چین کی جدیدیت کی جانب پیش رفت کا ستون
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
چین کی جدیدیت کی جانب پیش رفت کا ستون تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
قانون کی حکمرانی وہ کلیدی اصطلاح ہے جو چین کی اعلیٰ قیادت نے ملک کے جدیدیت کی جانب سفر کے لیے تیار کردہ ترقیاتی منصوبہ بندی میں شامل کی ہے۔کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سیکریٹری شی جن پھنگ ہمیشہ سے قانون کی حکمرانی کے پختہ حامی رہے ہیں۔2012 میں منعقدہ سی پی سی کی 18ویں قومی کانگریس کے بعد سے شی جن پھنگ نے قانون پر مبنی حکمرانی کو آگے بڑھانے کے لیے نئے نظریات، نئی سوچ اور نئی حکمتِ عملیاں پیش کی ہیں۔
2020 میں بیجنگ میں قانون پر مبنی حکمرانی سے متعلق مرکزی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس کا سب سے اہم نتیجہ "شی جن پھنگ کا نظریہ برائے قانون کی حکمرانی " کی باضابطہ تجویز تھی۔اسی نظریے کی رہنمائی میں چینی خصوصیات کے حامل سوشلسٹ قانون کی حکمرانی نے بھرپور ترقی کی ہے اور قومی احیاء کی جستجو کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔
قانون کی حکمرانی کے تحت ملک کی تعمیر و ترقی کا جائزہ لیا جائے تو 2012سے چین نے معیاری قانون سازی کے امور میں نمایاں تیزی لائی ہے۔سول کوڈ ، جو عوامی جمہوریہ چین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ "کوڈ " کے عنوان سے منظور شدہ قانون ہے ، 13ویں قومی عوامی کانگریس کے تیسرے اجلاس میں منظور کیا گیا۔ یہ قانون سازی کی تاریخ کا ایک سنگِ میل تھا۔ اسی دوران قومی سلامتی، صحت اور عوامی ثقافت جیسے اہم شعبوں میں بنیادی اور جامع قوانین تشکیل دیے گئے۔ماحولیاتی تحفظ، تعلیم اور ٹیکنالوجی جیسے کلیدی شعبوں میں قوانین میں جامع اور منظم ترامیم کی گئیں، جبکہ سائبر انفارمیشن اور بایو سیفٹی جیسے نئے ابھرتے ہوئے شعبوں میں قانون سازی میں بڑی پیش رفت ہوئی۔
چین نے قانون کی حکمرانی کو فعال انداز میں فروغ دیتے ہوئے ایک سائنسی قانونی نظام قائم کیا ہے جو ملک کے قومی حالات کے مطابق ہے اور جس نے ملک کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے مضبوط قانونی ضمانت فراہم کی۔
قانون پر مبنی حکمرانی کے تحت چین دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں قتل کی شرح سب سے کم ہے۔ 2023 میں عوام کے احساسِ تحفظ کا اشاریہ 98.2 فیصد تک پہنچ گیا، جو 2012 میں 87.55 فیصد تھا۔
قانون کی حکمرانی نے قومی سلامتی، علاقائی سالمیت اور اصلاحات و کھلے پن کے عمل کو بھی مضبوط بنایا ہے۔چین نے قومی ترانہ قانون، قومی پرچم قانون اور قومی نشان قانون منظور کیے ہیں، ساتھ ہی ہانگ کانگ اور مکاؤ خصوصی انتظامی علاقوں میں قومی سلامتی کے تحفظ کا قانون بھی نافذ کیا گیا ہے، تاکہ ان خطوں کی طویل المدتی خوشحالی اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کاروبار کے لیے سب سے سازگار ماحول قانون کی حکمرانی ہے۔ گزشتہ برسوں میں چین نے غیر ملکی سرمایہ کاری کا قانون منظور کیا، پیٹنٹ قانون اور کاپی رائٹ قانون میں ترامیم کیں اور اداروں کے املاک کے حقوق کے تحفظ کے لیے نئے اقدامات متعارف کرائے ہیں۔
رواں سال مئی میں چین نے نجی شعبے کے فروغ کے لیے اپنا پہلا بنیادی قانون نافذ کیا، جس سے قانونی تحفظ کو مزید تقویت ملی اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت میں ایک نئے محرک کا اضافہ ہوا۔ان اقدامات کی بدولت چین کا کاروباری ماحول مسلسل بہتر ہو رہا ہے۔
چین نے سرکاری محکموں کے اختیارات اور ذمہ داریوں کی فہرستیں مرتب کرنے کو فروغ دیا ہے، تاکہ ایک ایسا نظام قائم کیا جا سکے جس میں حکومتی امور زیادہ موثر انداز میں چل سکیں۔انتظامیہ کو سادہ بنایا گیا، اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا گیا، نگرانی کو بہتر کیا گیا اور خدمات کو اپ گریڈ کیا گیا تاکہ کاروباری ماحول مزید بہتر ہو۔ انتظامی منظوری کی 1,000 سے زائد شقیں ختم یا نچلی سطح پر منتقل کی گئیں اور غیر انتظامی منظوری کی تمام شقیں ختم کر دی گئیں۔
یہاں اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چین کی جانب سے کی جانے والی قانون سازی میں عوام کلیدی "نکتہ" ہیں۔ چین کی قانون کی حکمرانی عوامی شمولیت پر مبنی ہے اور عوام کی آواز کی عکاسی کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، سول کوڈ کی تیاری کے دوران عوامی مشاورت کے 10 ادوار منعقد کیے گئے اور قومی عوامی کانگریس کی ویب سائٹ پر 4 لاکھ 25 ہزار افراد کی جانب سے 10 لاکھ سے زائد تجاویز موصول ہوئیں۔
حقائق ثابت کرتے ہیں کہ چین کی جانب سے قانون پر مبنی جامع حکمرانی کا فعال فروغ اور قومی حالات کے مطابق ایک مؤثر قانونی نظام کی تعمیر نے ملک کی معاشی و سماجی ترقی کے لیے مضبوط قانونی ضمانت فراہم کی ہے جو دیگر دنیا کے لیے اپنے اپنے معروضی حالات کے مطابق ایک عمدہ حوالہ فراہم کرتی ہے۔ |
|