پختون معاشرے میں شاہوں سے لیکر نوابوں، وڈیروں، علمائے
کرام اور تاریخ ساز شخصیات سمیت کئی لازوال سیاسی شخصیات گذری ہے جن کا نام
تاریخ کے اوراق میں جلی حروف کے ساتھ درج ہیں۔ ان میں سے ایک بڑے قد کے
حامل بڑا نام باچا خان ہے۔باچا خان جن کا اصل نام خان عبدالغفار خان تھا
پختونوں کے سیاسی راہنما کے طور پر مشہور شخصیت ہیں، جنھوں نے برطانوی دور
میں عدم تشدد کے فلسفے کا پرچار کیا۔ خان عبدالغفار خان زندگی بھر عدم تشدد
کے حامی رہے اور مہاتما گاندھی کے بڑے مداحوں میں سے ایک تھے۔ آپ کے مداحوں
میں آپ کو باچا خان اور سرحدی گاندھی کے طور پر پکارا جاتا ہے۔ لیکن میرے
خیال میں گاندھی کو سرحد کا باچا خان کہنا زیادہ مناسب تھا اور گاندھی ہے
باچا خان کے کئی فلسفوں کے فالور تھے۔
برطانوی راج کے خلاف کئی بار جب تحاریک کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو خان
عبدالغفار خان نے عمرانی تحریک چلانے اور پختون قبائل میں اصلاحات کو اپنا
مقصد حیات بنا لیا۔ اس سوچ نے انھیں جنوبی ایشیاء کی ایک نہایت قابل ذکر
تحریک خدائی خدمتگار تحریک شروع کرنے پر مجبور کیا۔ اس تحریک کی کامیابی نے
انھیں اور ان کے ساتھیوں کو کئی بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پابند
سلاسل کیا گیا۔ 1920ء کے اواخر میں بدترین ہوتے حالات میں انھوں نے مہاتما
گاندھی اور انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ الحاق کر دیا، جو اس وقت عدم تشدد
کی سب سے بڑی حامی جماعت تصور کی جاتی تھی۔ یہ الحاق 1947ء میں آزادی تک
قائم رہا۔ جنوبی ایشیاء کی آزادی کے بعد خان عبدالغفار خان کو امن کے نوبل
انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ 1960ء اور 1970ء کا درمیانی عرصہ خان
عبدالغفار خان نے جیلوں اور جلاوطنی میں گزارا۔ 1987ء میں آپ پہلے شخص تھے
جن کو بھارتی شہری نہ ہونے کے باوجود بھارت رتنا ایوارڈ سے نوازا گیا جو سب
سے عظیم بھارتی سول ایوارڈ ہے۔ 1988ء میں آپ کا انتقال ہوا، اور آپ کو وصیت
کے مطابق جلال آباد افغانستان میں دفن کیا گیا۔ افغانستان میں اس وقت
گھمسان کی جنگ جاری تھی لیکن آپ کی تدفین کے موقع پر دونوں اطراف سے جنگ
بندی کا فیصلہ آپ کی شخصیت کے علاقائی اثر رسوخ کو ظاہر کرتی ہے۔
باچا خان نے سیاست سے بھرپور زندگی گذاری پختون معاشرے میں بین الاقوامی
سیاست میں سرکردہ افراد میں باچا خان ایک نمایاں کردار تھے، باچا خان نے
ہمیشہ اصولوں پر کاربند رہ کر سیاست کی لیکن بعد ازاں ان کے بیٹے اس تاثر
کو قائم نہ رکھ سکے، ان کے فرزند اور ولی خان نے ملکی سیاست کا حصہ رہنے
میں عافیت سمجھے، ان کے چلے جانے کے بعد ان کے پوتے اسفندیار ولی خان نے
صوبائی سیاست پر ثابت قدم رہنے کو ترجیح دی اور اب جبکہ باچا خان کا سیاسی
ورثہ ان کے پڑپوتے ایمل ولی خان کو منتقل کیا جارہا ہے تو انہوں نے اپنے
پیشروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علاقائی سیاست کو اپنانے میں عافیت جانی،
یاد رہے کہ گذشتہ الیکشن میں ان کے والد کو اپنے سیٹ سے بھی ہاتھ دھونا پڑا
تھا اس لیے ان کے بیٹے ایمل ولی خان نے علاقائی سیاست یعنی صوبائی الیکشن
پی کے 18 سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔
زبان و ادب کسی بھی قوم کی پہچان ہوتے ہیں اور زبان و ادب کی ترقی و ترویج
میں اخبارات اور جرائد کا اہم کردار رہا ہے۔ پشتو زبان و ادب کے فروع کی
خاطر باچاخان نے مئی انیس سو اٹھائیس کو پشتون' نامی اخبار کا آغاز کیا جس
نے پشتو زبان کی ترقی و ترویج میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ اخبار اپنی
اشاعت کے تھوڑے ہی عرصے میں ہر دلعزیز حیثیت اختیار کر گیا۔
باچا خان کے عظیم قومی کارناموں میں سے ایک خدائی خدمتگار تحریک کی آغاز
تھا۔ باچا خان اپنے سوانح عمری صفحہ ۹۴ میں خدائی خدمتگار تحریک شروع کرنے
کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ہم پٹھانوں میں پارٹی بازیاں،
باہمی دشمنیاں، بغض وعناد، بری رسمیں اور برے رواج موجود تھے۔ ہمارے درمیان
لڑائی جھگڑے اور فسادات بھی چلتے تھے اور جوکچھ ہم پیدا کرتے تھے وہ سب کچھ
ہم برے رسم ورواج، جھگڑے فسادات اور مقدمہ بازی کی نذر کرتے تھے اور خود
اسی طرح بھوکے پیاسے، ننگے اور بدحال رہ جاتے تھے۔ ہم نہ تو تجارت کرتے تھے
اور نہ ہی زراعت اور نہ ہی ان کاموں کے لئے ہمیں فرصت تھی۔ بڑی سوچ بچار
اور صلاح مشورے کے بعد انیس سو انتیس عیسوی میں ہم نے یہ جماعت بنائی اور
اسے ہم نے خدائی خدمتگاری کا نام دیا۔ یہ نام بھی اس جماعت کا ہم نے ایک
خاص غرض سے رکھا تھا کیونکہ پٹھانوں میں خدا کے واسطے اپنی قوم وملک کی
خدمت کا جذبہ مفقود تھا۔ دوسری بات یہ تھی کہ پٹھان متشدد تھے اور ان کا یہ
تشدد غیروں کے لئے نہیں بلکہ ان کا سارا تشدد اپنی قوم اور اپنے بھائی
بندوں ہی کے خلاف تھا۔ جو آدمی بھی ان کا بہت قریبی رشتہ دار ہوتا تھا وہ
ان کے تشدد کے ہاتھوں ہمیشہ آگ میں کھڑا جلتا رہتا۔ ان کے تشدد کی ساری آگ
اپنے بھائی اور عزیر ہی کے اوپر برستی تھی۔ علاوہ ازیں ان کے رجعت پسندانہ
رسم و رواج انہیں تباہ وبرباد کر رہے تھے۔ ان میں انتقام کا جذبہ بھی غیر
معمولی تھا اور ان میں اچھے اخلاق اور اچھی عادات کا بھی فقدان تھا۔
باچاخان جس کی قوم پرستانہ اور اصلاحی خدمات کو ابھی تک بعض طبقے برداشت
کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اگر خان عبدالغفار خان پر غداری و ملک دشمنی کے
الزامات لگے تو اس میں حیرت کی کوئی وجہ نہیں۔ یہاں تو اگر کچھ لوگ باچا
خان کو غدار تو کوئی بات نہیں یہاں تو خالص مسلمان کو کافر اور محب وطن کو
ریاست کا باغی بھی قرار دیا جاتا ہے تو باچاخان ان الزامات سے کیسے بچ
جاتے، جبکہ وہ کھلم کھلا انصاف پسند اور فلاح کے اصول پر مبنی معاشرے کے
قیام کی بات کر رہے تھے۔ |