تاریخ ، عوام اور پرویز مشرف

لکھا ہے کہ جب خالق کائنات نے تخلیق آدمؑ کا ارادہ کیا تو تاریخ کا آغاز ہو گیا ۔اصل اور حقیقی تاریخ لوح محفوظ ہے جس پر ساری کائنات کی تاریخ اور تقدیر خود خالق کائنات نے لکھ کر اُس پر اپنی مہر ثبت کر دی ۔ جس خالق نے یہ تاریخ لکھی وہ ہی اسکا اختتام کر یگا اور اعلان ہو گا کہ آج کس کی بادشاہی ہے تو کوئی جواب نہ آئیگا ۔جواب آئیگا بھی کیسے ؟جب ساری کائنات میں سوائے خالق کے کوئی ذی روح نہیں ہوگا ۔نہ کوئی جاندار ، نہ جن نہ فرشتہ ، نہ پہاڑ ،نہ ٹیلہـــ ،ــنہ سمندر اور نہ موڑ ۔سب کچھ ہموار اور چٹیل میدان میں بدل جائیگا ۔ آسمان کا غذکی طرح لپیٹ لیا جائیگا ، چاند ، ستارے اور سورج بجھ جائینگے۔ ہر طرف خاموشی اور سکوت ہوگا جب اعلان ہوگا کہ آج کس کی بادشاہی ہے پھر خالق کائنات خود ہی فرمائینگے لَِّلہِ وَاحدالقہار۔اﷲ زبردست اور قوت والے کی۔

انسانی تاریخ کی سب سے مستند ، متبرک ، محفوظ اور معروف کتاب قرآن کریم ہے جو سب سے پہلے لوح محفوظ پر ہی تحریر کی گئی ۔ قرآن کریم کائناتی علوم کا خزانہ اور روحانی علوم کا سرچشمہ ہے جسے ہر شخص اپنی ضرورت کے مطابق سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

تقدیر ہ خان لکھتی ہیں کہ کائنات کا سارا نظام عدل و مساوات پر استوار ہے ۔کائنات میں صرف دو نظریئے ، دو تہذیبیں اور دو طرح کے علوم ، اصول و ضوابط ہیں۔ اول نظریہ خیر اور اس نظریے سے منسلک تہذیب اور دیگر علوم ہیں جن کی بنیاد الہٰی فطری قوانین پر استوار ہے ۔ دوئم نظریہ شر اور اُس کے تابع تہذیب اور علوم ہیں۔ نظریہ خیر کی بنیاد خدائی احکامات اور الٰہی قرآنی علوم پر رکھی گئی ہے تاکہ انسان دنیاوی زندگی میں فلاح کا راستہ اختیار کر ے اور آخرت میں عذاب الہٰی سے محفوظ دائمی زندگی کا حقدار ٹھہرے۔ لکھاہے کہ دنیا اضداد کا مجموعہ ہے ۔قرآن کریم میں تخلیق آدم ؑ کے مضمون میں لکھا ہے کہ جب آدم ؑ کا وجود خلق ہوا تورب تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم ؑ کو سجدہ کریں مگر ابلیس نے انکار کیا ۔کہنے لگااے میرے رب تو نے مجھے آگ کی لوؤں سے پیدا کیا اور آدم ؑ مٹی کی تخلیق ہے ۔میں آدم ؑ سے برتر ہوں اسے کیسے سجدہ کروں۔ اس ضمن میں فرمان خدا وندی ہے کہ ابلیس نے کہا اے میرے خالق مجھے قیامت تک مہلت دے ۔میں اولاد آدم ؑ کو تیرے راستے سے ہٹا دو ں گا۔ اﷲ کا فرمان ہے کہ ابلیس کو تا قیامت مہلت دی اور فرمایا جو میرے بندے ہونگے ،جو میرا حکم مانیں گے اور سیدھی راہ پر چلیں گے اُن پر تمہاراکچھ اثر نہ ہوگا۔

