بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ملک بھر سے دو ہزار کے قریب مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے
دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ پیش کر دیا ہے ۔گزشتہ روز ایوان صدر میں
پیغام پاکستان کے نام سے جاری یہ بیانیہ ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی
کے خاتمہ کے لیے جاری کیا گیا ہے۔ اس بیانیہ کی تیاری میں تمام مسالک کے
علماء نے حصہ لیا جو قابل تحسین ہے ۔ پاکستان گزشتہ سترہ سالہ سے ایک مسلط
کردہ جنگ لڑ رہا ہے ۔ افغانستان کی سرزمین پر لڑی جانے والی امریکی جنگ میں
پاکستان کے تعاون نے ایسے عناصر کو پاکستان میں قدم جمانے میں مدد کی جو
اپنے اپنے ممالک میں مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج اور جنگ کو جائز ہی نہیں
بلکہ عین شریعت سمجھتے تھے۔نائن الیون کے بعد امریکہ ایک بدمست ہاتھی کی
طرح دیگر ممالک کے ہمراہ افغانستان پر حملہ ہوا لیکن سترہ سال بعد بھی وہ
اربوں ڈالرز کا اسلحہ پھونک کر کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا ۔ اس جنگ
میں امریکی معیشت ہی تباہ نہیں ہوئی بلکہ دنیامیں یونی پولر طاقت کا خاتمہ
بھی کر دیا ۔ پاکستان نے اس مرحلے پر امریکہ کا ساتھ دیا ۔اس تعاون کا سب
سے ذیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ۔ایک طرف امریکہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان
کی قربانیوں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے بلکہ اپنی شکست کا ملبہ بھی
پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری طرف وہ طبقہ جو اسلام کے نام
پر خود کش حملوں اور دہشت گردی کو فروغ دے رہا تھا اس نے بھی پاکستان کو
ہدف بنا لیا۔ اس جنگ میں وہ عالمی قوتیں جن کی نظروں میں پاکستان کا
استحکام ہمیشہ سے کھٹکتا رہا ہے انہوں نے بھی ان عناصر کے ہاتھ مضبوط کرنے
کے لیے خفیہ ہاتھوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ
پاکستان کے شہر بازار مارکیٹس مساجد سیکورٹی اداروں پر مسلسل حملوں کا شکار
ہونے لگے ۔ اس جلتی پر تیل کا کام لال مسجد آپریشن نے کیا ۔لال مسجدآپریشن
درست تھا یا غلط یہ الگ بحث ہے لیکن آنے والے دنوں میں پیدا ہونے والے
حالات نے ثابت کردیا کہ انتہا پسندی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اس طرح کے
آپریشن ناگزیر ہیں ۔اس موقع پر جب پاکستان بدترین دہشت گردی کی جنگ کا
شکارتھا ایک بڑا دینی طبقہ گومگو کی کیفیت کا شکار تھا۔ دہشت گرد اور انتہا
پسندی کے لیے اسلام ، شریعت کا نام استعمال ہو رہاتھا اور دینی رجحان رکھنے
والے نوجوانوں کوسوشل میڈیا اور نامعلوم مصنف کی ناموں سے شائع ہونے والی
کتب کے ذریعے شکار بنایا جا رہا تھا۔ یہ بھی ایک المیہ تھا کہ ایک مخصوص
مسلک سے تعلق رکھنے والے نوجوان اورمذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے پڑھے
لکھے نوجوان ایسے عناصر کے ٹریپ میں آنے لگے جس کی وجہ سے مذہبی جماعتوں کے
سرکردہ رہنما اور علماء بھی کھلے بندوں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مذمت
کرنے یا اسے حرام کہنے سے کنی کترانے لگے ۔انہی دنوں جب دہشت گردی اور
انتہا پسندی عروج پر تھی ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا اس وقت آیا جب مختلف
مسالک کے علماء کرام جامعہ نعیمیہ میں جمع ہوئے اور خودکش حملوں کے خلاف
پہلی دفعہ تمام مسالک کے علماء کرام نے جمع ہو کرکود کش حملوں کے خلاف
