صفائی ستھرائی اور انسانی صحت کا چولی دامن
کا ساتھ ہے مگر جب ہم اسے نظر انداز کر دیں تو گھر ہو یا محلہ، بیماریو ں
کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ ایسے میں اگر ہم ہسپتالوں اور طبی مراکز کی بات
کریں جہاں بیمار شفا کے حصول کیلئے رخ کرتے ہیں اگر وہاں ہی صفائی ستھرائی
کے مروجہ اصولوں کو پس پشت ڈال دیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ ہر طرف خطرناک
بیماریاں کا ہی راج ہو گاکیونکہ ہسپتالوں کا ویسٹ ایک انتہائی سنجیدہ
معاملہ ہے۔افسوس سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتال لوگوں کو شفا دینے کی بجائے
جانے انجانے میں موت بانٹنے کا سبب بن رہے ہیں جہاں علاج معالجے میں
استعمال ہونے والی فالتو اشیا تلف کرنے کیلئے کوئی باقاعدہ پلانٹ یا طریقہ
کار موجود نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ اس کو باقاعدہ اور منظم انداز میں تلف
کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جہاں عام کوڑے کر کٹ
کے اتلاف کا باقاعدہ اور مؤثر نظام نہ ہونے کے برابر ہے وہاں ہسپتالوں سے
حاصل ہونے والے خطرناک ترین کوڑا کر کٹ کو تلف کرنے کے حوالے سے سنجیدگی
دکھائی نہیں دیتی یا پھر تکنیکی مہارت کی کمی ہے۔ ہسپتالوں میں استعمال شدہ
ڈرپس، انجکشن اور دیگر سامان کو’’ ہاسپٹل ویسٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے جسے
محکمہ صحت اور محکمہ تحفظ ماحولیات کی جانب سے مخصوص انداز میں تلف کرنے کی
تلقین کی گئی ہے کیونکہ اس سے دیگر تندرست افراد کو بھی مختلف بیماریاں
لگنے کا خدشہ رہتا ہے۔عالمی ادارہ برائے صحت(WHO) نے ہاسپٹل ویسٹ کومختلف
اقسام میں تقسیم کیا ہے۔مثلاً
1:خون یا پیپ آلودہ روئیاں اور پٹیاں، 2:آپریشن کے دوران مریض کے جسم سے
نکلنے والی مختلف اشیا، 3:آپریشن کے دوران استعمال ہونے والے
ماسک،ایپرن،ٹوپی اور دستانے، 4:استعمال شدہ خون کی خالی تھیلیاں، 5:کیمو
تھراپی کے دوران نکلنے والا آلودہ فضلہ، 6:ناکارہ انسانی اعضاء،7:یتھالوجی
اور لیبارٹری کا کوڑا، 8:ڈرپ کی خالی بوتلیں۔
اس کے علاوہ تیز دھاراشیاپر مشتمل کوڑا بھی ہاسپٹل ویسٹ میں شامل ہے، اس
قسم کے کوڑے میں وہ اشیاشامل ہوتی ہیں جو تیز دھار رکھتی ہیں اور وہ ہاتھ
لگنے سے یا اٹھانے سے ہاتھ پہ خراش یا زخم پیدا کر سکتی ہیں
مثلاً1:سرنجیں،2:سوئیاں ،3:ٹوٹے ہوئے شیشے،4 :بٹر فلائی نیڈلز، 5:شیشے کی
نلیاں اور دوسری نوکدار اشیاء، 6:کیتھٹرز ،7: مائیکرو پیپٹیس،8:استرے،
9:شیشے کی پلیٹیں ،10:انجیکشن کی خالی شیشیاں وغیرہ
ہسپتال کے کچرے کی اقسام جاننے کے بعد آپ کیلئے یہ سمجھنا نہایت آسان ہو
