امن عمل میں کشمیریوں کی شمولیت

یہ بات اب تسلیم کر لینا ہوگی کہ کشمیریوں کے بغیرجموں کشمیر کے بارے میں کوئی بھی سلسلہ آگے بڑھایا جانا شاید ممکن نہ ہو اب تک پاکستان اور بھارت کے ذمہ دار کشمیریوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ دونوں نے صرف کشمیریوں کی خاطر تین بلکہ کرگل کو شامل کر کے چار جنگیں لڑیں ۔ حد متارکہ جنگ یا کنٹرول لائن کی دونوں جانب بستےمنقسم کشمیری اپنے اپنے ڈومینینز کے اس احسان کے بوجھ تلے دبے دبے نصف صدی سے زیادہ وقت چکے لیکن حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تقسیم قرار رہی ، اور ہے۔۔۔۔۔۔۔

نئی ہزاروی میں دنیا میں دھشت گردی کے خلاف جنگ کا طبل بجا تو بھارت اور پاکستان دونوں کو اپنے معاملات سلجھانے کے لئے چیزوں کو زیادہ حقیقت پسندانہ انداز سے دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو فیصلہ ہوا کہ ان معاملات کو عوامی رابطوں سےسلجھانے اور سمجھنے سے شاید کوئی بہتری ہو یوں سلسلہ چل پڑا پاکستان کی جانب محترمہ شیری رحمان صاحبہ ریاض کھوکھر خورشید قصور صاحب کی جیسی جہاندیدہ شخصایات اس عمل میں شامل ہوئیں تو بھارت کی جانب سے سو شو بھا باروے وجاہت حبیب اللہ اور جگ موہن گاندھی جیسے معتبر لوگ اس امن عمل کو بڑھانے کے لئے آگے آئے نصف صدی سے جمی برف پگلنے لگی تو احساس ہوا کہ اصل فریق کشمیری اگر اس عمل کا حصہ نہ بنے تو شاید کشمیریوں کے لئے کوئی بہتری سوچنے کےباوجود دونوں ممالک اس پر اس وقت تک عمل نہیں کر پائیں گے جب تک کہ کشمیریوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاپاتا۔ یوں اس امن عمل میں کشمیریوں کی بھی شرکت کےلئے راستے ہموار ہونا شروع ہوئے ۔

پاکستان اور بھارت دونوں ہی اپنے اپنے عوام کو دفاع پر اٹھنے والے اخراجات کی جوازیت پیش کرنے کے لئے ایک دوسرے کے دین دھرم کا دشمن ثابت کرنے میں کامیاب رہے اور امن کی طرف شروع کیجانے والی ایک چھوٹی سی کوشش زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکی اور اس پر مستزاد یہ کہ عقائد کو بنیاد بنا کر اقتداد کے سنگھاسن پراجمان ہونے کی خواہشمند جاہ پسند عناصر جو ماضی مین صرف ہتھیار کے طور پر استعمال کئے جاتے رہے تھے اب کھیل کی ساری ڈوریں براہ راست اپنے ہاتھمیں لینے کے کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں ۔

