پشتو زبان کے معروف گلوکار کرن خان کا گایا ہوا ایک نظمـ
باچا خانی پکار دہ نے بہت جلد عوام میں شہرت حاصل کی کرن خان نے بذات خود
پشتو ادب کا وہ کلام اٹھایا جو اب تک کسی گلوکار کے ہاتھ نہیں لگا تھا یا
پھر کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی تھی کرن خان نے پشتو زبان کے مشہور شعراء
جن میں غنی خان ،عبدالرحمن بابا،صاحب شاہ صابر اور جدید دور کے شعراء اسرار
اتل، شاہ سعود بختزادہ دانش وغیرہ جیسے شعراء کا کلام گا کر پختون معاشرے
کی نہ صرف موجودہ حالات کی عکاسی کی بلکہ ماضی کی عظمتوں کو بھی آج کے
نوجوانوں کو یاد دلایا۔باچاخانی پکار دہ میں بھی آج کے نوجوان کو یہ احساس
دلایا ہے کہ خیبر پختونخوا کے حالات آج بھی اسی طرح بنے ہوئے ہے جیسے کہ
آنگریز کے آنے کی وجہ سے ہوئے تھے۔باچاخانی دراصل خان عبدالغفار خان عرف
باچا خان بابا کے فلسفے کا ایک عکس ہے باچا خان بابا 06 فروری 1890- کو
پیدا ہوااس کا اصل نام خان عبدالغفار خان تھا اور بادشاہ خان یا باچا خان
کے نام سے شہرت حاصل کی باچا خان آنگریز سامراج کے خلاف پشتون قوم کی آزادی
کے رہنماء تھے وہ ایک سیاسی رہنماء تھے اور ہمیشہ عدم تشدد کے فلسفے پر
قائم ودائم رہے انہوں نے پشتون معاشرے کے لوگوں کو عدم تشدد پر کاربند رہ
کر آزادی حاصل کرنے کی تاکید کی باچا خان مہاتما گاندی کے دوست تھے اسی وجہ
سے وہ فرانٹئر کے گاندی کے نام سے بھی مشہور تھے1929ء میں باچا خان نے
خدائی خدمت گار تحریک شروع کی اس تحریک نے پشتون معاشرے کو ایک نئے طریقے
سے اور نئی سوچ سے روشناس کیا اس تحریک کی وجہ سے پشتون معاشرہ ایک بار پھر
عروج کی طرف سفر پر روانہ ہوا۔باچاخان بابا آل انڈیا مسلم لیگ کا تقسیم
برصغیر کے بھی مخالف رہے اور جون 1947 ء میں باچا خان نے بنوں ریزالوشن کا
آغاز کیا جسکا مقصد پشتون لوگوں کے لئے ایک آزاد ریاست پشتونستان کا قیام
تھالیکن برطانوی راج نے اس کی مخالفت کی اور اس کو ماننے سے انکار کیا اور
اسی کی بناء پر خدائی خدمتگار تحریک کے ورکروں کو ظلم و بربریت کا سامنا
بھی کرنا پڑالیکن قیام پاکستان کے بعد باچا خان نے بھی اس کو بطور الگ
ریاست تسلیم کیا لیکن حکومت پاکستان کی ظرف سے بھی انکو مشکلات کا سامنا
کرنا پڑا 1954ء کو باثا خان کو ون یونٹ پروگرام کی مخالفت کرنے پر گرفتار
کیا گیا باچا خان نے قیام پاکستان کے بعد اور آنگریز کے جانے کے بعد بھی
زندگی کا زیادہ تر عرصہ جیل میں گزرامسلسل جدوجہد ،انتھک محنت اور عدم
تشدداور خدائی خدمتگار تحریک پر کاربند رہتے ہوئے پشتون قوم کے مفکر باچا
خان بابا اس دار فانی سے 20 جنوری 1998ء کو کوچ کر گئے باطا خان کو انکی
وصیت کے مطابق جلال آباد ،آفغانستان میں سپرد خاک کردیا گیا ۔
