یوم جمہوریہ :روز سعید آیا چھبیس جنوری کا

یوم جمہوریہ سے صرف دو روز قبل شولاپور یونیورسٹی کے طلباء اور اساتذہ سے تکثیری، پرامن اور ترقی پذیر ہندوستان کا خواب کے موضوع پر خطاب کا موقع ملا تو ان سے سوال کیا گیا۔ اس ہفتہ کی سب اہم تقریب کون سی ہے؟ ایک آواز آئی یوم جمہوریہ اور دوسری آواز تھی پدماوت ۔ اس کے بعد دوسرا سوال تھا کہ فرض کیجیےاگر پدماوت کا ٹی وی پریمیر اسی وقت ہو جبکہ صدر مملکت خطاب فرمانے والے ہوں تو کتنے لوگ کیا دیکھیں گے؟ اس سوال پر ایک پراسرا رخاموشی چھا گئی۔ پھر پوچھا گیا کہ جن کے خیال میں ۹۰ فیصد لوگ صدر کا خطاب سنیں گے ہاتھ اٹھائیں؟ ایک ہاتھ بھی نہیں اٹھا ۔ نیچے اترتے اترتے ۵۰ فیصد تک کی چھوٹ دی گئی اس کے باوجود کوئی ہاتھ بلند نہیں ہوا۔ دستور کی حرمت کا خیال کرکے مزید گراوٹ روک دی گیے ۔ پتہ چل گیا کہ یوم جمہوریہ کی اہمیت محض تعطیل کے سبب ہے ورنہ شاید ہی کسی کو یہ قومی دن یاد بھی رہتا لیکن پدماوت کب اور کیسے ریلیز ہورہی ہے اس کی اطلاع ہر کس و ناکس کو ہوتی ۔اس مشق سےیہ جان کر خوشی ہوئی کہ عوام رہنماوں کی مانندبے دریغ جھوٹ نہیں بولتے ۔

دیش بھکتی کے موسمِ بہار میں عوامی رحجان اس غیر معمولی تبدیلی کی وجہ تلاش کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس کے لیےایک طرف سیاسی انحطاط تو دوسری جانب ذرائع ابلاغ کا غیر محتاط پروپگنڈہ ذمہ دار ہے۔ ملک کا وزیر اعظم اگر کسی عالمی اجتماع میں یہ اعلان کردے کہ اسے پچھلے ۳۰ سال میں پہلی بار ۶۰۰ کروڈ لوگوں نے ووٹ دے کر منتخب کیا ہے جبکہ اس وقت ملک کی کل آبادی صرف ۱۲۵ کروڈ تھی جس میں جملہ رائے دہندگان کی تعداد ۸۰ کروڈ اوراپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے والے ۵۹ کروڈ سے کم تھے تو مودی جی کو اس سے دس گنا زیادہ ووٹ کیسے مل گئے؟ ایسی غلطی تو ای وی ایم مشین بھی نہیں کرسکتی۔ سچ تو یہ ہے کہ این ڈی اے کو کل ۳۱ فیصد یعنی ہندوستان کی تاریخ میں کسی بھی اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کے مقابلے سب سے کم ووٹ ملے تھے۔ اس میں بی جے پی کا تناسب اور بھی کم تھا ایسے میں مودی جی نے ۱۸ کروڈ سے کم ووٹ کو ۶۰۰ کروڈ کیسے بنادیئے یہ تو وہی بتا سکتے ہیں ۔ ویسے بڑے بڑے چائے والوں سے چھوٹی موٹی غلطیاں ہوتی ہی رہتی ہیں۔