گیا ہے کہ اس قسم کے کچرے کو الگ الگ کرنا اور اس کو تلف کرنا انتہائی ذمہ
داری کا کام ہے۔دنیا کے تمام ممالک اس مسائل سے دوچار ہیں مگر پاکستان میں
یہ مسئلہ زیادہ گھمبیر صورتحال اختیار کر چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک
میں روز بروز بڑھتی ہوئی بیماریاں جن میں ہیپاٹائٹس،ٹی بی، ٹائیفائیڈ،
ایڈز، تشنج، زخموں کا خراب ہونا ،عام ہوتی جارہی ہیں۔یہ سچ ہے کہ ہسپتال کی
ویسٹ کومناسب اور منظم انداز میں تلف کرنے سے ان بیماریوں کے پھیلاؤ میں
بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہسپتال
کا10 فیصد کچرا خطرناک تصور کیا جاتا ہے ، باقی90 فیصد کچرا خطرناک نہیں
ہوتا بلکہ10 فیصد کچرا اگراحتیاط سے علیحدہ نہ کیا جائے تو پھر 100فیصد
ویسٹ خطرناک ہو جاتا ہے۔اس لئے 2005میں حکومت پنجاب کی جانب سے سرکاری و
غیر سرکاری ہسپتالوں، لیبارٹریوں اور ڈسپنسریوں کے ویسٹ کو ٹھکانے لگانے
کیلئے ہسپتال ویسٹ مینجمنٹ رولز بنائے گئے تھے۔ہسپتال ویسٹ مینجمنٹ رولز
اور تحفظ ماحولیات ایکٹ 1997 ترمیم شدہ 2012ء کے تحت محکمہ ماحولیات کے
عملہ کو خصوصی اختیارات دیئے گئے تھے اس کے بعدای پی اے پنجاب نے ہاسپٹل
ویسٹ مینجمنٹ رولز 2014 رائج کروا دئیے تاکہ مضر صحت ویسٹ مناسب جگہ پر ڈمپ
یا ٹریٹ کیا جائے۔ہسپتال ویسٹ مینجمنٹ رولز 2014کے مطابق ہسپتال میں
استعمال ہونے والی اشیاء کو سائنسی بنیادوں پر تلف کرنا ضروری ہے اور
ہسپتال کے ہر سیکشن میں انجکشن کٹر کا ہونا بھی لازم ہے لیکن لیبارٹریز اور
پرائیویٹ ہسپتالوں میں ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔پرائیویٹ ہسپتالوں کا آلودہ
ویسٹ تلف کرنے کی بجائے نہروں میں بہایا جا رہا ہے جس سے آلودگی کے ساتھ
ساتھ مضر صحت نقصانات بڑھ رہے ہیں۔ہسپتال ویسٹ مینجمنٹ رولز کے مطابق
میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ہسپتال ویسٹ مینجمنٹ کے حوالے سے11ممبران پر ایک ٹیم
تشکیل دے گا جس کا چئیرمین وہ خود ہو گا اور یہ کمیٹی کوڑے کو مناسب طریقے
سے تلف کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے گی۔اس کے علاوہ ہاسپٹل ویسٹ مینجمنٹ پلان
اور عملہ کی تحریری ڈیوٹیاں لگائے گی اور اس کی انسنریشن کے لیے سرکاری یا
غیر سرکاری انسنریٹر کمپنی کے ساتھ ویسٹ کو تلف کرنے کے لیے تحریری معاہدہ
کرے گی۔مزید برآں علاج معالجے کے دوران نکالے جانے والے آلودہ مواد کے لیے
پیلے رنگ کی بالٹی/پیلاپلاسٹک بیگ جبکہ عام مواد کے لیے سفید رنگ کی بالٹی
/سفیدپلاسٹک بیگ مختص کیا جاتا ہے اور پلاسٹک بیگ کو باقاعدہ سیل کرنے کے
بعد اس کے اوپر ہسپتال کانام ،تاریخ اور وزن لکھا جاتا ہے اور اسے روزانہ
