لائیو سٹاک میں پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا ملک پھر بھی ملاوٹ شدہ دودھ ہمارا مقدر کیوں؟

پہلے پہل تو دودھ کی مقدار بڑھانے اور زیادہ پیسے بنانے کیلئے صرف اس میں پانی ملایا جاتا تھا مگر اب تو دودھ میں ملاوٹ کے نت نئے طریقے ایجاد ہو گئے ہیں
پنجاب کے تمام شہروں میں ملاوٹ شدہ دودھ کی سر عام فروخت اور سپلائی کا سلسلہ جاری ہے ،نرم قوانین کی وجہ سے ملاوٹ مافیا قانون کی گرفت میں نہیں آتا

آبادی میں مسلسل اضافے کے باعث دودھ کی مانگ میں اضافہ ہے ۔لائیو سٹاک کی ترقی میں پاکستان دنیا کا تیسرا یا چوتھا بڑا ملک ہے پھر بھی مضر صحت یا ملاوٹ شدہ دودھ ہمارا مقدر کیوں ہے؟ملاوٹ شدہ دودھ کا مسئلہ روز بروز سنگین صورتحال کیوں اختیار کر رہا ہے؟ہر دوسرا شخص یہ شکایت کرتا دکھائی دیتاہے کہ دودھ پتلا ہے یادودھ میں سے بدبو آتی ہے اور اس بدبو دار دودھ میں اگرالائچی بھی ڈال دی جائے تب بھی بد بو ختم نہیں ہوتی۔اس نام نہاد دودھ سے چائے ہی بن جائے تو بڑی بات ہے ،ویسے پینا تقریبا نا ممکن ہے ،بچوں کو ایسا دودھ پلانے کا سوچنا ایک مشکل کام ہے۔پہلے پہل ڈبہ دودھ کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ یہ غذائیت سے بھر پور اور کھلے دودھ کا متبادل ہے لیکن یہ خوش فہمی بھی سپریم کورٹ آف پاکستان میں جناب چیف جسٹس کی عدالت میں از خود نوٹس کی سماعت کے بعد دود ہوگئی ہے۔ ایسے میں اب کریں بھی تو کیا؟یہ مسئلہ آج کا نہیں ہے تقریبا دس سالوں سے یہ مسئلہ دیکھنے میں آ رہا ہے،پہلے پہل تو دودھ کی مقدار کو بڑھانے اور زیادہ پیسے بنانے کے لیے صرف اس میں پانی ملایا جاتا تھا مگر اب تو دودھ میں ملاوٹ کے نت نئے طریقے ایجاد ہو گئے ہیں ،مصنوعی دودھ کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ گو الوں اور ملاوٹ مافیا نے بے خوفی کے ساتھ عوام کی جانوں سے کھیلنا شروع کر دیا ہے ، دودھ کی کمی کوپورا کرنے کے لیے کیمیکل ڈرموں میں منگوایا جاتا ہے اور دودھ میں ملا دیا جاتا ہے،اسی طرح بھینس کے دودھ میں گائے کا دودھ اور پانی کی ملاوٹ بھی عام ہے ۔حال ہی میں لاہور ہائیکورٹ میں عوام دوست پارٹی کے سربراہ انجینئر سید محمد الیاس کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ، جس میں کہا گہا کہ پاکستان میں کرپشن نہ صرف عام ہے بلکہ ملاوٹ شدہ چیزوں کی بھرمار ہے۔ پاکستان میں قوانین موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں کیا جا تا پنجاب کے تمام شہروں میں ملاوٹ شدہ دودھ کی سرعام فروخت اور سپلائی کا سلسلہ جاری ہے، نرم قوانین کی وجہ سے ملاوٹ مافیا قانون کی گرفت میں نہیں آتا،ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال ہزاروں کم سن بچے ملاوٹ شدہ اور ناقص دودھ کی وجہ سے ماؤں کے پیٹ میں ہلاک ہو جاتے ہیں ، ناقص دودھ پینے کی وجہ سے شہری مختلف بیماریوں کا شکار اور غذائیت میں کمی کا سامنا کر رہے ہیں ، دنیابھر میں