اس تقریر کو سننے کے بعد پتہ چلا کہ داووس کے اندر مودی جی کا شدھ ّ ہندی بولنے پر اصرار کیوں تھا؟ انہوں نے سوچا ہوگا کہ یہ ثقیل زبان غیر ملکیوں کے تو کجا خود ہندوستانیوں کی بھی سمجھ نہیں آئے گی لیکن بھول گئے کہ ان کی تقریر کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہورہا ہے اور دنیا بھرکے پڑھے لکھوں کی ہندوستان کے بارے میں عام معلومات ان سے زیادہ ہے۔ مودی جی کی اس دروغ گوئی پر سب سے اچھی تنقید شیوسینا پرمکھ ادھو ٹھاکرے نے کی۔ انہوں نے فرمایا گئو کشی کی مانند کذب بیانی کو بھی ممنوع قرار دیا جانا چاہیے۔ اس میں شک نہیں کہ اس اہم تقریر کے بعد پھر ایک بار مودی جی کا پسندیدہ لقب ’پھینکو ‘ ان پر بحال ہوگیا ۔یہ معاملہ ایک ایسے وقت میں پیش آیاجب راہل گاندھی نے اپنے پپو والے لقب سے چھٹکارہ حاصل کرلیا ہے۔ یہ انتخابی مہم کا سال ہے جس کی ابتداء وزیر اعظم نے اس شاندار لطیفے سے کی ہے ۔ امید ہے وہ سال بھر اپنے لقب کے شایانِ شان لطائف سے عوام کی تفریح کا سامان کرتے رہیں گے اور اس کے عوض اپنے اندھے بھکتوں سے جھولیاں بھر بھرکے ووٹ پائیں گے لیکن غیر ملکی سرمایہ کاروں کو جھانسے میں کیسے لیاجائے گا؟ وہ جب مودی جی سرخ قالین پر چل کر یہاں آئیں گے تو ان کا سابقہ کرنی سینا جیسی غیر معروف ترشول دھاری دہشت گردوں سےپیش آئے گا اور اپنی گدی بچانے کے لیےمودی سرکار ان کے آگے ہتھیار ڈال دے گی ۔

ایسی فاش غلطی کرنے والے پردھان سیوک کا موازنہ اگرصدر مملکت ڈاکٹر عبدالکلام کے ساتھ کرکے یہ کہہ دیں کہ جس طرح سابق صدر خلائی سائندلاں تھے اسی طرح مودی جی سماجی سائنسداں ہیں ۔اپنے سماج کی بابت جس سائنسداں کی معلومات اس قدر ناقص ہو اس کے انکشافات کا اندازہ کرنے کے لیے کسی تحقیق کی چنداں ضرورت نہیں۔ایسے خوشامدی صدر کے بے قیمت خطاب پر اگر عوام سنجے لیلا بھنسالی کی ۱۸۴ کروڈ کی لاگت سے بننے والی فلم کو ترجیح دیتے ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور ہے؟ وہ بیچارے اس کو چھوڑ کر اکشے کھنہ کی پیڈ مین تو دیکھ نہیں سکتے جس کا ہیرو سنگھ کی خوشنودی کے لیے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کا پرچم لہرا تا ہے۔ آج کل اکشے کھنہ ان جعلی دیش بھکتوں کو خوب بے وقوف بنا رہا ہے۔ ۱۵ اگست کے موقع پر اس نے’ ٹائیلٹ اے لواسٹوری‘ کے ذریعہ سوچھّ بھارت کا پیغام عام کرنے کی کوشش کی اور فلمساز کا دیوالیہ پیٹ دیا ۔ اب دیکھنا ہے کہ دو ہفتہ بعد ریلیز ہونے والی پیڈمین کا کیا حشر ہوتا ہے؟ کون جانے اکشے کھنہ کی سمجھ میں یہ بات کب آئے گی کہ لوگ تلوے چاٹنے اور بھونکنے والوں کے لیے نہیں بلکہ دہاڑنے والے ٹائیگر کو دیکھنے کے لیے سنیما ہال کا رخ کرتے ہیں۔
مودی جی نےقومی سطح پر کامیابی درج کرانے کے بعد جب صوبائی انتخابات میں فتح حاصل کی تو مہاراشٹر ، جھارکھنڈ اور ہریانہ میں غیرروایتی وزرائے اعلیٰ نامزد کردیئے لیکن جیسے ہی ان کا سحر ٹوٹا وہ پھر ورن آشرم پر آگئے جس میں راجپوتوں کا کام حکومت کرنا ہے ۔ اترپردیش اور اتراکھنڈ تک میں راجپوتوںکواقتدارسونپ دیا۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ بی جے پی کی ساری بڑی ریاستوں میں راجپوت اقتدار پر قابض ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پدماوت کو لے کرکرنی سینا نے ہنگامہ کیا تو راجستھان کی سندھیا کے علاوہ مدھیہ پردیش کے چوہان اور اترپردیش کے یوگی نے بھی پابندی کا نعرہ بلندکیا لیکن چھتیس گڑھ کے رمن سنگھ خاموش رہے۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے دباو میں آنے سے انکار کرتے ہوئے پدماوت کو ریلیز کرنے کا حکم دے دیا تو سندھیا کے علاوہ سارے راجپوت وزرائے اعلیٰ کو سانپ سونگھ گیا لیکن کانگریس کے سیکولر راجپوت رہنما دگ وجئے سنگھ اور بی جے پی وزیر مملکت برائے خارجہ وی کے سنگھ میدان میں کود پڑے اورریلیز کی مخالفت کردی۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ کرنی سینا کے رہنما الور اور دیگر مقامات پر کانگریسی امیدواروں کی حمایت کررہے ہیں اس کے باوجود بی جے پی ان سے کانپتی ہے۔ یہی وہ ذات پات کی سیاست جس کے خاتمہ کا دعویٰ مودی جی نے گجرات میں کیا تھا۔

