جہانگیر خان ترین کی خوش دیدنی تھی چھپائے نہیں چھپ
رہی تھی اورجو مسکراہٹ کبھی کبھار ہی ان کے چہرے پر دکھائی دیتی ہے تو اس
وقت ان کے چہرے اور حرکات سے عیاں تھی جب ان کا بیٹا علی خان ترین ان کی
نااہلی کے بعد امیدوار ایم این اے پی ٹی آئی حلقہ 154سے نامزد کیا گیااور
وہ اپنی تقریر کر رہا تھااپنی تقریر میں علی ترین نے پاکستان تحریک انصاف ،عمران
خان اور اپنے والد جہانگیر خان ترین کے ساتھ ساتھ عوام کے اعتماد پر پورا
اترنے کابھرپور یقین دلایاتھااورآج حلقہ 154میں حصہ لینے والے ایم این اے
کے امیدواروں کی حتمی فہرست بھی آویزاں کر دی گئی۔جس میں پاکستان پیپلز
پارٹی کا امیدوارتو سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔حالانکہ امداﷲ خرم عباسی ضلعی
صدرنے اپنے کاغذات جمع کرانے تھے۔لیکن آخری تاریخ کو پارٹی ہدایت کے مطابق
انہیں الیکشن میں حصہ لینے سے منع کر دیا۔اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی تو
ایسے ہی الیکشن سے آوٹ ہو گئی۔اب دو جماعتوں پی ٹی آئی اورن لیگ میں مقابلہ
ہونا باقی ہے۔لیکن صورت حال مایوس کن حد تک حیران کن اوردلچسپ دکھائی دیتی
ہے کہ حکومتی جماعت جو کہ مقبول عوامی جماعت ہونے کی دعویدارہے کو لودھراں
کے حلقے154میں کوئی بھی امیدوارخوشی اور دلچسپی سے الیکشن لڑنے کے موڈ میں
دکھائی نہیں دے رہا۔سابق ایم این اے صدیق خان بلوچ کو مضبوط امیدوارسمجھا
جا رہا تھا۔لیکن انہوں نے الیکشن سے پہلوتہی برتی اوراپنے بیٹے عمیر خان
بلوچ کو مقابلے کے لیے کھڑا کر دیاجو کہ انتہائی کمزور سمجھا جا رہا
تھا۔جبکہ دوسری طرف ن لیگ کی جانب سے وفاقی وزیر مملکت عبدالرحمن کانجو کی
مشاورت سے دنیاپور کے موجودہ ایم پی اے عامر اقبال قریشی کے والد سابق
تحصیل ناظم بزرگ سیاست دان پیر اقبال قریشی کو علی خان ترین کے بالمقابل
کھڑا کیا گیا۔جو کہ تجزیہ کاروں اور سیاسی دانشوروں کی نگاہ میں کمزور
امیدوارکے طور پرجانے جارہے ہیں۔
درج بالاحقائق کو مد نظر رکھتے ہو ئے دیکھا جا ئے تو یو ں محسو س ہو رہا ہے
کہ قبل ازوقت لو دھرا ں کے حلقہ این اے 154 کے لئے جہانگیر تر ین اور علی
تر ین کے مقا بلے میں الیکشن کے لئے ن لیگ کے پاس کو ئی بھی ایسا مضبو ط
امید وار نہ ہے جو کہ ان کو ٹف ٹائم دے سکے ۔ ابھی سے ہی الیکشن کو یک طر
فہ گردانہ جا رہا ہے عوام کے اذہان اور قلو ب میں علی تر ین کی کا میابی
کابگل گو نج رہا ہے ۔ اس حلقے میں صد یق خان بلو چ کو ہی علی تر ین کے مقا
بلے میں مضبو ط امید وار سمجھا جار ہا تھا جو کہ الیکشن میں کسی طور پر
دلچسپی دکھا نے کے خو اہاں نہیں ہیں ۔ کیو نکہ اس الیکشن کے کا سب سے بڑ ا
Drawback اس کی قلیل مدت ہے جو کہ تقر یب دو ماہ پر مشتمل ہے اور اس دو ما
ہ کی سر تا جی کے لئے جہانگیر تر ین کے سوا کو ئی بھی انسویسٹ منٹ کر نے پر
تیا ر نہیں ہے جہا نگیر تر ین کے مقا بلے میں دیگر تما م امید وار ما لی
