خیبر پختونخوا کے اربوں: ترقی یا گمشدہ روپے کی مزاحیہ کہانی؟
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
وفاقی محکمہ خزانہ کے اعداد و شمار کے مطابق، خیبر پختونخوا حکومت کو جولائی 2010 سے دسمبر 2025 تک وفاقی حکومت کی جانب سے 8446.44 ارب روپے فراہم کیے جا چکے ہیں۔ یہ سالانہ تقریباً 563.096 ارب روپے بنتے ہیں۔ اتنی بڑی رقم، اگر عقل مندی سے استعمال ہوتی، تو صوبہ ایک ماڈل صوبے کی حیثیت اختیار کر سکتا تھا، لیکن حقیقت کچھ اور ہی منظر نامہ پیش کرتی ہے۔گزشتہ پندرہ سالوں میں صوبے پر تیرہ سال تک مسلسل پی ٹی آئی حکومت رہی۔ اس کے باوجود ترقیاتی کام اتنے محدود ہیں کہ ایک مشہور کہاوت یاد آتی ہے: "اونٹ کے منہ میں زیرہ"۔ اور مذاق کی بات یہ کہ اسی عرصے میں صوبہ تقریباً 1000 ارب روپے تک مقروض ہو گیا۔
یہ سوال تو بنتا ہے: چیف منسٹر سہیل صاحب، گنڈاپور صاحب، محمود خان صاحب اور پرویز خٹک صاحب، یہ اربوں روپے کہاں خرچ ہوئے؟ کیا یہ روپے کسی جادوئی دنیا میں غائب ہو گئے، یا کسی نے مہارت سے اربوں روپے غائب کرنے کی مشق کی؟سب سے پہلے صحت کے شعبے پر نظر ڈالیں۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال، پشاور کا فخر، مریضوں کے لیے ویران جگہ بن چکا ہے۔ ہزاروں مریض روزانہ آتے ہیں لیکن بیڈز نہ ہونے کی وجہ سے مریض فرش پر یا دستی ٹرالیوں پر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ اور یہ صورتحال صرف لیڈی ریڈنگ ہی نہیں، بلکہ صوبے کے تمام بڑے ہسپتالوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ کبھی کبھار لگتا ہے کہ یہ ہسپتال ایک ڈرامائی پرفارمنس کے لیے بنائے گئے ہیں—آئیے ڈرامہ دیکھیں، اور درد محسوس کریں۔
تعلیم کا حال بھی کچھ کم مزاحیہ نہیں۔ زیادہ تر سکول ایسے ہیں جن میں دیواریں ہیں مگر چھت نہیں، بینچ ہیں مگر کتابیں نہیں، اور اساتذہ ہیں مگر تنخواہیں نہیں۔ بعض سکول ایسے ہیں کہ کلاس روم کو "لرننگ سینٹر" کہنا بھی ایک لطیفہ لگتا ہے۔ کبھی کبھار والدین بھی سکول آ کر یہ سوچتے ہیں کہ یہ کیا عمارت ہے اور کیا حقیقت میں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا صرف ہوا میں بیٹھے ہیں؟انفراسٹرکچر کے معاملے میں تو مزاح اور المیہ دونوں موجود ہیں۔ سڑکیں بارش کے بعد غائب ہو جاتی ہیں، پلوں کا افتتاح ہوتا ہے لیکن وہ گرنے سے پہلے ہی ایک تاریخی یادگار بن جاتے ہیں، اور ٹریفک جام کو صوبے کی ایک فطری خصوصیت سمجھا جاتا ہے۔ سالانہ 563 ارب روپے ملنے کے باوجود، سڑکیں اور پل عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔
اسی دوران قرضوں کا بوجھ بھی بڑھتا رہا۔ اربوں روپے وصول کرنے کے باوجود صوبے کا قرضہ تقریباً 1000 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی سبق پڑھ رہا ہو: "مرحلہ 1: اربوں وصول کریں۔مرحلہ 2: غیر مرئی طور پر خرچ کریں۔ مرحلہ 3: مزید قرضہ لیں، اور ڈرامہ جاری رکھیں۔"
شہری بھی اب اس مالی جادوگری میں ماہر ہو چکے ہیں۔ کسی بھی سرکاری دفتر میں جائیں، اور دیکھیں کیسے رقم “منظور شدہ” دکھائی جاتی ہے لیکن حقیقت میں کسی منصوبے کے لیے استعمال نہیں ہوتی۔ سکولوں میں بجٹ ہے، ہسپتالوں میں بجٹ ہے، سڑکوں میں بجٹ ہے، لیکن عملدرآمد کا نام و نشان نہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سیاسی سفارشات اور نااہلی اس صورتحال کی بنیادی وجہ ہیں۔ ہر ٹھیکہ ایک قسم کا لاٹری ہوتا ہے: جیت گئے تو زندگی بھر کا بینک اکاونٹ، ہار گئے تو صرف نظر آتا ہے کہ ارب کہاں گئے۔