متفقہ فتویٰ جاری کیا ۔ تمام مسالک کو اکٹھے کرنے اور ایک نکتہ پر جمع کرنے
کا تمام تر سہرا جماعۃ الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید اورجامعہ نعیمیہ کے
سربراہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو جاتا ہے جنہوں نے مشترکہ مشاورت سے تمام
مسالک کو اکٹھا کیا اور ایک نکتہ پر اتفاق رائے قائم ہوسکا ۔ جامع نعیمیہ
میں متفقہ فیصلہ ہونے سے پہلے جماعۃ الدعوۃ کے لاہور مرکز جامع القادسیہ
میں مختلف مسالک کے کئی علماء کرام کی مشترکہ مجالس بھی ہوئیں تاہم اعلان
کرنے کے لیے جامع نعیمیہ کا انتخاب کیا گیا ۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق
حافظ محمد سعید اس فتوی کے جاری ہونے سے پہلے ہی ان حملوں کو امت مسلمہ کے
لیے فتنہ قرار دے چکے تھے۔2008میں جاری ہونے والا یہ فتوی متحدہ علماء
کونسل کے پلیٹ فارم سے جاری کیا گیا ۔ اس کونسل میں بریلوی ، اہلحدیث،
دیوبندی اور شیعہ مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء نے شرکت کی ۔تاہم
افسوس حکومت وقت اس فتوی سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کر سکی ۔
یقناً اگر اس موقع پر متحدہ علماء کونسل کے فتوی اور اس کے ساتھ دیگر
مطالبات پر توجہ دی جاتی تو شاید دہشت گردی کے خلاف اسی وقت کافی سارا کام
مکمل کر لیا جاتا ۔ اس موقع پر متحدہ علماء کونسل نے واضح طور پر کہا تھا
کہ پاکستان میں خودکش حملے ناجائز اور حرام ہیں ۔اس موقع پر بھی ڈاکٹر
سرفراز نعیمی نے مطالبہ کیا تھا کہ علماء کے وفد کو قبائلی علاقوں کا دورہ
کروایا جائے تاکہ جو لوگ دین کے نام پر گمراہی کا راستہ اختیار کر چکے ہیں
ان کو راہ راست پر لایا جا ئے اور اس کے ساتھ ہی کہا گیا تھا کہ امریکہ کے
ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو معاہدے کیے گئے ہیں ان کو قوم کے سامنے
لایا جائے۔اس موقع پر حافظ محمد سعید نے جو موقف اپنایا تھا وہ بھی آج درست
ثابت ہو رہا ہے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں بھارت کے
خفیہ ادارے خصوصی طور پر مدد فراہم کر رہے ہیں جس کے لیے حکمرانوں کو ضروری
اقدامات کرنے ہوں گے ۔تاہم اس حوالے سے شاید سنجیدگی نہیں دکھائی گئی تاہم
آج واضح ہو رہا ہے کہ افغان سرحد پر موجود بھارت قونصل خانے فاٹا اور
بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے بھرپور معاونت فراہم کر رہے ہیں ۔سابق افغان
صدر حامد کرزئی کا داعش کے حوالے سے بیان کہ امریکہ اس کی پشت پناہی کر رہا
ہے بھی خاصی توجہ کا حامل ہے ۔ افغانستان میں بھی طالبان کی جدوجہد کے خلاف
داعش سے تعلق رکھنے والے گروہ سرگرم عمل ہیں جن کو امریکی تعاون حاصل ہے ۔
ان سارے معاملات کے باعث پاکستان کے سیکورٹی اداروں اور حکومت کے لیے ضروری
تھا کہ وہ علماء کرام سے بیٹھ کر ساری تفصیلات طے کرتے ۔ جو افراد دین کے
نام پر دہشت گردی کے لیے نوجوانوں کو تیار کرتے تھے ان کے خلاف لائحہ عمل
ٹی وی پر بیٹھ کر مذہب کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والے عناصر نہیں بنا سکتے
تھے بلکہ اس کے لیے علماء کرام کو ہی ایک بیانیہ اور نظریہ تشکیل دینا تھا
کہ اسلام ان حالات میں کسی بھی قسم کے خروج یا دہشت گردی کو جائز قرار نہیں
دیتا۔ یہاں یہی بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ انتہا پسندی کا شکار محض دینی
مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء نہیں تھے بلکہ ان کی بڑی تعداد کا
