام نہ لے کر پہلے ہم میاں بیوی کے درمیان اختلافات کو آپس میں صلح کرکے
ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر طلاق دینے کی نوبت آئے تو ایک بار میں تین
طلاقیں ہر گز نہ دیں تاکہ پیچیدہ مسائل درپیش نہ آئیں کیونکہ ایک یا دو
طلاق دینے سے بھی میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوسکتی ہے، نیز اس میں عدت کے
دوران رجعت اور عدت کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
|