سخت قوانین کی وجہ سے ملاوٹ شدہ دودھ کی فروخت پر کڑی سزائیں ہیں،عدالت اس کا نوٹس لے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت قوانین میں ترمیم کر کے ملاوٹ شدہ اور مضر صحت دودھ کی فروخت پر موت کی سزا مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔یہ مسئلہ نیا نہیں ہے اور نہ اس پر پہلی بارآواز بلند کی گئی ہے اس سے قبل بھی اس مسئلے کو ختم کرنے کی سر توڑ کوشش کی گئی مگر اسے حالات کی ستم ظریفی کہئیے یا قوانین کی نرمی،حکومت دودھ میں ملاوٹ کرنے والی مافیا کو مکمل ختم کرنے میں ناکام ہے۔ایک سال قبل بھی اس وقت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج( اب چیف جسٹس )مسٹرجسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم دو رکنی بنچ نے ملاوٹ شدہ دودھ اور ناقص خوارک کی فروخت کے خلاف ازخود نوٹس کیس میں حکومت کو ہدایت جاری کی کہ بازار میں ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کے فروخت ہونے والے ڈبہ پیک دودھ کو چیک کر وا کر ایک ماہ میں رپورٹ پیش کی جائے۔اس سے بھی پہلے کی بات کی جائے تو 2009میں ممتاز وکیل، بیرسٹر ظفر اﷲ خان نے سپریم کورٹ میں یہ درخواست دی تھی کہ ملک بھر میں ملاوٹ شدہ یا کیمیائی مادوں سے بنا مصنوعی دودھ تیار ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے معاملے کی تحقیق کرانے کیلئے جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں ایک بینچ بنا دیاتھا۔ اسی مقدمے کے دوران انکشاف ہوا کہ بعض کمپنیوں کا تیار کردہ ڈبہ بند دودھ بھی مضر صحت اور ملاوٹی ہے۔ساتھ یہ بھی انکشاف ہوا تھا کہ ضلعی انتظامیہ کی لیبارٹری میں ملاوٹی دودھ چیک کرنے کے متعلقہ آلات ہی نہیں ہیں ۔یہی نہیں لیبارٹری کے سربراہ سمیت تمام عملہ اس ضمن میں کوئی تربیت نہیں رکھتا – ضلع لاہور ہی نہیں تقریبا تمام اضلاع کی انتظامیہ کا یہ ہی برا حال ہے ۔رواں سال بھی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ملاوٹ شدہ دودھ کی فروخت کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ،مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ملک میں دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لیے بھینسوں کو لگائے جانے والے انجکشن سے کینسر جیسی بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔بچے اور بڑے کینسر زدہ بھینسوں کا دودھ پینے پر مجبور ہیں۔ ہماری بچیاں وقت سے پہلے ہی بوڑھی ہورہی ہیں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ڈرگ انسپکٹر مارکیٹوں میں چھاپے ماریں اور بھینسوں کو لگائے جانے والے ٹیکے ضبط کریں جبکہ چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت کو حکم دیا کہ ٹیکوں کو ضبط کرنے کا کام ڈرگ انسپکٹر کو دیا جائے اور ایف آئی اے، ڈرگ انسپکٹرز، ڈسٹری بیوٹرز اور ریٹیلرز کے سٹاک کا جائزہ لے اور دیکھا جائے کہ مارکیٹوں میں یہ ٹیکے کتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ پاکستان میں ڈبے کے تمام دودھ جعلی اور مضر صحت ہیں کیونکہ تمام ڈبہ پیک دودھ میں فارملین کیمیکل موجود ہیں جو کہ انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اس حوالے سے شہریوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔سماعت کے دوران ڈائریکٹر جنرل فوڈ نے عدالت کو بتایا کہ 90 فیصد کمپنیاں ٹی وائٹنر بنا رہی ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ تعلیم اور صحت پر کام نہ ہوا تو اورنج لائن سمیت تمام منصوبے بند کر دیں گے۔ چیف جسٹس نے دودھ بیچنے والی کمپنیوں سے استفسار کیا کہ بتائیں کیا ٹی وائٹنردودھ کا متبادل ہے، جس پر ڈبہ پیک دودھ فروخت کرنے والی کمپنیوں کے وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے کبھی دعوی نہیں کیا کہ ٹی وائٹنر دودھ کا متبادل ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ماہ میں ڈبہ تبدیل کریں اورڈبے پر جلی حروف میں لکھیں کہ ’’یہ دودھ نہیں،ٹی وائٹنر ہے ‘‘ جتنا پرانا اسٹاک ہے اسے ضائع کردیں۔ کیس کی مزید سماعت 2 ہفتوں بعد ہوگی۔

شہری تو پہلے ہی شدید کشمکش کا شکار ہیں کہ وہ کھلا دودھ استعمال کریں یا ڈبہ بند۔بلکہ پریشان الگ ہیں اگر وہ گوالوں سے شکایت کرتے ہیں تو وہ الٹا چالاکی سے کام لیتے ہوئے ان تمام گوالوں کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں جو دودھ میں پانی ملا کر دھوکہ کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر ملاوٹ سے پاک اور خالص دودھ کس جگہ پایا جاتا ہے اور کتنے فیصد لوگوں کو خالص دودھ میسر ہو گا تو اس کا جواب بہت مختصر مگر جامع ہے ۔اول تو خالص دودھ صرف ان لوگوں کو ہی میسر ہوتا ہو گا جو دودھ دوہتے ہیں اور دوسرا،سال میں ایک بار حضرت علی ہجویریٰ ؒ کے عرس پرمیسر ہوتا ہو گا وہ بھی صرف انہی افراد کو جو عرس پر آتے ہیں۔دودھ کے فوائد پراگر سرسری سی نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ دودھ اﷲ تعالیٰ کی بیش قیمت نعمتوں میں سے ایک ہونے کے ساتھ ساتھ غذائیت بخش غذا ہے جس کے ایک گلاس میں حیاتین،چربی، کاربوہائیڈریٹس یعنی نشاستہ دار غذا اور نمک جیسے قیمتی اجزاء ہوتے ہیں۔ یہ گائے ،بھینس ،بکری اور اْونٹ سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ہر طرح کے دودھ کے علیحدہ فوائد ہوتے ہیں۔بطور خاص ہڈیوں کی مضبوطی کے لئے دودھ سے بہتر کوئی چیز نہیں۔یہاں اب یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ آخر اﷲ تعالیٰ کے اس عظیم تحفہ کو مہلک زہر کیوں بنایا جارہا ہے کیوں شفا بخش غذا بیماریوں کا موجب بننے لگی ہے۔