تعلق پاکستان کے ان تعلیمی اداروں سے تھا جہاں اعلیٰ تعلیم دی جارہی ہے ۔
ان حالات میں ٹی وی تبصرے نہ صرف جلتی کا کام کررہے تھے بلکہ وہ مزید راہ
ہموار کررہے تھے۔ اگر اس موقع پر حکومت دین کو فساد کی جڑ قرار دینے والے
عناصر کو روک لیتی تو شاید علماء کرام بھی کسی نکتے پر جمع ہو جاتے۔
پیغام پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہایت اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا
ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اس میں رہنے والے
تمام مسلمانوں اور غیر مسلموں کی جان مال کا تحفظ اس ریاست کی ذمہ داری ہے
۔ شریعت کے نفاذ کے لیے جدو جہد کرنا ضروری ہے تاہم اس مقصد کے لیے ہتھیا ر
اٹھانا فساد فی الارض ہے جس کی احادیث میں سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔اس میں
یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان اورفوج کا شرعی حدود میں رہتے ہوئے
ایسے باغیوں کے خلاف لڑنا جائز ہی نہیں بلکہ قرآن کے حکم کے تحت واجب ہے ۔اس
حوالے سے ریاستی اداروں کی مدد کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔اس میں یہ
بھی کہا گیا ہے کہ جہاد کی اجازت صرف حکومت وقت ہی دے سکتی ہے جو ناگزیر
صورت میں ہی دیا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اس بیانیے کی
تشکیل کا سہرا تمام مسالک کے علماء کرام کو جاتا ہے ۔تاہم اس کے بعد کچھ
ذمہ داریاں ریاست پر بھی عاید ہوتی ہیں ۔ ریاست کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ
دہشت گردی کی اس جنگ میں سیاسی اختلافات کوبالکل بھلا دیا جانا چاہیے جیسا
کہ پیغام پاکستان کی لانچنگ تقریب میں ہوا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں
حافظ محمد سعید اور ڈاکٹر طاہر القادری جیسے علماء کرام اول روز سے ہی کسی
قسم کی ہچکچاہٹ کے بغیر واضح اور ٹھوس موقف پرقائم ہیں اور نظریاتی بنیادوں
پر نوجوانوں کو گمراہی کے راستے سے روکنے میں جتنا کردار انہوں نے کیا شاید
ہی کسی نے کیا ہو تاہم ایسے موقع پر ان کی غیر حاضری سوالیہ نشان ہیں ۔ اس
موقع پرحکومت وقت کو اپنے سیاسی اختلافات کو کلی طور پر بھلا کر کام کرنا
چاہیے تاکہ اس سے خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جا سکیں ۔ اسی طرح دہشت گردی
میں ایک بڑا کردار عالمی قوتوں اور بالخصوص ہمسایہ ممالک کا بہت بڑا ہاتھ
رہا ہے اس کی مداخلت اور ان کے اثر کو بھی روکنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے
اس کے بغیر نتائج حاصل کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ حکومت اپنی خارجہ پالیسی کی
سمت بھی درست کرے ۔دہشت گردی میں پاکستان کی قربانیاں دنیا میں کسی بھی
دیگر ریاست سے کہیں ذیادہ ہیں اس لیے عالمی قوتوں بالخصوص امریکہ پر یہ
واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ پاکستان کے کردار کو سمجھا جائے ۔اگرچہ بہت حد
تک حکومت اس میں کامیاب نظر آتی ہے لیکن اس تاثر کو کلی طور پر قائم کرنا
ہے کہ ہم کسی کے کہنے پر یہ جنگ نہیں لڑیں گے بلکہ اپنے ملک کی سلامتی اور
دنیا کو پر امن بنانے کے لیے اپنے حصے کا کام کررہے ہیں ۔ ریاست اگر اپنی
ذمہ داریاں احسن انداز میں سرانجام دے تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ تمام
مسالک کے علماء اور حکومت مل کر اس پاک سرزمین سے انتہا پسندی اور دہشت
گردی کو جڑوں سے اکھاڑ کر اسے ایک پرامن اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں
کامیا ب ہو سکتے ہیں۔ |