کی بنیاد پر تلف کرنے کے اقدامات کرنا ہوتے ہیں۔ان مخصوص کردہ ٹوکریوں میں
سرنجیں، تیز دھار آلہ جات، خالی ڈرِپیں اور ضائع شدہ ادویات ڈالی جاتی ہیں
لیکن سرکاری وغیر سرکاری ہسپتالوں کا عملہ بالخصوص ویسٹ ورکرز اس کوڑے کو
تلف کرنے کی بجائے چوری چھپے کباڑیوں کوچند روپوں کی خاطر فروخت کر رہے
ہیں۔ہمارے ہاں ایک عام طرزعمل یہ بھی ہے کہ استعمال شدہ سرنجوں کودوبارہ
استعمال میں لایاجاتا ہے۔لوگ ہسپتالوں کے کوڑے سے سرنجیں اٹھاتے اور انہیں
بیچتے ہیں۔بہت سے منشیات کے عادی افراد ان استعمال شدہ سرنجوں کو دوبارہ
استعمال کرتے ہیں جو ایڈز اور دوسری مہلک ترین بیماریوں کا باعث ہو سکتا
ہے۔اگر سرنج کسی ایڈز زدہ فرد نے استعمال کی ہوئی ہے تو یقینااس کے دوبارہ
استعمال سے ایڈز کی بیماری ہو سکتی ہے۔جب ہسپتالوں کے کوڑے میں پلاسٹک کو
جلایا جاتا ہے تو اس سے ڈائیوکسن گیس خارج ہوتی ہے جس سے کینسر،پیدائشی
معذوری،اعصابی کمزوری،قوت سماعت پہ اثر،حافظے کی کمزوری جیسے مسائل پیدا
اور دودھ پینے والے بچوں کے افعال متاثر ہو سکتے ہیں۔مکھیاں جب ہسپتال کے
آلودہ کوڑے کے ڈھیر پہ بیٹھتی ہیں تو اس سے بڑی آسانی سے ہلاکت خیزبیماریاں
منتقل ہوتی ہیں۔مثلاً ہیضہ ،اسہال، ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائیٹس اور یرقان
وغیرہ۔جب نمی ہوتی ہے تو مچھر پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ بھی مختلف قسم کی
بیماریوں کو منتقل کرتے ہیں مثلاً ملیریا اور زرد بخار اور اسی طرح کتے
،بلیاں اور چوہے جب اس آلودہ کوڑے سے متاثر ہوتے ہیں تو ان سے بھی بہت سے
بیماریاں منتقل ہوتی ہیں۔مثلاً طاعون اور پسوں سے پھیلنے والا بخار۔اسی طرح
وہ ورکرز جو آلودہ کوڑے کے جمع کرنے کیلئے کام کرتے ہیں ان میں آنتوں اور
جلدی بیماریاں بڑے پیمانے پہ دیکھی گئی ہیں۔ اس حوالے سے ضروری ہے کہ
ہسپتال کے کوڑے کو کم کرنے کیلئے ضروری اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ ہاسپٹل
ویسٹ چونکہ عمدہ قسم کی پلاسٹک پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے اسے ری سائیکلنگ کے
بعد بچوں کے فیڈر، بوتل پینے والے سٹرا سمیت دیگر گھریلو استعمال کی اشیا
کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق ایک بڑے شہر میں
روزانہ کی بنیاد پر مجموعی طور پر ڈیڑھ ٹن ہاسپٹل ویسٹ پیدا ہوتا ہے۔
ہسپتال ویسٹ مینجمنٹ رولز2014کے تحت ہسپتال کا فضلہ مناسب طریقے سے ٹھکانے
لگاناہسپتال انتظامیہ کی ذمہ داری ہے تمام سرکاری و پرائیویٹ ہسپتال
انتظامیہ / انچارج کو حکومت کی طرف سے وقتا فوقتا تنبیہ کی جاتی ہے کہ
ہسپتال کے فضلہ کو مناسب طر یقے سے ٹھکانے لگائیں او رہسپتال ویسٹ مینجمنٹ
