کشمیریوں کا حق خود ارادیت تسلیم کرنے کے بعد کشمیریوں کے
حق آزادی سے مکر جانا اور کشمیریوں پر انسانیت سوز بھیانک مظالم کے خلاف
بھارت کے نام نہاد یوم جمہوریہ پر کشمیری ہر سال یوم سیاہ مناتے ہیں ۔ ایک
مغربی دانشور کا قول ہے کہ بھارت کی جمہوریت کشمیر میں داخل نہیں ہو پاتی
۔اسی حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے' بی بی سی' کی ایک رپورٹ میں کہا گیا
ہے کہ کئی دہائیوں(عشروں) کے بعد سرینگر میں بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریب
پہلی مرتبہ انتہائی سخت سیکورٹی میں واقع امر سنگھ کلب گرانڈ میں منعقد کی
گئی۔رپورٹ میںمقبوضہ کشمیر پولیس سربراہ منیر خان کے حوالے سے کہا گیا کہ
کشمیر میں بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریبات کا انعقاد ایک چیلنج تھا۔ پولیس
سربراہ نے ایک دن قبل ہی ایک الرٹ جاری کیا تھا جس کے مطابق مہاراشٹرا کے
پونا شہر کی 18 سالہ سادیہ انوار شیخ نامی خود کش حملہ آور کشمیر میں کوئی
حملہ کرنے والی ہے۔پولیس کے مطابق جمعرات کو ایک غیر کشمیری خاتون کو
گرفتار کیا گیا تھا۔ انسپکٹر جنرل منیر خان کا کہنا ہے کہ اس بات کی تحقیق
کی جا رہی ہے کہ یہ خاتون خود کش حملہ آور ہے یا نہیں۔اس الرٹ کے بعد پورے
سرینگر کو ایک دن قبل ہی سیل کر دیا گیا ۔کشمیر میں یوم جمہوریہ کی تقریبات
سے ایک ہفتہ قبل سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے تھے۔ کشمیر میں
جمعرات سے فون رابطے، انٹرنیٹ اور شاہراہوں سے گزرنے پر پابندی تھی۔ رپورٹ
میں بتایا گیا کہ '' اس قدر سخت سکیورٹی انتظامات اور یوم جمہوریہ کی
تقریبات میں عوام کی عدم شمولیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 70 سال بعد بھی
انڈیا کے لیے کشمیر میں ترنگا لہرانا مشکل ہے۔پولیس کے ایک ریٹائرڈ افسر نے
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا سنہ 1990 سے قبل جب بخشی سٹیڈیم میں
یومِ جمہوریہ کی تقریب منعقد ہوتی تھیں تو سکول طلبا کے علاوہ عام لوگ بھی
وہاں موجود ہوتے تھے لیکن تقریب ختم ہوتے ہی لوگ احتجاج کرتے اور ہند مخالف
مظاہرے کرتے تھے، جس کی وجہ سے ہمارے لیے امن و امان کو قابو کرنا مشکل ہو
جاتا تھا''۔
بھارت کے '' یوم جمہوریہ'' کے موقع پر جموں میں منعقدہ تقریب میں بھارتی
گورنر نریندر ناتھ ووہرا نے تقریر میں کہا کہ پاکستان گذشتہ 30 برسوں سے
جموں وکشمیر میں پراکسی وار اور افراتفری کو ہوا د ے رہا ہے۔بھارتی گورنر
نے کہا کہ سرحدوں پر پائیدار امن سے ہی دونوں ملکوں کے درمیان بہتر اور
اچھے تعلقات قائم ہوں گے۔بھارتی گورنر نے یہ بھی کہا کہ وادی کشمیر میں
ہڑتالوں اور ایجی ٹیشنوں سے ہر شعبہ زندگی متاثر ہورہا ہے اور بھارت کا
سیاسی نظام اور معاشرہ اس کے خلاف ناکام چلا آ رہا ہے۔ووہرا نے کہا کہ
مسائل کا حل محاذ آرائی سے نہیں بلکہ بات چیت سے ہی نکل سکتا ہے ۔ انہوں نے
امید ظاہر کی کہ بھارت کے نمائندہ برائے کشمیر دنیشور شرما کی کوششوں کے
نتیجے میں ریاست میں امن کی بحالی میں مدد ملے گی۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کی آج بھی وہی تکرار ہے جو 1947میں جنگ
