ڈنگ ڈانگ ڈنگ ڈانگ، ہے ملنگ دا ہاسا، دنیا اک کھیل تما شایہ سجاد علی کا
ایک گانا ہے جبکہ ولیم شکسپیئر نے کہا تھا کہ دنیا ایک اسٹیج ہے جہاں پر ہر
انسان اپنے حصے کی اداکاری کرتا ہے اور چلا جاتا ہے دیکھنا یہ ہے کہ کس نے
زیادہ اچھی اداکاری کرکے اپنے جوہر دکھائے اور لوگوں کومحظوظ کرکے اپنے
مقاصد حاصل کیے 17جنوری کو مال روڈ لاہور میں بھی ایک اسٹیج لگا جہاں پیپلز
پارٹی ،تحریک انصاف اور کچھ ایسی جماعتیں بھی شامل تھیں جن کے نام سے بھی
لوگ واقف نہیں تھے مگر ڈاکٹر طاہرالقادری اس اسٹیج کے سب سے بڑے پرڈیوسر
تھے جنہوں نے باقی سب اداکاروں کو ایک اسٹیج پر اکٹھا کرلیا ایک طرف حکومت
مخالف شخصیات نے اسٹیج سنبھالا ہوا تھا تو دوسری طرف حکومت میں شامل اداکار
اپنی اداکاری کے جوہر دکھا رہے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مرکز میں پیپلز
پارٹی کی حکومت تھی آصف علی زرداری صدر پاکستان تھے ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب
بلٹ پروف کنٹینر لیکر اسلام آباد پہنچ گئے اور ڈی چوک میں اسٹیج سجالیا تھا
اس وقت اپنے قدردانوں سے خطاب کرتے ہوئے انکے الفاظ یہ تھے کہ خدا کی قسم
اگر یہ موقعہ آپ نے ضائع کردیا تو لٹیرے بدل بدل کر اقتدار میں آئیں گے
پھرآپ کو کوئی طاہرالقادری نصیب نہیں ہوگا اور میں قبر میں جانے کو ترجیح
دونگا ،میں گولیوں سے نہیں ڈرتا اسلام آباد کو کربلا سمجھ کرآیا ہوں اور
تمھارے نظام کو یزید کا نظام سمجھتا ہوں ، تمھارے پاس بربریت ہے میرے پاس
اسلاف اور صداقت ہے، خدا کی قسم انکے تختے خود الٹ جائیں گے اسمبلیاں ٹوٹ
جائیں گی اور یہ بزدل لوگ فرار ہوجائیں گے۔اور اب 17جنوری کی تقریر میں
ڈاکٹر صاحب اسی یزیدی ٹولے کے سرغنہ کو اپنے پہلو میں بٹھا کرفرمایا کہ اگر
میں حکم دوں تو یہ لوگ جاتی عمرہ کے در دیوار ہلا دیں اینٹ سے اینٹ بجا دیں
اور اس طرف کو اگر منہ کرکے تھوک دیں تو نواز شریف کا محل سیلاب میں بہہ
جائے جبکہ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے میں کچھ ہی وقت باقی بچا تو شیخ رشید
نے بھی سجائے گئے اسٹیج پر اپنے استعفے کا اعلان کردیا جس پر ڈاکٹر صاحب نے
فرمایا کہ آج کا میلہ شیخ رشید نے لوٹ لیاجی ہاں بلکل یہی تو میں بھی کہہ
رہا ہوں کہ یہاں ہر کوئی لوٹنے کے لیے بیٹھا ہے جو لوٹ چکے جنہیں آپ یزیدی
حکومت اور کربلا جیسے القابات دے چکے تھے اب انکے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر بڑے
فخر سے سامنے بیٹھے ہوئے تماشائیوں کو دکھا رہے تھے کہ یہ ہے وہ بڑا اداکار
جسکی اداکاری نے مجھے بھی انکا گرویدہ بنا دیا ہے اب انکے بغیر اسٹیج نہیں
سجتا اور پہلے سیشن کی صدارت بھی جناب زرداری صاحب نے فرمائی جسے کبھی
ناقابل بیان القابات سے نوازا گیا تھا جبکہ ہمارے اپنے صوبے کے خادم اعلی
بھی کسی بڑے اداکار سے کم نہیں ہیں انہوں نے فرمایا تھا کہ آصف علی زرداری
کے گلے میں ہاتھ ڈال کر لوٹی ہوئی رقم نکالوں گا اور اسے لاہور کی سڑکوں پر