رولز 2014 پر مکمل عملدرآمد کریں مگر ان کے خلاف ہی کام ہو رہا ہے۔حال ہی
میں ایک قومی اخبار نے ایک خبر شائع کی اور اس میں انکشاف کیا گیا کہ
صوبائی دارالحکومت سمیت پنجاب بھر میں روزانہ کئی ٹن ہسپتالوں کی ویسٹ کو
رولز کے مطابق تلف کرنے کی بجائے مافیا کو فروخت کر کے انسانی جانوں سے
کھیلنے کا کاروبار کیا جا رہا ہے۔
اس مبینہ کاروبار میں ہسپتالوں کا عملہ، سرکاری عملہ، بڑے کاروباری گروپ
ملوث ہیں۔ لاہور میں منشی ہسپتال کے سامنے اور مصری شاہ میں پنجاب کے مختلف
علاقوں سے مال آ تا ہے جبکہ شادباغ، گندی ببیاں، گلشن راوی، ساندہ، بند روڈ
سمیت دیگر مختلف علاقوں میں گلی محلوں میں بنی ہوئی فیکٹریوں میں یہ رسک
ویسٹ جاتا ہے جہاں اس ویسٹ کو کرش کر کے اس کا پلاسٹک دانہ بنایا جاتا ہے
اور یہ پلاسٹک دانہ مختلف پلاسٹک بنانے والی فیکٹریوں کو فراہم کر دیا جاتا
ہے جہاں پر منرل واٹر، مختلف مشروبات کی بوتلیں، ادویات کی بوتلیں، گھروں
میں استعمال ہونے والے برتن، دودھ کے فیڈرز و نپل سمیت متعدد اشیا تیار کی
جاتی ہیں۔جیسے ہی یہ خبر شائع ہوئی تو وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس کا نو ٹس لیا
اور ہدایت جاری کی۔ جس پر محکمہ ماحولیات نے ہسپتال ویسٹ مینجمنٹ رولز 2014
کے مطابق کام نہ کرنے والے ہسپتالوں اور ان کے عملے کے خلاف کارروائیاں
کیں۔محکمے کی ٹیموں نے سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں چھاپے مارے جہاں سے
سرنجیں ،گلوکوزکی خالی ڈرپیں ،بلڈ بینک اور دیگر اشیاء تلف کرنے کی بجائے
ویسے ہی بیگوں اور باسکٹ میں پھینکی ہوئی اشیا قبضے میں لے لیں جبکہ ہسپتال
کے مختلف شعبوں میں بلیوں اور کتوں کی بھرمار بھی تھی اور صفائی کی ناگفتہ
بہ صورتحال پائی گئی۔ٹیم نے محکمہ صحت کے حکام کو رپورٹ بھجوا دی ہے۔ چھاپہ
مار ٹیم کے افسر نے بتایا کہ ہسپتال کی نرسیں جان بوجھ کر ویسٹ ضائع نہیں
کرتیں اور ورکران کی غفلت اور لاپرواہی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بغیر کرش کے
سرنجیں ،خون کے بیگ،ڈرپس،ماسک اور ڈائیلسز میں استعمال شدہ چیزیں فروخت کر
دیتے ہیں جس کے باعث کئی افراد ہپاٹائٹس کا شکار ہو رہے ہیں۔ محکمہ تحفظ
ماحول کی جانب سے مضر صحت ہاسپٹل ویسٹ کے تدارک کیلئے کئے جانے والے کریک
ڈاؤن کے دوران 221ہسپتالوں کے غیر قانونی فضلات کے جنک یارڈ زسمیت یونٹس کو
چیک کیا گیا جن میں سے 34ایسے کارخانے خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے گئے۔محکمہ
نے 34کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے استغاثے دائر کیے اور 19یونٹس کو سیل اور