کشمیر میں تھی یعنی بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مقدمہ پیش
کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کشمیر میں پاکستان کے افراد لڑائی لڑ رہے ہیں
اور اسی وجہ سے بھارت کو کشمیر میں اپنی فوج داخل کرنا پڑی۔سلامتی کونسل نے
مسئلہ کشمیر کے تمام معاملے کا جائزہ لینے کے بعد بھارت اور پاکستان کی
رضامندی سے یہ قرار دیا کہ مسئلہ کشمیر کا فیصلہ کرنے کے لئے ریاست کشمیر
میں اقوام متحدہ کی نگرانی میںرائے شماری کرائی جائے یعنی یہ ریاست کشمیر
کے لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ ریاست کشمیر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کیا
کرتے ہیں۔واضح رہے کہ بھارت اس وقت کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں لے کر
گیا تھا کہ جب کشمیر کے ہر محاذ پر آزاد فوج کی مزاحمت مضبوط سے مضبوط ہو
رہی تھی اور ہر محاذ پر بھارتی فوج پر دبائو میں اضافہ ہوتا جا رہا
تھا۔کشمیر میں جنگ بندی لائین کے قیام کے بعد بھارت نے عالمی طاقتوں کی مدد
سے اپنی فوجی طاقت میں تیزی سے اضافہ کرتے ہوئے پہلے مسئلہ کشمیر کے حل میں
ٹال مٹول سے کام لینا شروع کیا اور اپنی فوجی طاقت کی مضبوطی کے بعد مسئلہ
کشمیر کے حل سے منکر ہوتے ہوئے ''اٹوٹ انگ'' کی رٹ شروع کر دی۔آج بھی بھی
بھارت وہی بے معنی دلیل دیتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی طرف
سے کشمیر میں دراندازی کی جاتی ہے۔مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز جماعتوں ' پی
ڈی پی' اور ' این سی' بھارتی حکومت سے مسلسل کہتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ
کشمیریوں اور پاکستان کے ساتھ بات چیت سے پرامن طور پر حل کیا جائے لیکن
بھارت اپنے ان حماتیوں پر بھی اعتبار نہیں کرتا۔
گزشتہ تین عشروں میں بھارتی فورسز نے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو موت کے
گھاٹ اتارا ہے اور کشمیر کا کوئی ایسا علاقہ نہیں ہے کہ جہاں آزادی کی
جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کے قبرستان آباد نہ ہوں۔مسئلہ کشمیر کے منصفانہ
حل،اپنی آزادی کے لئے کشمیریوں کی جدوجہد مختلف انداز میں عشروں سے جاری ہے
اور دوسری طرف بھارت اب بھی حقائق سے آنکھیں چراتے ہوئے ہٹ دھرمی دکھا رہا
ہے اور کشمیریوں پر ظلم و جبر،قتل و غارت گری کا ہر حربہ آزمانے کے باوجود
حریت پسند کشمیریوں کی جدوجہد ،ر قربانیوں اور عزم آزادی کے سامنے ناکام
ہے۔بھارت کی یہ کوشش بھی ناکام ہی ہے کہ پاکستان کو دبائو میں لا کر
کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ایسا سمجھتے اور کہتے ہوئے
بھارت کشمیریوں کی طویل جدوجہد اور قربانیوں کی توہین کر رہا ہے۔پاکستان کا
مسئلہ کشمیر میں ایک فریق کے طور پر کوئی بھی کردار ہے،اس سے قطع نظر آزادی
کا جذبہ ،عزم اور قربانیاں کشمیریوں کی اپنی ہیں ۔یہ بھی بھارت کی بہت بڑی
غلطی ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو محض پاکستان اور ہندوستان کے تنازعہ کے
طور پر دیکھتا ہے۔کشمیری اس مسئلے کے بنیادی فریق ہیں اور عالمی برادری بھی
کشمیریوں کے اس بنیادی حق کے احترام کا عزم رکھتی ہے۔ |