سپریم کورٹ میں ناکامی کے بعد کرنی سینا کے دہشت گردوں نے ملٹی پلیکس کے مالکان کو ڈرا دھمکا کر رام کرلیا۔ عدالت عظمیٰ کی تاکید کے باوجود دہشت زدہ سنیما گھروں کے مالکین نے گجرات، راجستھان ، مدھیہ پردیش اور گوا میں فلم ریلیز کرنے سے انکار کردیا ۔ کیا عدالت کی اس کھلے عام توہین کے بعد بھی یوم جمہوریہ کے منانے کا کوئی جواز بنتا ہے؟ یہ حسن اتفاق ہے کہ چاروں صوبے بی جے پی کے زیر اقتدار ہیں ۔ گوا میں نہ عوام راجپوت ہیں اور نہ وزیر اعلیٰ اس کے باوجود وہاں کے سنیما گھروں کے مالکین کا خوفزدہ ہوجانا حیرت انگیز ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی کی صوبائی حکومتیں عدالتِ عظمیٰ کے فیصلوں کو نافذ کرنے کی اہل نہیں ہیں ۔ لطف کی بات یہ ہے اس فہرست میں اتر پردیش شامل نہیں ہے اورشعلہ بیان یوگی جی کی تو آواز ہی گنگ ہوگئی ہے۔ اس سے دیپکا پدوکون کی وہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوگئی کہ یہ لوگ ماضی میں بھی شکست فاش کھاتے رہے ہیں اور آگے بھی ناکام ہوں گے ۔یوم جمہوریہ کا تقدس دستور کے نفاذ سے وابستہ ہے اور کرنی سینا کی جانب اس کی پامالی اور حکومت کا اس کے آگے بے دست ہوجانا دیکھ کر بھلا کون باشعور شہری یوم جمہوریہ کا جشن منائے گا۔سماجی رابطے کی سائیٹس پر ایک لطیفہ گردش کررہا ہے کہ ملک میں فی الحال صرف دو مسائل ہیں ایک رانی پدماوتی کا جوہر اور دوسرے ماتا جسودھا بین کا شوہر۔

قومی دستور کو پامال کرنے کا ٹھیکہ تو فی زمانہ وزرائے کرام نے لے رکھا ہے جو اس پر ہاتھ رکھ کر پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں اور سرِ عام بدل دینے کی دھمکی بھی دیتے ہیں ۔ دستور کی رو سے تمام سیاسی جماعتوں پر ہر پانچ سال میں داخلی انتخاب لازم ہیں ۔ ان انتخابات میں جو تماشہ ہوتا ہے اور دستور کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اسے دیکھ کر ہر باشندے کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ابھی چند روز قبل کانگریس میں انتخابات ہوئے اور اتفاق رائے سے راہل گاندھی کو صدر نشین کردیا گیا ۔ اس موروثیت کوبجا طور پر تنقید کا نشانہ بنایاگیا لیکن حال میں ممبئی کے اندر شیوسینا نے کانگریس کی قبر پر لات ماردی ۔ اول تو ادھو ٹھاکرے کے مقابلے کسی نے اپنا نام پیش کرنے کی جرأت ہی نہیں کی اس لیے کہ اگر کوئی ایسا کرتا تو اسے دروازہ دکھا دیا جاتا۔ ادھو ٹھاکرے کا منتخب ہوجانا تو پھر بھی ٹھیک تھا لیکن سنیا پرمکھ کے بعد اتفاق رائے سے جن بارہ سپہ سالاروں کا انتخاب ہوا اس میں ادھو کے بیٹے ادیتیہ ٹھاکرے کا نام سرِ فہرست تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہادھو ٹھاکرے جن کو کاکا یا ماما کہتے تھے ان منوہر جوشی اور سدھیر جوشی جیسے رہنما وں کے نام ادیتیہ کے نیچے ہیں۔ سینا کے لیے اپنی عمر کھپا نے والے ان لوگوں کا حال بھی اڈوانی اور یشونت سنہا جیسا ہوگیا ہے؟ سعودی عرب کے فرمانروا ملک سلمان بھی اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو اس آسانی کے ساتھ اپنا ولیعہد نہیں بناسکے جیسا کہ جمہوری ہندوستان کے اندر ہر سیاسی جماعت میں ہوتا ہے۔ ملک سلمان کو یہ کام کرنے میں خاصہ وقت لگا اور بہت ساری دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ علامہ اقبال نے اس کی کیا خوب منظرکشی کی ہے؎
ہے وہی ساز کہن، مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں، غیر از نوائے قیصری