57400 کلوگرام ویسٹ کو تحویل میں لیکر تلف کرتے ہوئے مقدمات ماحولیاتی
عدالت کو ارسال کر دئیے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے ہاسپٹل انتظامیہ اس بارے
میں سختی سے کام لے اور ڈاکٹرز،نرسوں اور دیگر عملے کو پابند کرے کہ وہ ای
پی اے پنجاب ویسٹ مینجمنٹ رولز 2014پر عملدرآمد کرتے ہوئے ویسٹ کو سائنسی
انداز سے ڈمپ کریں اور ان لوگوں پر کڑی نظر رکھیں جو اس گھناؤنے کاروبار کا
حصہ ہیں اور جومعصوم شہریوں کی زندگی سے کھیل رہے ہیں ۔آخر میں ہم اس نتیجے
پر پہنچتے ہیں کہ صرف ہاسپٹل ویسٹ جہاں ہسپتالوں میں گندگی ،جراثیم اور
بیماریاں پھیلانے کا باعث بنتے ہیں وہیں اس ویسٹ کو غیر قانونی طریقے سے
کباڑ خانوں تک پہنچانے سے بھی بیماریاں اور جراثیم پھیلتے ہیں اور پھر جب
اس پلاسٹک کو کرش کر کے دانہ بنایا جاتا ہے اور اس سے پلاسٹک کے فیڈر
،گھریلو اشیا اور دیگر ساز وسامان بنایا جاتا ہے تو اس عمل کے بعد بھی
جراثیم اور وائرس ختم نہیں ہوتے بلکہ ان برتنوں میں شامل ہو جاتے ہیں جو
شہری بعد ازاں استعمال کرتے ہیں اور نت نئی اور خطرناک بیماریوں کا شکار ہو
کر ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں ،وہاں بھی ان کو نجات نہیں ملتی یا تو موت کو
گلے لگا کر وہ اس جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں یا مسلسل بیماریوں کا شکار
رہتے ہوئے ہسپتالوں کے ہی ہو کر رہ جاتے ہیں۔آج کے اس مہنگائی کے دور میں
جہاں اشیائے ضروریہ انسانوں کی پہنچ سے دور ہیں وہاں مہنگے مہنگے علاج
کروانا ان کے بس میں کہاں ہوتے ہیں۔محکمہ ماحولیات کی یہ10روزہ مہم قابل
ستائش ہے کیونکہ اس مہم کے دوران لاکھوں افراد قانون کے شکنجے میں آئے
ہونگے ۔ حکومت کو چاہیئے کہ اس کاروبار میں ملوث افراد کے گرد مزید دائرہ
تنگ کیا جائے تاکہ معصوم شہریوں کی جان سے کھیلنا بند ہو۔
مضر صحت ہاسپٹل ویسٹ کے تدارک کیلئے کیے جانے والے کریک ڈاؤن کے حوالے سے
ڈائریکٹر تحفظ ماحول نسیم الرحمان شاہ کا کہنا تھا کہ محکمہ تحفظ ماحول کی
طرف سے پنجاب کے تمام ہسپتالوں میں ہاسپٹل ویسٹ مینجمنٹ اور صفائی ستھرائی
کے نظام کو چیک کرنے کیلئے ایک ہفتے کی خصوصی مہم چلائی گئی اور ہسپتال
انتظامیہ کو خصوصی ہدایات بھی جاری کی گئیں۔ اس سارے ایکشن کے دوران
ڈائریکٹر جنرل تحفظ ماحول آصف اقبال اور اسسٹنٹ کمشنر عبداﷲ خرم نیازی اپنی
ٹیموں اور پولیس کے ساتھ ہاسپٹل ویسٹ رولز پر عملدرآمد پر عمل کو یقینی
بنانے کیلئے فرائض ادا کرتے رہے۔دراصل یہ مہم دو مراحل پر مشتمل تھی ،اس کے
ایک حصے میں ہماری ٹیموں نے تمام سرکاری و نجی ہسپتالوں ،ڈسپنریوں اور
لیبارٹریوں میں صفائی ستھرائی کے نظام کو چیک کیاا ورای پی اے پنجاب ہسپتال