یہ صورتحال ایک عجیب سا فرق دکھاتی ہے حکومت کی ترجیحات اور عوامی ضروریات کے درمیان۔ افسران پالیسی، حکمت عملی اور منصوبہ بندی پر بحث کرتے رہتے ہیں، جبکہ مریض علاج کے بغیر مر جاتے ہیں، طلبہ تعلیم سے محروم رہتے ہیں، اور عوام بنیادی سہولیات کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔ شہری اکثر مذاق میں کہتے ہیں کہ یہ ارب کہیں "اللہ کی زمین پر دفن" کر دیے گئے ہوں۔ اور کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ فنڈز کسی انٹرنیشنل "غائب ہونے کے مقابلے" میں شرکت کر رہے ہیں۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں اربوں روپے ملنے کے باوجود صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کی صورتحال مزیدار طنز سے کم نہیں۔ شاید کبھی کوئی مکمل آڈٹ کرے، لیکن تب تک شہری ہنسنے، رونے، اور یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ یہ ارب کس دنیا میں غائب ہو گئے۔ عوامی صبر اور مزاح کو سلام، کیونکہ جب اربوں روپے بغیر وضاحت کے غائب ہوں، تو ہنسی شاید واحد دوا رہ جاتی ہے۔
خیبر پختونخوا اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں کھیلوں کے شعبے میں کرپشن ایک کھلی حقیقت بن چکی ہے۔ وفاقی اور صوبائی فنڈز کھل کر خرچ ہوتے ہیں، لیکن ترقی یا سہولیات کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ کھیلوں کی فیڈریشنز، کمیٹیاں، اور سرکاری عہدیدار اربوں روپے وصول کرتے ہیں، لیکن کھلاڑیوں کو بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ایسے افراد جن کے پاس شروع میں کچھ نہیں تھا، آج ملیونر بن چکے ہیں۔ یہ رقم کیسے اور کہاں سے آئی؟ عوام حیران ہیں، اور سوال پیدا ہوتا ہے: ذمہ دار کون ہے؟ وہ افسر جو فنڈز کی تقسیم کرتا ہے، یا وہ سیاستدان جو صرف رپورٹس پر دستخط کرتے ہیں؟
کھلاڑی، جو ملک کی نمائندگی کرتے ہیں، اکثر سست سہولیات اور ناقص انتظامات کے باعث اپنا حوصلہ کھو دیتے ہیں، اور عوام صرف دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ کرپشن اتنی کھلی ہے کہ اسے چھپانا محض مذاق لگتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کھیل ترقی کی بجائے سرکاری اور نجی مفادات کی بازی بن گئے ہیں۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ یہ ارب کہاں گئے، لیکن حکومت کی خاموشی اور نااہلی نے اس معاملے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔
اگر خیبر پختونخوا کو ایک مزاحیہ سی فلم تصور کیا جائے تو یہ سچ میں سب سے کامیاب فلم ہوگی: اربوں روپے وصول کیے، ترقی صفر، قرضہ بڑھا، اور عوام ہر روز "کیا ہوا؟" کا سوال دہرائے۔ ہر بیڈ نہیں، ہر سکول چھت کے بغیر، ہر سڑک دھنس گئی، اور ہر کھلاڑی مایوس۔ لیکن اعداد و شمار میں سب کچھ ٹھیک دکھائی دیتا ہے—یہ سب دیکھ کر شہری ہنستے اور روتے ہیں۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں اربوں روپے “غائب ہونے کے فن میں مہارت” کی کلاس لی جاتی ہے، اور عوام صرف یہ سوچتے ہیں: "یہ روپے کہاں گئے، اور ہم کب تک انتظار کریں؟"
#KPCorruption #MissingBillions #PTI #خیبرپختونخوا #صحت_کا_بحران #انفراسٹرکچر_ناکام #بجٹ_مزاح #سرکاری_رقم #ارربوں_کی_گمشدگی #رقم_کہاں_گئی #SportsCorruption #KPKSports #MissingFunds #AccountabilityNow #PublicFunds
|