جیسے آج بھارت میں پاکستان کے خلاف نفرت اگلتے میڈیا اور مذھبی گروہوں کا راج ہے کم و بیش ایسی ہی صورت حال پاکستان میں بھی ہےجہاں پاکستان کے مقتدر حلقوں کو خوش کر کے اپنا الو سیدھا کرنے کے خواہش مند خود ساختہ ترجمان پوری پاکستانی قوم میں ہیجان پیدا کرنےمیں کامیاب ہو تے نظر آرہے ہیں اور بظاہر صورت حال کسی بھی طرح امن کی طرف جاتی نظر نہیں آتی حالانکہ موجودہ صدی کی پہلے دس سالوں میں امن عمل کے نتیجہ مین کشمیریوں کو بڑی حد تک ریلیف ملا حتی کہ بھارت نے امن کی خاطر کشمیر پر اپنے موقف میں واضع تبدیلی پر رضا مندی دی اور کنٹرول لائن سے بس سروس اور ٹرک سروس بغیر ویزا اور پاسپورٹ کے شروع کرنے کے لیئے کراس ایل او سی پرمٹ پر راضی ہوا ۔اور منقسم کشمیریوں کو ملنے کا محدود ہی سہی موقع فراہم کردیا اس میں جہاں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مثبت پہلو سراہا جانا چاہیئے وہیں بھارتی وزارت خارجہ کی حقیقت پسندی کو بھی مدنظر رکھنا اورقابل تعریف قرار دینا قرین انصاف ہوگا یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ جب کوئی مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھتا ہے تو اسے کچھ لینے کےلئے کچھ دینےپر بھی قادر ہونا چاہیئے یہ اسی صورت ممکن ہے کہ جبکہ قوم مذاکرات کار کی پشت پر کھڑی ہو، لیکن ہمارے ہاں معاملہ مختلف ہوتا نظر آرہا ہے حا لانکہ ہم خود کو صلح حدیبیہ کرنے والوں کے جا نشین کہلانے کے دعویدار ہیں ، مسلہ کشمیر پر کسی بھی پہلو پر بات کرنے والوں کو شدید تنقید اور تنازعات کا شکار کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے اگر چہ خود پاکستان میں عالم تجاہل اتنا عروج پر ہے کہ ایک طرف بھارت اسرائیل دفاعی معاہدے ہو رہے تھے تو دوسری جانب پاکستان میں حکومتی سیٹ اپ کو ہی چیلنج کیا جا رہا تھا اک طرف امریکی ڈرونزاور امریکہ کے جاسوسی کے آلات بھارت کو فراہم کرنے کا راستہ ہموار ہو رہا تھا تو پاکستان میں فیض آباد کا راستہ بند کیا جا رہا تھا

ہمارے ہاں پاکستان میں ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا کلچر اتنی تیزی سے رواج پکڑ رہا ہے کہ شاید ہی کوئی اس کی زد میں آنے سے بچ پائے اس سلسلے پر قابو نا پایا گیا تو خدشہ ہے کہ پاکستان کے نو زائیدہ سیاسی نظام کی تباہی کے بعد خدا نخواستہ پاکستان کا خاندانی نظام بھی اس کی زد پر ہو گا اگر چہ یہ صرف ایک خاندانی نظام ہی ہے جس کی بنا پر پاکستانی معاشرہ اخلاقی بے راہ روی کی آلائشوں سے بچا ہوا ہے ۔

رہےبے چارے کشمیری تو ان کی لیڈر شپ پر دونوں ممالک کی پراکسی ایجنٹ کا الزام تواتر کے ساتھ عائد ہوتا رہا ہے دونوں جانب ایک دوسرے کے زیر انتظام مقامی حکومتوں کو کٹھ پتلی ثابت کیاجاتا ہے ادھر پی او کے اور ادھر آئی او کے زبان زد عام کر دیا گیا ہے سوال یہ ہیکہ یہ سلسلہ کبھی ختم بھی ہو پائے گا؟ ، کیا بھارت یا پاکستان ایک دوسرے کو فتح کر لیں گے ؟ کیا کوئی ایک ملک اس دور میں کسی دوسرے ملک پر قبضہ کر سکتا ہے ؟ کیا دنیا کا کوئی بھی ملک کسی ایک ملک کو خوش کرنے کے لئے دوسرے ملک سے دشمنوں جیسا سلوک کر نے کا متحمل ہو سکتا ہے ؟ کیا پاکستان کا عظیم دوست چین پاکستان کی خاطر ڈیڑھ ارب کی بھارتی کنزیومر مارکیٹ سےدستبردار ہو نےکا فیصلہ کر سکتا ؟ جس نے بھارت کے ساتھ کسی ممکنہ تلخی سے بچنے کے لئے اپنی چینی کی سرحدوں پراپنے نہتے فوجی مامور کر رکھے ہیں ۔