پاکستان دودھ کی پیداوار میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے ۔یہاں ہرسال بھینسیں اور گائیں اربوں لیٹر دودھ دیتی ہیں مگر ملاوٹ شدہ دودھ کی اصل کہانی اور حقائق کچھ یوں ہیں کہ ایک تو راتوں رات امیر ہونے اور دولت میں اندھے لوگ دودھ میں ملاوٹ کرکے انسانیت کے ساتھ گھناؤنا کھیل کھیلتے ہیں تودوسری طرف مسئلہ یہ ہے گوالے علی الصبح دودھ دوہتے ہیں اور پھر ان کے پاس دودھ کو ذخیرہ کرنے اور اسے خراب ہونے سے بچانے کے لیے کوئی بندوبست نہیں ہوتا اور نا ہی بیشتر ٹرانسپورٹ رکھتے ہیں لہذازیادہ تر دودھ تو کمپنیاں خرید لیتی ہیں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان کمپنیوں کے پاس بھی ایسے معیاری آلات نہیں ہیں کہ جویہ پڑتال کر سکیں کہ خریدا جانے والا دودھ خالص ہے یا نا خالص۔پھر یہ کمپنیاں دودھ کی من مانی قیمت مقرر کرتی ہیں۔ کچھ کمپنیاں دودھ ُسکھاکر بیرون ممالک میں بھی فروخت کرتی ہیں۔واضح رہے کہ دودھ کی زندگی اﷲ تعالیٰ نے 4 گھنٹے رکھی ہے۔ اس کے بعد دودھ پھٹ جاتا ہے۔ اس کو مزید دیرپا بنانے کے لیے فریج، برف اور چلر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ چلر دودھ کو 4 سینٹی گریڈ پر ٹھنڈا کرتا ہے، جس کی وجہ سے دودھ کی زندگی 4 گھنٹے سے بڑھ کر 16 گھنٹے تک ہو جاتی ہے، جبکہ برف اور فریج میں 44 سینٹی گریڈ پر رکھا جاتا ہے، جس کے بعد دودھ کی زندگی 8 سے 10 گھنٹے بڑھ جاتی ہے چونکہ کیمیکل مختلف قسم کے ہوتے ہیں لہذاان کو دیر پا بنانے کیلئے ٹائمنگ بھی جدا جدا دی جاتی ہے، کیمیکل جتنے زیادہ استعمال کیے جائیں گے دودھ اتنا ہی مزیدگاڑھا اور مضر ہوتا جائے گا۔

پہلے پہل جب گوالے دودھ میں پانی ڈالتے تھے توشکایات موصول ہونے کی صورت میں انہوں نے دودھ کو گاڑھا کرنے کے لیے اس میں مختلف اشیاء کی ملاوٹ شروع کر دی۔آئیے دیکھتے ہیں کہ گوالے اور دودھ کا کاروبار کرنے والے خدا کی اس عظیم غذا کو کن اشیاء سے داغدار کرتے ہیں۔1: گھٹیا قسم کے پکانے کے تیل ،2: سنگھاڑوں کا سفوف ،3: آلودہ پانی، 4: فارملین( ایک کیمیکل جس کا ایک قطرہ چار لیٹر دودھ کو 48 گھنٹے تک محفوظ رکھتا ہے،ڈاکٹر اس کیمیکل کو لاشیں سڑنے سے بچانے کیلئے استعمال کرتے ہیں ) ،5: میلامائین ( ایک کیمیکل جو اشیاء کو چمکدار بنانے میں کام آتا ہے)، 6: پنسلین، 7: بال صفاء پاؤڈر، 8: شیمپو ،9: ہائیڈروجن پر آکسائیڈ ،10: ڈیٹرجنٹ ،11: کاغذ، 12: گلوکوز، 13: شکر، 14: خشک دودھ، 15: مالٹوڈیکسٹرین پاؤڈر، 16: زنیٹامائیسین، 17: آراوٹ ،18: بورک ایسڈ۔گویا دودھ کے کاروبار سے وابستہ افراد کے پاس ملاوٹ کے لیے کثیر سازوسامان موجود ہوتاہے مگرافسوس یہ افرادقانون کی پکڑ میں نہیں آتے ۔اس کے علاوہ بہت سے گوالے جانوروں کو آکسیٹوسین(Oxytocin) ہارمون کا ٹیکہ لگاتے ہیں جو دودھ کی پیداوار میں ’’50 فیصد‘‘ تک اضافہ کر سکتا ہے۔ گویا ٹیکہ لگانے سے گوالے کو ایک جانور سے پانچ کلو کے بجائے نو دس کلو دودھ ملتا ہے۔گوالے دودھ کی مقدار بڑھانے کیلئے جانوروں کو ایک ہارمون، بووائن سوماٹو ٹروپین کا ٹیکہ بھی لگاتے ہیں۔ یہ ہارمون بھی گائے بھینس میں دودھ کی مقدار بڑھاتا ہے۔ پاکستان میں گائے بھینسوں کو یہ ہارمون دینا عام ہے۔