حیثیت میں کمزور ہیں اور ان کے سپور ٹرز بھی ما لی معا و نت سے بچنے کے لئے
آئیں بائیں شائیں کرتے دکھا ئی دے رہے ہیں اور دوسر ے یہ کہ سا بقہ الیکشن
میں جہا نگیر تر ین کی صدیق بلو چ کے مقا بلے میں واضح بر تر ی بھی ان سب
کو سو چنے پر مجبو ر کر رہی ہے اور اندرونی معلو ما ت کے مطابق اقبا ل شاہ
کو بھی انکے نہ چا ہنے کے باوجود الیکشن کے لئے تیا ر کیا گیا ہے تا کہ
میدان کو خالی نہ چھوڑ ا جا سکے۔ اور حقیقت پسندی کا تقاضا بھی یہی تھا
آئند ہ جنر ل الیکشن 2018 کے لئے یہ الیکشن ایک ریہرسل ہے ۔ جو اس ریہرسل
میں کا میا ب ہو گا جنر ل الیکشن میں اس کی کا میا بی کے امکا نا ت روشن
ہوجا ئیں گے ۔
ہا ر جیت سے قطع نظر لو دھر ں کے حلقہ 154 کا الیکشن بہت سے معاملات کو
منظر عام پر لائے گا ۔اگر ن لیگ یا شہید کا نجو گر وپ الیکشن ہا ر تا ہے تو
پی ٹی آئی کی گر فت ضلع میں مضبو ط ہو گی اور زبان خلق نقا رہ خدا کے متر
ادف 154 کی سیٹ مستقل طور پر جہا نگیر تر ین کے قبضے میں چلی جا ئے گی ۔ ن
لیگ کے امید واروں کی ہا ر علی تر ین کیلئے جنرل الیکشن میں دبنگ انٹر ی کی
راہیں ہموار کر دے گی جو کہ مستقبل قریب میں عبدالر حمن کے لئے انتہا ئی
مشکلات کاسبب بنے گی دوسر ی طر ف اگر علی خان تر ین کو ہر ا دیا جا تا ہے
تو اس کا فائدہ مستقبل قر یب میں عبدالر حمن کا نجو کے شہیدگر وپ فی الوقت
تو ہو گا ہی مگر علی ترین کی فرسٹ فلائٹ بھی پر واز نہ کرسکے گی اور یہ بہت
بڑا لیبل ہوگا جوعلی ترین کی سیاسی زندگی کو ہمیشہ کیلئے داغدار کرنے کیلئے
کافی ہوگا اور جہانگیر خان ترین کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے بیٹے کی فرسٹ
فلائٹ پرواز نہ کرسکے اس کے لئے وہ ہر قسم کے پاپڑ بیلنے کیلئے اپنے آپ کو
ذہنی طور پر تیار کر چکے ہیں ان کی بلاجھجھک الیکشن کمپین اور تیاری اس بات
کا منہ بولتا اور واضح ثبوت ہے کہ وہ یہ الیکشن ہر قیمت پر جیتنا چاہیں گے
جبکہ دوسرے خیمے میں صورت حال یکسر مختلف دکھائی دے رہی ہے وہاں پر جیتنے
کی جستجو کا فی الوقت کوئی نشان نہیں مل رہا سوائے اس کے کہ الیکشن کے گلے
پڑے ڈھول کو بجایا جائے الیکشن والی گہماگہمی ،جوش، جذبہ اور ولولہ کہیں گم
ہوتا معلوم ہورہا ہے جو کہ دیگر بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے
دیکھنا یہ ہے کہ 12 فروری2018 کو ہونے والے الیکشن میں چار لاکھ31 ہزار دو
ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے علی ترین کو اس کی فرسٹ فلائٹ میں
کامیابی سے ہمکنا ر کرتے ہیں یا پھر ن لیگ کا ٹکٹ یافتہ اور شہید کانجو
گروپ کے حمایت یافتہ بزرگ سیاستدان پیر اقبال شاہ علی ترین کے مستقبل کہ
ہمیشہ کیلئے سوالیہ نشان بناتے ہیں بہرحال یہ الیکشن حقیقی معنوں میں
مستقبل کیلئے زندہ رہنے کی سیاسی جنگ ہے جس میں تمام تر حربے آزمائے جائیں
گے
|