ویسٹ مینجمنٹ رولز 2014 خلاف ورزی کرنے والے ہسپتالوں کیخلاف کارروائی کی۔
محکمہ نے اس سال قانون پر عملدرآمد کراتے ہوئے 3896 انسپکشن کیں اور قانون
کے مطابق کارروائی کی۔اسی طرح اس مہم کے دوسرے مرحلے میں خصوصی ٹیمیں تشکیل
دیں جنہوں نے ایسی فیکٹریوں اور رسک ویسٹ اکٹھا کرنے والوں کیخلاف کارروائی
کی۔ نالی تھیلی کے نام سے ہونیوالے اس مکروہ کاروبار میں ہسپتالوں کی کئی
ٹن رسک ویسٹ کو ری سائیکل کرکے پلاسٹک دانہ بنایا جا تاہے،افسوس ناک پہلو
یہ ہے کہ اس کاروبار میں،ہسپتالوں کا عملہ، سرکاری عملہ، بڑے کاروباری گروپ
ملوث ہیں۔لاہور میں منشی ہسپتال کے سامنے اور مصری شاہ میں پنجاب کے مختلف
علاقوں سے مال آتا ہے جبکہ شاد باغ،گندی بمبیاں،گلشن راوی،ساندہ ،بند روڈ
سمیت دیگر مختلف علاقوں میں گلی محلوں میں بنی ہوئی فیکٹریوں میں یہ رسک
ویسٹ جاتا ہے جہاں پر اس کو کرش کر کے اس کا پلاسٹک دانہ بنایا جاتا ہے اور
یہ پلاسٹک دانہ مختلف پلاسٹک بنانے والی فیکٹریوں کو فراہم کر دیا جاتا ہے
جہاں پر منرل واٹر، مختلف مشروبات کی بوتلیں،ادویات کی بوتلیں، گھروں میں
استعمال ہونے والے برتنوں، دودھ کے فیڈرزاور نپل سمیت متعدد اشیا تیار کی
جاتی ہیں۔اس میٹریل سے تیار کردہ سامان کی فروخت سب سے زیادہ لاہور میں ہو
رہی ہے۔اگررسک ویسٹ کوری سائیکل کر بھی لیا جائے تو اس پر بیکٹیریا،
وائرس،فنگس چپکے رہنے کا خدشہ باقی رہتا ہے۔ اس پلاسٹک کے استعمال سے
ایڈز،ہیپاٹائٹس ودیگربیماریوں کے پھیلنے کاخدشہ ہے۔اب تک ایسی فیکٹریاں
سے60ہزار ٹن رسک ویسٹ برآمدکیا جا چکا ہے۔ چھاپوں کے خوف سے زیادہ تر
مالکان نے اپنے گوداموں کو تالے لگا دیا تھا۔مگرہماری ٹیم گھناؤنا کاروبار
کرنے والوں کا آخری حد تک پیچھا کرے گی۔اس کے علاہ بند روڈ کے شہریوں نے
بھی ہماری اس کارروائی کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
محکمہ تحفظ ماحول کے ڈپٹی ڈائریکٹر انجم ریاض سے بھی خصوصی گفتگو کی۔ ان کا
ہاسپٹل ویسٹ کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن کے حوالے سے کہنا تھا کہ انفیکشی
ایس ویسٹ تلف کرنے کیلئے حکومت نے قانون سازی کی ہے اور ایسا نہ کرنے والوں
کو جرمانہ اور6ماہ تک قید کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ای پی اے پنجاب
ہسپتال ویسٹ مینجمنٹ رولز 2014 کے مطابق تمام سرکاری و غیر سرکاری ہسپتال
حکومتی قوانین کے مطابق میڈیکل ویسٹ تلف کرنے کے پابند ہیں بصور ت دیگر ان
کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ سب سے پہلے میں یہ واضح کرنا
چاہوں گا کہ محکمہ ماحولیات کافی عرصے سے ہاسپٹل ویسٹ کی خلاف ورزی کرنے