نہ گھسیٹا تو میرا نام بھی شہباز شریف نہیں اور اب تو زرداری صاحب خود چل
کر لاہور آگئے بلکہ لاہور کے دل مال روڈ پر بلکہ اس سے بھی تھوڑا سا آگے
جہاں پر پورے پنجاب کے اداکار آکر بیٹھتے ہیں جی ہاں بلکل پنجاب اسمبلی کے
سامنے فیصل چوک میں آصف علی زرداری آکر کئی گھنٹے بیٹھے رہے مگر نہ تو خادم
اعلی نے ہمت کی انہیں گھسیٹنے کی اور نہ ہی کسی اور اداکار نے جرات دکھائی
ہاں البتہ چھوٹے اداکار جناب رانا صاحب نے یہ ضرور فرمایا کہ دو شیطان ایک
مولوی کا کندھا استعمال کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں مال روڈ
چونکہ لاہور کا دل ہے اور دل سینے میں ہوتا ہے اگر یوں کہا جائے کہ حکومت
کے دشمنوں نے ان کے سینے پر مونگ دلی ہے تو کوئی برا نہیں ہوگا جلسہ بھی
کیا خوب تھا پچھلے والی کرسیاں خالی پڑی ہوئی تھیں تمام جماعتوں نے ایک
دوسرے پر اسکی ذمہ داری ڈال رکھی تھی اس صورتحال کو دیکھ کر مجھے ایک لطیفہ
یاد آگیا کہ کسی شہر میں بہت سارے گوالے دودھ لیکر آتے تھے مگر سب پانی ملا
دودھ ہی بیچا کرتے تھے ایک دن وہاں کے نیک دل حکمران نے گوالوں کو چیک کرنے
کے لیے اعلان کیا کہ ایک دن تمام گوالے اس کنویں میں دودھ الٹا دیں جسکا
منہ اوپر سے بند ہے اگلے دن ایک ایک گوالا آتا رہا اور اپنا برتن الٹ کر
پیسے لیکر جانے لگا تو بادشاہ سلامت انہیں ایک دوسرے سے بچاکر سبھی کو ایک
جگہ اکٹھا کرلیا جب سب گوالے آگئے تب کنویں کا دھکن اٹھایا گیا تو اندر
پانی ہی پانی تھا جب گوالوں سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس نیت
سے دودھ کی بجائے پانی ڈال دیا کہ دوسرا گوالا دودھ ڈال دے گے مگر سب نے
ایک دوسرے کے آسرے پر پانی جمع کردیا بلکہ اسی طرح مال روڈ والے جلسے کی
بھی یہی صورتحال تھی کہ ہر جماعت کے لیڈروں نے یہ سمجھا کہ دوسری جماعت
بندے اکٹھے کرلے گی مگر بہت زیادہ تعداد میں کرسیاں خالی ہی رہ گئی خیر
جلسہ جاری تھا تو دوسری طرف حکومتی اداکاروں نے بھی الیکٹرانک اور سوشل
میڈیاکا اسٹیج سنبھالا ہوا تھا اور وقفے وقفے سے لفظوں کی گولہ باری جاری
رکھی ہوئی تھی نااہل وزیراعظم کی اہل بیٹی نے ٹویٹر کے اسٹیج سے فرمایا کہ
مہروں کو احکامات بجالانے کیلیئے کیا کیا کرنا پڑتا ہے ۔جسکو گالی دی اسی
کا ہاتھ پکڑنا پڑجاتا ہے ایسی ذلت سے سیاست چھوڑ دینا بہتر ہے ۔عابد شیر
علی نے بھی فقرہ کسا شیخ رشید اگر تم اسمبلی آئے تو قسم خدا کی جوتے
مارونگا۔سعد رفیق نے بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے فرمایا لاہوریوں
کی سیاسی دانش نے قادری ،زرداری اور نیازی سرکس مسترد کردی سوا کروڑ کے شہر
میں چند ہزار کا جلسہ ،خالی کرسیاں سیاسی مداریوں کا منہ چڑا تی رہیں ،جبکہ
خواجہ صاحب ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ عادی جھوٹوں ،مذہبی بہروپیوں اور
پیشہ ور ٹھگوں کا شیطانی اتحاد کھل کر سامنے آگیا۔ اور پھر میرے سامنے ڈنگ
ڈانگ،ڈنگ ڈانگ شروع گیا۔ |