شیشہ فیشن نہیں موت ہے !

امریکی ڈاکٹروں کی ایک حالیہ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ نیٹ پر غیر معمولی وقت صرف کرنے والے نو عمر لڑکے اور لڑکیوں میں ہائی بلڈ پریشر کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ماہرین نے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے 134 افراد کا جائزہ لیا جن میں سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے 26 افراد کا بلڈ پریشر نوٹ کیا گیا، اس کے بعد ماہرین نے انکشاف کیا کہ ایک ہفتہ میں 14 گھنٹے انٹرنیٹ پر گزارنے والے نو عمر بچوں میں بلڈ پریشر کے امراض پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں گم رہنے والے افراد معاشرے سے الگ تھلگ ذہنی دباؤ اور موٹاپے کا شکار ہونے کے ساتھ بلڈ پریشر کے عارضے میں بھی مبتلا ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر نوعمر بچوں میں بلڈ پریشر کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے بچے انٹرنیٹ کے استعمال میں وقفہ ضرور دیں اور ورزش بھی ضرور کریں۔انٹرنیٹ کہنے کو تو معلومات حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اسی کی وجہ سے ہم ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے عزیز رشتے داروں سے انتہائی آسانی اور سہولت کے ساتھ نہ صرف گفت وشنید کرتے ہیں بلکہ اب تو ان کو جلتے پھرتے کام کرتے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ طالب علموں کے لیے تو یہ انمول تحفہ ہے کیوں کہ ان کی کتابوں سے جان چھوٹ گئی ایک کلک پر دنیا جہاں کی معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔

بلاشبہ انٹرنیٹ نے ہماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی ہیں۔ والدین بھی اپنے بچوں کو آئی فون، آئی پیڈ، ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ دے کر بے فکر ہوگئے ہیں۔ گھر کوئی آجائے تو بچے اپنے کمروں سے نہیں نکلتے۔ پھر اگر ماں باپ سے پوچھ لیا جائے بھئی بچے کہاں ہیں سیدھا و سہل سا جواب ہوتا ہے اپنے کمرے میں پڑھ رہے ہوں گے۔ یا پھر لیپ ٹاپ یا موبائل وغیرہ پر کچھ کر رہے ہوں گے۔ ماں باپ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم نے بچوں کو گھر میں رکھ کر ان کو دنیا کے گندے ماحول سے بچا لیا ہے اور ان پر معاشرے میں پھیلتی برائیاں اثر انداز نہیں ہوں گی لیکن یہ ان کی سوچ ہے۔ آئی پیڈ ٹیبلٹ کے نام پر انہوں نے بچوں کو گندگی کے جوہڑ میں غوطہ زن ہونے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ اس وقت کم از کم 80فی صد لوگ انٹرنیٹ کو فائدہ کے لیے کم اور ذہنی جسمانی وروحانی تسکین کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔انٹرنیٹ کے فوائد میں یہ ہے کہ قرآن و حدیث جیسی دینی معلومات تک با آسانی رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ اسلامی سوال جواب سے متعلق ڈھیروں ویب سائٹ دستیاب ہیں۔ اسی طرح آن لائن بزنس کے ذریعے بھی بہت کم وقت میں کوئی بھی چیز منگوائی جاسکتی ہے۔ اسی طرح وہ خواتین جن کو کھانے بنانے نہیں آتے وہ کوئی بھی ترکیب آن لائن کسی بھی وقت دیکھ سکتی ہیں۔ان سب سہولتوں کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کے ہمارے بچوں ہمارے معاشرے پر انتہائی اذیت ناک اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ آج کل بچے کارٹون چھوڑ چھاڑ انٹرنیٹ کے ہو گئے ہیں۔ سب سے خطرناک نقصان انٹرنیٹ کا یہ ہے کہ اس کے بے دریغ استعمال سے جنسی بے راہ روی ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ ہم آئے دن سنتے ہیں کہ کسی معصوم پری کو آدم زاد نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ جب امیر سے امیر اور غریب سے غریب کو انتہائی سستے داموں میں تفریح کا بھر پور سامان دستیاب ہوگا تو وہ کیوں اس سے فائدہ نہیں اٹھائے گا۔ جب کوئی فحاشی دیکھے گا تو وہ کہیں تو اثر دکھائے گی۔آج کل نیٹ کی وجہ سے گندگی اتنی عام ہے کہ بنا عورت اور مرد کی تفریق کے ہر کوئی اس میں مبتلا پایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر میری بات کچھ لوگوں سے ہوئی جن کی عمر بمشکل 16سال ہوگی۔ ان کی گفتگو کسی طور پر بھی کسی مہذب گھرانے کہ فرد جیسی نہیں تھی۔ بچوں کی تربیت کا تعلق نہ تو حکومت کا اور نہ ہی سیاست یا لیڈروں کا ہے۔ بلکہ ہمارے اپنے گھروں سے ہے۔ ہمارے والدین اور سرپرست اعلیٰ کی ذمے داری ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھیں۔ یہ ہماری ماؤں کی ذمے داری ہے کہ وہ کس طرح اپنے بچوں کی ذہنی اور روحانی تربیت کرتی ہیں۔ہر ماں کو چاہیے کہ وہ صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرے۔ ٹی وی چینل پر چلنے والے ڈراموں یا غیر ضروری کاموں میں پڑ کر اپنی ذمے داری کو نظر انداز مت کریں۔ بچے کیا اور کیوں کررہے ہیں یہ چیک اینڈ بلنس کا سلسلہ رکھنا چاہیے۔ مائیں اپنے بچوں کو ہر لحاظ سے تربیت دیں۔ ان کے خفیہ مسائل کو بھی سمجھیں اور انہیں پیار محبت سے سمجھائیں۔ اپنے بچوں کے خود ہی دوست بنیں اس سے پہلے کہ وہ آپ پر اعتماد کرنے کے بجائے کسی اجنبی سے دوستی کرنے پر مجبور ہوجائیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Dr Tasawar Hussain Mirza
About the Author: Dr Tasawar Hussain Mirza Read More Articles by Dr Tasawar Hussain Mirza: 301 Articles with 347236 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.