تقدیرہ خان لکھتی ہے کہ دنیا میں دو ہی نظریے ، دو ہی راستے ، دوہی علم اور دو ہی تہذیبیں اور اُن سے منسلک نظام ہیں ۔ ایک کی بنیاد کتاب کے علم پر ہے اور دوسرے کی شیطانی ، استدراجی ، فروعی ،سفلی اور نا سُوتی علوم پر جو نظریہ خیرکی ضد پر استوار ہے۔ تقدیرہ خان نے روح اور مادے کی ہیئت اور تخلیق کے ضمن میں قرآنی آیات ، روحانی واقعات، کرامات اور معجزات کا بھی ذکر کیا ہے ۔تاریخ کے باب میں ابن عربی ، ابن خلدون ، ابن رُشد ، ابن جریر، مرزا سیف الدین ، امام غزالی ؒ ، محمد دین فوق اور دیگر کے خیالات اور تحریروں کے حوالہ جات پیش کیے۔ افلاطون،ارسطو،دیوجانسن،چانکیا،میکاولی،کارل مارکس،ھیگل،روسو،دولباخ،لاؤزے اور کنفیوشس کے خیالات ، افکار اور فلسفہ حیات کا مختصر مگر مدلل جائزہ پیش کرتے ہوئے انہیں قرآنی علوم اور ان علوم کے طالب علموں ابن عربی ، ابن خلدون ؒ ، امام غزالی ؒ ، مولانا روم ؒ اور علامہ اقبال کے افکار ، خیالات اور فلسفہ حیات کا موازنہ پیش کیا۔

تقدیر ہ خان لکھتی ہیں کہ ڈارک اور سٹون ایج کا تصور نہ صرف باطل ہے بلکہ فلسفہ شرکی ہی کی ایک صنف ہے جسے تاریخ کے ترازوؤں پر پرکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں کسی کے فروغی علم کی حد ختم ہوئی وہاں ڈارک اور سٹون ایج کا سہارا لیکر تاریخ کا دروازہ بند کرنے کی کوشش کی گئی ۔

تاریخ کا شمار معروف علوم میں ہوتا ہے ۔ تاریخ کا بہاؤ روکنا انسان کے بس میں نہیں ۔ غلط اور من گھڑت تاریخ اور خیالی گھوڑے دوڑانے والے تاریخ دان خود ہی اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں تاریخ فرشتہ کا احوال بیان کرتے ہوئے بہت سے واقعات کی نشاندہی کی گئی جو محض بادشاہوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تاریخ کا حصہ بنا دیے گئے ۔یہ صرف فرشتہ ہی نہیں دیگر ادوار کے تاریخ دانوں کا بھی یہی حال رہاہے اور یہ روش آج بھی جاری ہے۔اس کے برعکس ہیون سانگ اور فائین نے جو دیکھا وہی لکھا بلکہ بہت سے دیو مالائی قصوں ، کہانیوں او رروایات کو مسترد بھی کیا ۔ انگریز تاریخ دانوں نے بھی سچائی کا دامن نہ چھوڑا اور اپنی تحقیق کو حقیقت کی بنیاد پر ہی پرکھا یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی اُن کی لکھی کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں ۔ اوولف کیر و ، ینگ ہا سبنڈ ، میجر بڈھ لف ، لیپل گریفن، جی ڈبلیو لائینٹر ، کرنل ڈیورنڈ،کیپٹن ایبٹ ، آرتھر کنولی ، سرالیگز نڈر برن ، پیٹر ھوپ کرک اور ایلن بیٹس کا معیار کسی بھی طرح پنڈت کلہن ، البیرونی ،ابن بطوطہ، غلام مصطفی پنچھی اور ڈاکٹر پران ناتھ سے کم نہیں۔یہ وہ مصنفین ہیں جن کی تحریروں میں کوئی جھول نہیں پنڈت کلہن کی مثال دیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ معلومات کی کمی کی وجہ سے کلہن نے بتیس کشمیر ی حکمران خاندانوں کا ذکر نہ کیا اور نہ ہی تکہ بازی سے کام لیا ۔ اسی طرح ابن بطوطہ نے اعتراف کیا کہ اُنکا اصل مسودہ ہند کی سیاحت کے دوران ڈاکو لے اُڑے۔ جوکچھ لکھا گیا ہے یہ انتہائی کم اور ماضی کی چند یادوں پر مشتمل ہے۔جی ڈبلیو لائینٹر بیس سال تک گلگت میں مقیم رہا اورہر گاؤں اور بستی کا مشاہد ہ کرنے کے بعد تاریخ درد ستان ترتیب دی ۔ غلام مصطفے ٰ پنچھی نے بھی ایسا ہی طریقہ اختیار کیا اور ڈاکٹر پران ناتھ نے تاریخ ہند پر تحقیق کے دوران تعصب کو کوسوں دور رکھا ۔ سیاست کے باب میں عہدقدیم اور جدید کا موازنہ پیش کیا گیا ۔ مغربی اور یونانی فلسفیوں کے خیالات کا ابن خلدون ؒ اور امام غزالی ؒ سے موازنہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ قدیم یونانی اور مغربی سیاسی فلاسفہ کے نظریات عوام کش ، بے رحمانہ اور کسی حد تک حکمران طبقے کی گرفت مضبوط کرنے کے طریقوں پر مشتمل تھے وہ چانکیہ اور میکاولی کوہم خیال قرار دیتی ہیں ۔ لکھتی ہیں کہ زمین کے ہر خطے پر بسنے والے عوام کی ضروریات ، عقائد ، رسم رواج ، تہذیب اور ثقافت الگ ہے ۔ ضروری نہیں کہ جو نظام برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، روس ، چین اور امریکہ میں ہو اسے معیار بنا کر ساری دنیا کو کسی ایک نظام کی تقلید پر مجبور کیا جائے ۔ دنیا کا بہترین نظام حکومت اسلام کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اگر اس نظام کو اس کی حقیقی روح کے مطابق نافذ کیا جائے تو کوئی دوسرا فروعی ،سفلی ، استدراجی ، مادی ، نظام اسکا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔

وہ میکاولین اور چانکیائی سوچ کو شیطانی چالیں اور عوام کش تدابیر کا آئین قرار دیتی ہیں اور عوام کے متعلق ان کے خیالات کو جبر اور ظلم کا نظام لکھتی ہیں۔

لکھا ہے کہ آج دنیا میں میکاولین اور چانکیائی نظام عملاً رائج ہے جس کی مختلف شکلیں اور طریقے ہیں۔ بادشاہت ، جمہوریت ، آمریت اور فسطائیت میں فرق کرنا مشکل ہے۔ پاکستان کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ پاکستانی جمہوریت لوٹ مار، چور بازاری ، غنڈہ گردی کے اصولوں پر چلتی ہے اور عوام کی بے حسی سے نود ولیتے ، خود ساختہ سیاستدان فائدہ اُٹھا کر انہیں غلاموں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ چانکیائی اور میکاؤلین سیاست کے علمبردار وں کا ٹولہ ہے جو عوام کو غرض مند اور بے آسرا سمجھ کر لوٹتے اور حکمرانی کرتے ہیں۔

مسودے کے آخری باب میں لکھتی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے نہ فوجی بغاوت کی ، نہ قانون اور آئین سے انحراف کیا اور نہ ہی عوام پر جبر وظلم کا نظام قائم کیا۔بے نظیر بھٹو شہید کے قریبی ساتھی ، پیپلز پارٹی کے دیرنیہ کارکن ، محقق اور ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست اور شخصیت پر کئی کتابوں کے مصنف جناب مطلوب احمد وڑائچ کی تصنیف سہروردی سے وردی تک کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ 12اکتوبر 1999ء کا حادثہ خود نواز شریف کے رسیاذہن کی اختراع تھی ۔ یہ ایک گھناؤنی سازش اور فوج کو تقسیم کرنے کا گھٹیا منصوبہ تھا جس میں نذیر ناجی ، خلیل ملک ، جنرل ضیاء الدین بٹ اور دیگر شامل تھے مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ پاک فوج دنیا کی بہترین اورڈ سپلنڈفوج ہے جو اپنے چیف کے حکم پر جان نچھاور کرتی ہے لکھتے ہیں کہ آئی جی سندھ رانا مقبول ، شاہد خاقان عباسی کا بھی اس میں ثانوی کردار تھا ۔پاک آرمی نے جب نواز شریف سمیت اُن کے سازشی ساتھیوں کو گرفت میں لیا توان کا کمانڈر ہزاروں فٹ کی بلندی پر اغواء ہو چکا تھا اور اُسے پتہ نہ تھا کہ زمین پر کیا ہور ہا ہے ۔ جنرل مشرف 1988؁ء میں جب وہ بریگیڈئیر تھے تو انہیں جنرل ضیاء الحق کا ملٹری سیکرٹری مقرر کیا گیا مگر پھر کسی وجہ سے اُن کی جگہ دوسرا بریگیڈئیر اس ڈیوٹی پر چلا گیا اور جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ہی حادثے کا شکار رہو گیا یہ دوسرا واقعہ تھا جب جنرل مشرف کا جہاز موت اور زندگی کی درمیانی فضا میں محو سفر تھا اور منزل کا کچھ پتہ نہ تھا۔
(جاری ہے)

asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 100566 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.