یہ مجرمانہ سوچ ہی کہلائے گی کہ خواہ مخواہ کا انتشار
اوربے یقینی کا ماحول پیداکردیا جائے۔ایسا کرنے کا مقصد ایک مصنوعی بحران
کھڑا کرنا ہوتاہے۔جس سے کچھ لائق لوگوں کو نالائق ثابت کرناہے۔اہل کو نااہل
قراردلوانا اس مجرمانہ سوچ کا مشن ہوتاہے۔اس طرح کے مصنوعی بحران دراصل ایک
ایسی ٹیم کو آگے لانا ہوتاہے۔جو ان کے مفاادات کا تحفظ کرسکے۔ان کے
ناجائزمفادات۔قوم اور ریاست کے خلاف مفادات کو یہ ٹیم بجا لانے میں مدد
کرتی ہے۔یہ ٹیم ان دھتکارے اور قابل نفرت لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔جن کی ٹھگ
بازیوں سے عوام بار بار پریشانی اٹھاتی رہی۔اس کے پاس کو ان کے مستردکرنے
کے لیے ووٹ کی طاقت ہوتی ہے۔جسے استعمال کرتے ہوئے ہو انہیں دھتکارتی رہتی
ہیں۔مجرمانہ سوچ والے ان مستر د لوگوں کو سینے سے لگا کر حوصلہ افزائی کرتے
رہتے ہیں۔سندھ پولیس نے نقیب محسود پولیس مقابلہ قتل کیس کی تحقیقاتی کمیٹی
کی تفصیلی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروادی ہے۔جس کے مطابق راؤ انوار نے
444 افراد کو پولیس مقابلے میں مارا۔اس رپورٹ میں نقیب محسود مقابلے کوجعلی
قرار دیاگیا۔اس کیس میں چاروں افراد پر یک طرفہ طور پر پولیس فائرنگ کی
گئی۔دوسری جانب سے پولیس پر کوئی فائرنگ نہیں ہوئی۔اس رپورٹ میں اس بات کا
ذکر بھی کیا گیا کہ راؤ انوار نے تحقیقاتی کمیٹی سے تعاون نہیں کیا۔وہ
کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ ان کے گھر کے باہر نوٹس بھی لگائے گئے۔مگر
وہ پیش نہیں ہوئے۔ان کے روپوشی کے بعد تلاش کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔اس
سلسلے میں کے پی حکومت سے بھی مدد مانگ لی گئی ہے۔سپیکر کے پی نے بھی راؤ
انوار کو درندہ قراردے کر اس کے خلاف تمام تر تعاون کرنے کا اعلان کیاہے۔
راؤ انوار کی روپوشی اور جعلی پولیس مقابلے سے متعلق چھان بین پی پی قیادت
کے لیے رنگ میں بھنگ سے کم نہیں۔زرداری صاحب اپنی مخصوص سیاست میں ایک بار
پھر پوری طرح متحرک ہیں۔بلوچستان میں تبدیلی اقتدار ہوچکا۔یہ زرداری سوچ ہی
ہے کہ اسمبلی میں ایک بھی نشست نہ ہونے کے باوجود پی پی قیادت کے کریڈٹ میں
یہ کارنامہ لکھاجاراہاہے۔لیگی رہنماؤں کی طرف سے بلوچستان میں اراکین کی
وفادارایاں بدل کر نیا حکومت کا نیا نقشہ بن جانے کو زرداری سوچ کا کرشمہ
قراردیا جارہاہے۔جس طرح کراچی میں بلوچستان کابینہ نے بلاول ہاؤس حاضری
دی۔اس نے بھی لیگی رہنماؤں کے موقف کی تائید کی ہے۔راؤ انور کو جناب آصف
زرداری کا دست راست قرار دیا جاتاہے۔ان کے بے شما رایسی تصاویر میڈیا میں
ڈسکس ہورہی ہیں۔جن میں وہ انتہائی خوشگوار موڈ میں زرداری صاحب یا ان کی
ٹیم کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔اس وقت جتنا شور راؤ انوار و لے کر ڈالا
جاراہاہے۔وہ پی پی قیادت کے لیے نیک شکون نہیں۔اگرچہ راؤ انوار کی طرف سے
اس دھمکی پر کہ بازآجائیں ورنہ کئی پول کھول دوں گاوزیر اعلی سندھ سید مراد
شاہ نے کہہ دیاہے کہ جو پول کھولنے ہیں کھول دیں۔مگراس کے باوجود پی پی کی
طرف سے راؤ انوار کے معاملے پر قدرے خاموشی اختیار کرلینا اندرونی کشمکش کو
ظاہر کرتاہے۔راؤ انور اس سے پیشتر بھی کئی بار نوکری سے فارغ اور معطل ہوتے
رہے مگر ہر بار ان پر لگائے گئے سنگین الزامات کے باوجود انہیں اپنے عہدے
پر بحال کردیا جاتارہا۔پی پی قیادت کے لیے نقیب محسود پولیس مقابلے پر
سپریم کورٹ کی دلچسپی لینامصیبت بن گیا ہے۔زرداری صاحب جو بلوچستان میں
مسلم لیگ ن کی حکومت کے خاتمے کے بعدکی صورتحا ل سے متعلق جوڑتوڑمیں لگے
ہوئے تھے۔اس اچانک افتاد سے پریشان ہیں۔
مسلم لیگ ن کی بلوچستان میں حکومت ختم کروانے کا الزام پی پی قیادت پر لگ
رہاہے۔عمران خاں بھی روز اپنی کے پی اسمبلی کے اراکین کے استعفی جمع کرلیے
جانے کی بات کررہے ہیں۔لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کو سینٹ میں اکثریت لینے سے
روکنے کی پوری تیار ی کرلی گئی ہے۔اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کامیاب
کوشش بلوچستان میں ہوچکی۔اب شاید اگلی باری کے پی کی ہے۔یہاں تحریک انصاف
کی اکثریت ہے۔مسلم لیگ ن کو یہاں سینٹ میں زیادہ نمائندگی ملنا مشکل ہے۔اس
کے باوجودخاں صاحب استعفے جمع کرلیے گئے ہیں کہہ کر کسی بھی وقت کے پی
اسمبلی کے تحلیل کردیے جانے کااشارہ دے رہے ہیں۔وہ سوچ جو اہل کو نااہل
کروانے اور سچ کو جھوٹ بنانے سے متعلق ہے۔پوری طرح متحرک ہے۔اس سوچ کی
تکمیل ان لوگوں کے ہاتھوں کروائی جارہی ہے۔جو عوام کی طرف سے بار بار
دھتکارے جارہے ہیں۔مجرمانہ سوچ والے ان دھتکارے ہوؤں کو مسلط کرنے کی تمنا
رکھتے ہیں۔بلوچستان میں تبدیلی اور کے پی اراکین کے استعفے اسی کی ایک جھلک
ہیں۔ |