یہ دونوں ہارمون زیادہ مقدار میں انسانی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی ،کیمیائی مادوں کی ملاوٹ جاری تھی کہ ’’ذہین موجدوں‘‘ نے مختلف اشیاء کی مدد سے مصنوعی دودھ تیار کرنے کا طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔ مصنوعی دودھ بنانے کے کئی طریقے ہیں۔ پاکستان میں یہ طریقہ زیادہ مستعمل ہے: ایک برتن میں ایک کلو خالص دودھ میں ایک کلو کھانا پکانے کاتیل ملایا۔ دوسرے برتن میں ایک کلو خشک دودھ میں دس لیٹر پانی ملایا۔ انہیں اتنا حل کیاکہ خشک دودھ اور پانی باہم مل جائے۔ پھر دونوں برتنوں کے محلول کو آپس میں ملا کر اچھی طرح حل کیا جاتا ہے ۔بعدازاں اسی آمیزے میں کاربوکسی میتھائل سیلولوز پاؤڈر ملایا دیا جاتا ہے اس سفوف کو ڈالنے سے تمام آمیزہ گاڑھے دودھ کی شکل اختیار کر لیتاہے۔ کیونکہ گاڑھا پن خالص دودھ کی پہچان سمجھی جاتی ہے۔ لہٰذا چالاک گوالے قدرتی اور مصنوعی ،دونوں قسم کے دودھ میں مختلف اشیاء مثلاً سوڈیم کلورائیڈ،یوریا ، کپڑے دھونے کا پاؤڈر‘ ایس این ایف (SNF) مادے،نشاستہ (کاربوہائیڈریٹ)، پسے سنگھاڑے، کیلشیم ہائیڈرو آکسائیڈ، سکم ملک پاؤڈر،پینٹ وغیرہ ملاتے ہیں تاکہ وہ گاڑھا ہو جائے۔یہاں یہ بتانے کی اشدضرورت ہے کہ مصنوعی دودھ کوئی غذا نہیں بلکہ جوتے، پنکھے اور کمپیوٹر کی طرح ایک پراڈکٹ ہے۔ اس کے علاوہ اصلی دودھ سے چکنائی نکال لینا بھی ملاوٹ ہی کی قسم ہے۔ یہ کام ڈبا بند دودھ بنانے والی کمپنیاں انجام دیتی ہیں اور گوالے بھی! یہ چکنائی پھر مکھن، گھی، مارجرین وغیرہ کے طور پر الگ سے فروخت ہوتی ہے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ یوں خریدار کو کم چکنائی و غذائیت والا دودھ ملتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اصلی اور مصنوعی دودھ میں 20 سے زائد کیمیکل اور مختلف اشیاء ڈالی جاتی ہیں۔ ان میں سے ہر شے انسانی صحت کے لیے کسی نہ کسی طرح نقصان دہ ہے۔ مثال کے طور پر ہائیڈروجن پیرآکسائیڈ ہی کو لیجیے۔ گوالے یہ کیمیکل دودھ کو محفوظ کرنے کے لیے ملاتے ہیں۔ مگر یہ کیمیکل دراصل عام اشیاء کو صاف و شفاف کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ اگر اسے زیادہ مقدار میں کھایا جائے، تو یہ آنتوں میں سوزش اور زخم پیدا کرتا ہے۔ نیز انسان کے نظام ہضم میں بھی خرابیاں پیدا کردیتا ہے۔فارملین کا محلول 52 فیصد پانی، 40 فیصد فارمل ڈی ہائیڈ اور 8 فیصد میتھانول پر مشتمل ہوتا ہے۔ فارمل ڈی ہائیڈ ایک کیمیکل ہے۔ یہ لاشیں حنوط کرنے، عمارات بنانے اور مختلف اشیاء تیار کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ جدید سائنس اس کیمیکل کو ’’زہر‘‘ قرار دے چکی ہے۔کینیڈا میں یہ کیمیکل غذاؤں میں شامل کرنا ممنوع ہے۔ لیکن پاکستان، بھارت اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے گوالے بلا روک ٹوک یہ زہر اصلی یا مصنوعی دودھ میں شامل کرتے ہیں۔ فارملین دودھ کوعرصہ دراز تک محفوظ کرنے میں کام آتا ہے۔