والوں پر کام کر رہا ہے اور اس بار ہم نے تقریبا دس دن کی سپیشل مہم چلائی
جس میں دسمبر 2017کے آخری کچھ دن اور جنوری2018کے کچھ دن کام ہماری ٹیموں
نے کام کیا۔ میڈیکل ویسٹ کوہم دو کیٹگریز میں تقسیم کرتے ہیں جس میں سے ایک
انفکیشی ایس ویسٹ اور دوسرا نان انفیکشی ایس ویسٹ ہے ۔ہسپتالوں، دواخانوں،
لیبارٹروں وغیر ہ سے دوران علاج و آپریشن نکلنے والے تمام فضلے کو انفیکشی
ایس ویسٹ کہتے ہیں جس میں مریض کے جسم سے نکلنے والا خون، پیپ، آلائشوں اور
رطوبتوں کے علاوہ دیگر فاضل مواد مرہم پٹی، سرنج، ادویات کی بوتلیں، آلات
جراحی وغیرہ شامل ہیں۔ ایسا تمام فضلہ ضرررساں اور متعدی(بیماریاں پھیلانے
والا) ہوتا ہے۔اسی طرح سرنج، نشتر ، بلیڈوغیرہ جیسے تیز دھار آلات معالجہ
پر مشتمل ہوتا ہے اسے بھی انفیکشی ایس ویسٹ میں شامل کیا جائے گا کیونکہ اس
سے بھی مہلک بیماریاں پھیلنے کا خدشہ لاحق ہوتا ہے اور دوسری قسم نان
انفیکشی ایس ویسٹ ہے اس میں ادویات کی شیشیاں،متروک ادویات، کاغذ، غیر
جراحی آلات وغیر ہ شامل ہوتے ہیں۔ اس قسم کے فضلے کو عام گھریلوفضلے کی طرح
بھی ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔ انفیکشی ایس ویسٹ کو باقاعدہ سائنسی طرز سے
ڈمپ یا ٹریٹ کیا جا نا ضروری ہے تاکہ اس کے نقصان دہ اثرات سے بچا جا
سکے۔ہسپتال کے کوڑے کو تلف کرنے کیلئے انسینریٹر کا استعمال بھی کیا جاتا
ہے۔دراصل یہ ایک پلانٹ کی طرح مشینری ہے اسے کوڑے کو تلف کرنے کیلئے
استعمال میں لایا جاتا ہے۔اس میں آلودہ کوڑے کو سائنسی بنیادوں پہ انتہائی
بلند درجہ حرارت پہ جلایا جاتا ہے۔اس10 روزہ مہم میں ہماری ٹیموں نے اول تو
سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں کا سروے کیا اورخلاف ورزی کرنے والوں کے
قانونی کاروائی کی اور دوسرا ہاسپٹل ویسٹ کو تلف کرنے کی بجائے کارخانوں
اور کباڑ خانوں تک پہنچانے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی۔ اصل میں یہ ایک
مکمل نیٹ ورک ہے جو غیر قانونی کاروبار سے منسلک ہے ہماری ٹیموں نے انسانی
جانوں سے کھیلنے والے مافیا کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا جو مضر صحت ہاسپٹل
ویسٹ کے پلاسٹک یعنی رسک ویسٹ سے منرل واٹر ،مشروبات ، سیرپ کی بوتلیں،بچوں
کے فیڈرزاوردیگرگھریلو استعمال کی اشیا تیار کرتے ہیں ۔جو صحت کیلئے
انتہائی خطر ناک ہے۔یہ ایک پورا نیٹ ورک ہے جو شیرا کوٹ سے لے کر بند روڈ
تک پھیلا ہوا ہے۔اگر لاہور کی بات کی جائے آج لاہور کی صورتحال لاہور سے
باہر کے علاقوں سے بہتر ہے ،زیادہ تر مسائل لاہور سے باہر ہسپتالوں میں
دیکھنے میں آئے۔وہ بھی اگلے کچھ دنوں میں ٹھیک ہو جائیں گے ۔ |