سیاست کیا ہے ؟یہ سوال تقریبا ہر فرد کے ذہن میں
گردش کرتا نظر آتا ہے اور نہیں تو انتخابات کے شب و روز ہر کوئی اسی موضوع
کو زیر بحث لاتا ہے بعد از نماز مسجد سے نکلتے وقت ،چائے خانوں میں ،اور
اسطرح کے مختلف محافل میں سیاست پر یا اسی حوالے سے کسی بھی موضوع پر
تقریبا ہر طبقہ فکر کے لوگ ایک دوسرے سے گفت و شنید کرتے ہیجدید دور میں
انسان نے جتنا فائدہ سائنس و ٹیکنالوجی سے اٹھایا ہے اس میں ایک سوشل میڈیا
کے ذریعے مواصلاتی نظام کا چوبیس گھنٹے بحال رہنا بھی ہے اور سوشل میڈیا پر
بھی اس موضوع کے حوالے سے گرم بحث جاری رہتا ہے اقتدار کا حصول اور اس کے
لئے جاری جنگ نے معاشرے کے ہر فرد کو متاثر کیا ہے اور کچھ نہ سہی لیکن
حکمرانوں پر تنقید کرنا یا انکی اچھائیاں بیان کرنے میں ہر شخص ملوث ہے اور
یہ ایک نیک شگون بھی ہے کہ آج کا فرد ذہنی طور پر اس قابل ہو سکا ہے کہ
اقتدار کے حوالے سے بات کر سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ انٹر کے بعد زیادہ تر
طالبعلموں کا رجحان سیاسیات میں داخلہ کی طرف بڑھتا نظر آتا ہے ۔اب آتے ہے
سوال کی طرف اور سوال سیاست کا ہے مختصر ا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیاست سے
مراد یہ ہے کہ ملکی اداروں کو کیسے چلایا جائے یہ ایک عمل ہے اور ایک طریقہ
کار بھی جس کے ذریعے ریاستی فیصلے عوام کی رائے عامہ کی روشنی میں لئے جاتے
ہیں یا اگر ہم سیاست کو اسطرح بیان کرے کہ۔۔۔سیاست اقتدار کا حصول ہے یا
پھر حقوق کو حاصل کرنے کے لئے جو جدوجہد کیا جاتا ہے وہ سیاست کہلاتا ہے
بہر کیف مختلف ماہرین سیاسیات اور دانشوروں نے اپنے خیالات کی روشنی میں
اسکی واضح اور قابل قدر تعریف کی ہیں لیکن ہمارے ملک میں مروجہ سیاست کا
اگر جائزہ لے تو اس سے ذہن ایک اور نگری کی طرف سیر کرجانے لگتا ہے اس
مروجہ سیاست میں اور کسی فلمی کہانی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا فلم کی
کہانی بھی کچھ اسی طرح کی ہوا کرتی ہے کہ مار دھاڑقتل و غارت گری ،خون
خرابہ ،دھوکہ بازی ،تمام قوت و طاقت کا ایک ہی ہاتھ میں کسی خاص شخص کے پاس
رہنا اور پھر وہ شخص جب بھی چاہے اور جیسا بھی چاہے ویسا ہونا اور نہ ہونے
پر زمین اور آسمان ایک کرنا اگر اس درمیان کوئی تیسرا شخص آجائے اور طاقت
ور کے سامنے کھڑا ہو جائے تو اسکا انجام اور اس کے خاندان کا انجام تاریک
ہونا ۔۔کرہ ارض پر انسانوں کا خاتمہ تو ممکن نظر آتا ہے لیکن کسی فلم میں
ہیرو کے ہاتھ میں جو بندوق ہو اس میں گولیوں کا خاتمہ ناممکن ۔۔۔اور یہی
کچھ حال ہمارے ملک کی سیاست کا بھی ہے ماضی کے صفحات کو اگر پلٹا جائے تو
اس میں فلم کے ہیرو کیطرح تمام قوت و طاقت اور اختیار کسی خاص خاندان یا
پھر آمر کے پاس رہا ہے اور پھر وہ جو کچھ چاہے کر سکتا ہے اور جو کہتا ہے
وہی ہوتا ہے یہاں انتخابات میں رائے عامہ کا نام دے کر ووٹ تو خاصل کرلئے
جاتے ہیں لیکن اس ووٹ کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی اور اس ووٹ کی قیمت بھی
کیا ہوگی جو محض امید ہی دلاسکے گویا کہ فلم میں بھی ضمنی کرداریں تو بہت
ہوا کرتی ہیں لیکن اس کے استعمال سے جو نتائج پیدا کئے جاتے ہیں انکا تمام
تر کریڈٹ ہیرو کے حصے میں چلا جاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ وہی ہیرو
کسی اور فلم میں ایک نئے مرکزی کردار کے ساتھ پردہ سکرین پر پاور شو فلماتا
ہے جبکہ اس کے ساتھ ضمنی کرداروں کے روپ میں کام کرنے والوں کی کوئی حیثیت
نہیں ہوتی وڈھیریں ،سردار،جاگیردار،چودھری،مالک،خان ،وغیرہ بھی مرکزی
کرداروں کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں اور بیچارے عوام کا استعمال کرکے خود
داد وصول کرتے ہیں اور اگر عوام کی خاطر کسی ندی پر پل باندھے یا کوئی سڑک
تعمیر کرے تو بھی سہرا انہی کے سر سجتا ہے اور شہری انگشت بدنداں حیراں و
پریشاں اور تماشائی کا کردار نبھاتا ہے اور شہری کے ذہن میں ایک ہی سوال
گردش کرتا ہے کہ جو کچھ کیا ہے وہ ہیرو ہی کا کیا دھرا ہے اور بس ہیرو ہی
کرنے پر قادر ہے حکومت اور برسر اقتدار طبقہ وسائل کا لوٹ کھسوٹ کرنے کے
بعد مدت پوری کرکے یعنی کردار نبھا کر ایک اور فلم آئندہ انتخابات کی تیاری
میں لگ جاتا ہے اور ایک نئے کردار اور نعرے کے ساتھ چند لمحوں کے لئے سامنے
آکر غائب ہو جاتا ہیظاہر ہے جب تک شائقین موجود ہو فلم تو چلنے کی شے ہے
دیکھنے والے دیکھتے رہینگے اور فلمانے والے تو فلماتے بھی شائقین کے لئے
ہے۔۔۔اب ہم آسانی سے اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ ملکی سیاست بھی ایک فلم
کی کہانی کی طرح ہے لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ اسلام کو آساس بنا کر جو
ملک حاصل کیا گیا اس میں ایسا ہوتا ہے سیاست تو اسلام کا ایک شعبہ ہے اور
مسلمانوں کا عروج بھی رہا ہے آج کے حالات کا بھی یہی تقاضا ہے کہ مسلمانوں
کو دور عروج کو سامنے رکھتے ہوئے ہم موجودہ حالات کا بخوبی جائزہ لیں اور
پھر ایک منظم طریقہ کو اپناتے ہوئے اس فلم کو فلاپ کرلے تب ہی ہم ایک نئی
کہانی اور نئے کرداروں کے ساتھ سامنے آسکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ
فلم سپر ہٹ ہو جائے۔۔
|