انسان خاص طور پر تادیر فارملین ملا دودھ نوش کرتا رہے، تو کینسر جیسے ناقابل علاج مرض کا نشانہ بن سکتا ہے۔ جبکہ یہ زہریلا دودھ انسان کو قے، پیٹ درد، آنتوں کی خرابیوں، الرجی، تھکن اور سستی کا شکار بھی بناتا ہے۔ یہ دودھ جگر اور گردے خراب کرتا اور یوں رفتہ رفتہ انسان کو موت کے منہ تک پہنچا دیتا ہے۔فارمل ڈی ہائیڈ پھلوں اور سبزیوں پر بھی ملا جاتا ہے تاکہ وہ تادیر تازہ رہیں۔ مگر جدید تحقیق اس کیمیکل کو نہایت مضر صحت قرار دے چکی ہے۔ محقیقین کے مطابق 30 ملی لیٹر محلول میں 37 فیصد فارمل ڈی ہائیڈ شامل ہو، تو اسے پی کر بالغ انسان چل بسے گا۔ یہ امر نہایت خوفناک ہے کہ فارمل ڈی ہائیڈ کے زہریلے پن کو خاطر میں لائے بغیر گوالے اور پھلوں و سبزیوں کے بیوپاری اسے کھلے عام استعمال کرتے ہیں۔یوریا کھاد انسان کو قے، متلی اور پیٹ کے امراض میں مبتلا کرتی ہے۔ یہ خصوصاً انسانی جسم کے اہم عضو، گردوں پر بہت دباؤ ڈالتی ہے۔ وجہ یہ کہ جسم میں یوریا بڑھ جانے سے گردوں کو اسے نکالنے کے لیے زیادہ مشقت کرنا پڑتی ہے۔کیمیائی مادوں سے بنا ڈیٹرجنٹ یا واشنگ پاؤڈر بھی انسان کے نظام ہضم پر حملہ آور ہوتا ہے۔ وہ آنتوں میں سوزش پیدا کرتا اور معدے میں زخم بناتا ہے۔کاسٹک سوڈے کا کیمیائی نام سوڈیم ہائیڈروآکسائیڈ ہے۔ یہ ایک خطرناک کیمیکل ہے۔ بند پائپ کھولنے اور اشیا ء صاف کرنے میں مستعمل ہے۔ انسانی بدن میں پہنچ کر یہ کیمیکل انسان کو امراض تنفس ، امراض معدہ، حلق میں درد اور لو بلڈ پریشر کا نشانہ بنا سکتا ہے۔یہ کیمیکل صابن کی تیاری میں عام استعمال ہوتا ہے۔ خاص طور پر یہ دل کی بیماریوں اورہائپر ٹینشن میں مبتلا مرد وزن کے لیے ’’سلو پوائزن‘‘ ثابت ہوتا ہے۔جدید تحقیق کے مطابق کوئی مرد اگر طویل عرصے تک ڈیٹرجنٹ والا دودھ استعمال کرتا رہے تو اس میں باپ بننے کی صلاحیت کمزور پڑ جاتی ہے۔بینرونک ایسڈ اور سیلیسائیلک ایسڈ سانس کی بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔ نیز خصوصاً بچوں میں بے چینی اور جھنجلاہٹ کو جنم دیتا ہے۔ ایمونیم سلفیٹ بھی مرد و زن میں بے چینی پیدا کرتا اور مثبت رویّے کو منفی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ دودھ میں شامل کاربونیٹس اور بائی کاربونیٹس کیمیائی مادے انسان میں تولیدی صلاحیت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔غرض دودھ میں شا مل کیے جانے والے تمام کیمیکل اور اشیاء مضر صحت خصوصیت ضرور رکھتی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ کہ تقریباً ہر انسان روزانہ دودھ استعمال کرتا ہے۔ لہٰذا دودھ میں شامل کیمیائی مادے کم مقدار میں ہوتے ہوئے بھی انسان کو رفتہ رفتہ مختلف بیماریوں کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔مریض تو دودھ کو صحت بخش غذا سمجھتا ہے۔ چنانچہ اسے احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ فلاں مرض دراصل دودھ میں شامل کیمیائی مادوں کی وجہ سے اسے چمٹا ہے۔ بعض اوقات مسلسل ملاوٹ شدہ دودھ پینے کی وجہ سے انسان موت کے منہ میں پہنچ جاتا ہے۔افسوس انسانی لالچ اور ہوس نے اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ عظیم غذائی نعمت کو سفید زہر بنا دیا ہے۔انتہائی افسوس کی بات ہے کہ قدرت نے کیلشیم ، چکنائی، وٹامن سی اور دیگر قیمتی معدنیات ، نمکیات اور وٹامنزکی صورت میں انسان کو جوعظیم تحفہ عطا کیا ہے خود انسان نے اس کو مثل زہر بنا دیا ہے۔

ڈاکٹر تجمل کہتے ہیں کہ نا خالص دودھ سے دوقسم کی بیماریاں جنم لیتی ہیں ۔ طویل المدتی اور مختصر المعیاد کی بیماریاں۔ اول الذکر قسم میں بلڈ پریشر ، امراض قلب،ورم گردہ،اور امراض گردہ شامل ہیں جبکہ پیٹ خراب ہونا،متلی آنا،اعصابی درد جیسی بیماریاں آخرالذکر اقسام میں شامل ہیں اخلاقیات اور قانون سے نا آشنا دودھ کا کاروبار کرنے والے ایک اور طریقے سے بھی جرم کرتے ہیں وہ یہ کہ جو جانور کسی مرض مثلا دق، نزلے، جرثوم غبی،سٹرپڑوکوکس،وغیرہ میں مبتلا ہوں ان کا دودھ خراب ہو جاتا ہے توگوالے یہ دودھ معیاری دودھ میں ملا کر اس کو بھی استعمال میں لا کر بیچتے ہیں جو کئی متعدی امراض کا سبب بنتا ہے پچھلے عشرے میں ایک خطرہ ہائیوئین ہارمون ٹیکے کی صورت میں سامنے آیا جانوروں میں یہ ہارمون دودھ کی افزائش کرتا ہے اور قدرتا پیدا ہوتا ہے لیکن خود غرض اور لالچی گوالے یہ ہارمون بشک ٹیکہ جانوروں میں داخل کرتے ہیں تا کہ جانور زیادہ دودھ پیدا کریں – مسئلہ یہ ہے کہ بائیوین ہارمون حیوان کے جگر میں انسولین جیسا ایک ہارمون ہے اور لائف گروتھ فیکٹر 1 کی مقدار پیدا کرتا ہے اگر دودھ میں اس ہارمون کی مقدار زیادہ ہو تو نا صرف وہ کڑوا ہو جاتا ہے بلکہ پینے والا کینسر کا شکار بھی ہو جاتا ہے ۔

پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن کے چیئرمین انجم محمد سلیم کا کہناہے کہ پاکستان میں ہر سال54بلین لیٹر دودھ پیدا ہوتا ہے۔ یہ دودھ تقریباً تریسٹھ لاکھ جانوروں (گائیں و بھینسوں) سے ملتا ہے۔دودھ کے کاروبار سے دس ملین خاندان وابستہ ہیں۔ قومی جی ڈی پی میں اس کاروبار کا حصہ 11.30 فیصد ہے۔جدید اعدادو شمار کی رو سے بھارت میں ہر سال میں ایک کھرب چھیالیس ارب لیٹر‘ امریکا میں 94 ارب لیٹر‘ چین میں 45 ارب لیٹر‘ پاکستان میں 40 ارب لیٹر‘برازیل میں 36ارب لیٹر‘ جرمنی میں 30ارب لیٹر اور روس میں 24ارب لیٹر دودھ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن بہت سے ماہرین بھارت اور پاکستان کے اعداد و شمار پر شک و شبے کا اظہار کرتے ہیں۔انہیں یقین ہے کہ بھارت اور پاکستان، دونوں ممالک میں کروڑوں لیٹر دودھ ملاوٹی ہوتاہے یا پھر کیمیائی مادوں سے بنتا ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ishrat Javed
About the Author: Ishrat Javed Read More Articles by Ishrat Javed: 69 Articles with 83021 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.