تیزی سے بدلتے سیاسی اور جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں اقتصادی راہ دری ۔۔۔۔ اس میں خطے کے ممالک کی شمولیت اور اس اقتصادی راہ داری میں ریاست جموں کشمیر کو بدستور لینڈ لاک خطہ برقرار رکھ کر زیر نگیں رکھے جانے کے تمام پہلو دعوت فکر ضرور ہیں۔ جن پر غور کیاجانا زیادہ ضروری ہے چہ جائے کہ ہم اپنے اندر خود ساختہ تصور ات پر بےسروپا سازشوں کے تانے بانےبنتے رہیں غالبا دنیا آج کی تاریخ میں کسی ریاست کے بکھر جانے کی متحمل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی نان سٹیٹ ایکٹرز کے بڑھتےہوئے اثر رسوخ سےکمزور سٹیٹ ایکٹرز دنیا کے لئے قابل قبول ہو سکتے ہیں ۔۔۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ کیا پاک چین اقتصادی راہ داری پر تجارتی قافلے بکتر بند گاڑیوں میں سفر کریں گے یا کیا (خدا نخواستہ خاکم بدھن) کمزور پاکستانی ریاست دنیا کو فائدہ پہنچا سکتی ہے ؟ اگر خدانخواستہ پاکستان کمزور ہو جا تا ہے تو ادھر پاکستان سے لڑنے والے وہ عناصر جن پر بھارت کا اثر رسوخ نہیں کیا بھارت ان انتہا پسندوں کو بھارت واہگہ پر روک سکےگا؟ جس افغانستان سے روس اور امریکہ اور نیٹو سب ناکام و نامراد لوٹے بھارت اسے فتح کرنے کے قیمت ادا کر سکے گا ؟ کیا طاقتور پاکستانی ریاست بھارت کےمفاد میں نہیں ؟ کیا کشمیر مسلہ کا حل دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ؟ ۔

جس طرح تقسیم برصغیر انی سو سینتالیس کے زمینی حقائق کے تحت ہوئی اسی طرح کشمیر مسلے کا حل بھی موجود جغرافیائی وزمینی حقائق کے تناظر میں کیا جاسکتا ہے نہ کہ انی سو سینتالیس کے تناظر میں ورنہ بابا محمد علی جناح کو تو وہ آزاد خطہ طلب کرنا چاہیئے تھا جو بہادر شاہ ظفر سے سے چھینا گیا تھا ۔

دنیا کو ہم سے صرف ایک غرض ہیکہ یہاں کوئی ایٹمی جنگ نہ ہو اور نہ ہی کوئی نان سٹیٹ ایکٹر دنیا کے اپنےہاتھوں بنائی ہوئی آبادیوں میں بد امنی پیدا کرے یہ تبھی ممکن ہیکہ جب عوام اس امن عمل میں شامل ہو متحارب گروہوں کی تو بقا ہی تنازعات سے مشروط ہے وہ کب چاہیں گے کہ امن ہو اور ان کی روزی روٹی بند ہو یعنی گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا ِ؟ موجودہ حالات میں جاری امن عمل میں جس قدر روابط بڑھیں گے حد متارکہ جنگ یا کنٹرول لائن کی دونوں جانب جس قدر دوریاں کم ہوں گی اسی قدر امن کی طرف فاصلے کم ہوں گے دونوں ممالک ستر سال سے سب کر کے دیکھ چکے ۔اب عوام کو آگے آنے کا موقع دیں ان پر اعتماد کریں انہیں نہ تو پراکسی بنانےکی کوشش کریں اور نہ پراکسی ایجنٹ کا الزام لگائیں ۔ اور نہ ہی اپنے ایجنٹوں کے زریعہ اس عمل کو مشکوک کریں ۔ اگر چہ حتمی فیصلہ تو دونوں ممالک نے ہی کرنا ہے بلکہ وقت گذرنےکے ساتھ ساتھ اس میں چین بھی پاک چین اقتصادی راہداری کی صورت سٹیک ہولڈر بنتا جا رہا ہے ۔

Muhammad Arif Urfi
About the Author: Muhammad Arif Urfi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.