آج اگر ہم پختون معاشرے کا جائزہ لے تو تقریبا پورا معاشرہ انتشار کا شکار
ہے سیاسی حوالے سے بھی معاشی طور پر بھی اور اسی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں
خدائی خدمتگاری کا وہ جذبہ بھی نہیں رہا ہے جس کو باچا خان بابا نے تمام
پختونوں کے اندر جگایا تھا آج کا نوجوان باچاخانی کے حوالے سے بھی تذبذب کا
شکار ہے کیونکہ اے این پی جو واحد قومی پارٹی کے حوالے سے اور پختون دوست
پارٹی کے حوالے سے شہرت رکھتی ہے نے بھی اقتدار میں رہ کر پختونوں کے دل
نہیں جیتیں اور آج بھی اگر کسی سے پوچھا جائے کہ وہ اے این پی کے حوالے سے
کیا سوچ رکھتا ہے تو وہ مایوسیت سے بھر پور جواب دیگااس پارٹی کو اسلئے یاد
رکھا جاتا ہے کہ اس نے باچا خان کی تحریک کو آگے بڑھانے اور ان ہی کے فلسفہ
پر کام کرنے کا نعرہ لگایا ہیاب اس میں صداقت کس حد تک ہے وہ ہم خیبر
پختونخوا کے 2013ء سے پہلے کے حالات سے لگاسکتے ہے آج بھی پختون معاشرے کو
دیکھ کر ہر کوئی ایک باچا خان چاہتے ہے کہ جو ایک بار پھر پختون قوم کو
انکی حیثیت اوقات اور حالات بتائے کہ وہ ۲۱ ویں صدی میں بھی کس ڈگر پر کھڑے
ہے جبکہ دنیا کے باقی اقوام سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کی راہوں پر گامزن
ہوئے ہیں آج باچا خان بابا کی برسی پر مختلف علاقوں میں سیمینار بھی منقعد
کئے جاتے ہیں اور انکے کام کو ہر جگہ سراہا جاتا ہے جلسوں اور مختلف محافل
میں انکا نام اور کام بھی یاد کیا جاتا ہے لیکن اس معاشرے نے ان جیسے قوم
پرست وطن پرست اور قوم کی اہمیت جاننے والے اور قوم کو ایک نئی سوچ اور فکر
سے آراستہ کرکے ترقی کی راہوں پر لگانے والے باچا خان جیسا لیڈر جنم نہیں
دیا۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ باچا خان کی فکر و فلسفے کو آساس بنا کر اپنی
آفرادی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی قومی حیثیت اور وقار بحال کرے
پختون آج بھی یا تو اپنی خوبیوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے ہا پھر خامیوں کی
وجہ سے مختلف جگہوں پر اسکا مذاق اڑایا جاتا ہے اسی طرح کئی دہائیوں سے
افراتفری اور جنگ کی حالت میں بھی رہا ہے لیکن پختون قوم کی اس حالت سے
مختلف طرح سے فوائد بھی حاصل کئے گئے ہیں اور اس سرزمین کو استعمال بھی کیا
گیا ہے اب ان تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے اور اس کے لئے ایک باچا خان کی
ضرورت ہے جو ایک نظریہ اور سوچ کی آساس پر پوری قوم کو اکھٹا کرسکے اور
انکے لئے ترقی و کامرانی کی راہ کا تعین کرکے پوری قوم کو اس راہ پر لگادے
تاکہ دنیا کے باقی اقوام کی طرح یہ قوم بھی کھبی آسودہ حال ہو آج ہمیں باچا
خانی نہیں بلکہ ایک باچا خان کی ضرورت ہے آئے ہم سب یہی نعرہ لگائے کہ ۔۔۔باچاخان
پکار دے۔۔۔ |