پارٹی کیدوبارہ کمان سنبھالنے کے بعد ادھو ٹھاکرے نے سب سے پہلے ایک ہی نشست میں بی جے پی کو تین طلاق دیتے ہوئے ؁۲۰۱۹ کا انتخاب اپنے بل بوتے پر لڑنے کا اعلان کردیا۔ ایک ساتھ تین طلاق دینے والے شوہر کوتو سرکار تین سال کے لیے جیل بھیجنا چاہتی ہے لیکن ایک ہی سانس میں اپنا الحاق ختم کرنے والی سیاسی جماعتوں کی کوئی سرزنش نہیں ہوتی اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ لوگ طلاق کے بعد بغیر حلالہ کے بڑی بے حیائی کے ساتھ بغلگیر بھی ہوجاتے ہیں۔ اس پر بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔ قومی سطح پر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے والے یہ ہندوتواوادی صوبائی حکومت میں اور ممبئی میونسپلٹی میں اپنا ناجائز رشتہ بنائے رکھتے ہیں۔ اس بار تو یہ بھی ہوا کہ تھانے ضلع پریشدمیں این سی پی اور شیوسینا نے ہاتھ ملا لیا ۔ گوندیا ضلع پریشد میں بی جے پی نے کانگریسکے حامد علی اکبر کی حمایت کرکے سب سے زیادہ نشستوں پر کامیاب ہونے والی این سی پی کو محروم کر دیا۔ اس طرح ابن الوقتی اور مفاد پرستی نے اصول و نظریات کی نقاب کو سب نے بارباری تار تار کاپ۔

بی جے پی کے بارے میں یہ بھرم پایا جاتا ہے کہ وہ موروثیت اور اقرباء پروری سے پاک ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مرکزی حکومت کے بنتے ہی جب پارٹی کے صدر راجناتھ سنگھ نے صدارت سے استعفیٰ دیا تو فوراً امیت شاہ کے ہاتھ میں پارٹی کی کمان سونپ دی گئی۔ وہ مودی کے بیٹے نہیں ہیں اس لیے کہ مودی نے بغیر طلاق کے اپنی بیوی سے کنارہ کشی اختیار کرلی لیکن سوچنے والی بات ہے کہ کیا اتنے بڑے سنگھ پریوار میں صدارت کے اہم ترین عہدے لیے ایک بھی صاف ستھری شبیہ والا رہنما کیوں میسر نہیں آیا؟ ایک ایسے شخص کو جس پرقتل و غارتگری کے مقدمات قائم تھے اس کو صدارت کےاہم عہدے پر کیوں فائز کرنا پڑا؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ وہ وزیراعظم کا منظور نظر ہے۔ اتر پردیش میں کامیابی کا سہرا شاہ کے سرباندھنا ایک فریب ہے۔ امیت شاہ اگر اتنا بڑا چانکیہ ہوتا تو اسے دہلی میں کراری شکست کا سامنا نہیں ہوا ہوتا اور نہ وہ بہار میں پٹخنی کھاتا۔

امیت شاہ کے قصیدے پڑھنے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ دہلی اور بہار تو دور خود اپنے صوبے گجرات میں امیت شاہ کے پسینے کیوں چھوٹے؟ کہاں تو ۱۵۰ سے زیادہ کا دعویٰ اور کہاں ۱۰۰ سے کم پر کامیابی ؟ اس لیے یہ کہنا کہ امیت شاہ اپنی صلاحیت کی بنیاد پر پارٹی کے صدر ہوئے ہیں ایک جھوٹا دعویٰ ہے۔ مودی جی کی آمریت نے ہی امیت شاہ کو پارٹی پر مسلط کیاہے۔ امیت شاہ جیسے داغدار رہنما سے مودی جی کو سب سے کم خطرہ ہے کیونکہ اور اگر وہ بغاوت کی جرأت کرے تو اس کو بڑی آسانی کے ساتھ جیل بھیجا جاسکتا ہے اسی لیے صدر کی حیثیت سے شاہ کو منتخب کیا گیا ہے۔ سنگھ پریوار پرمودی جی کی دہشت کا یہ عالم ہے کہ پروین توگڑیا کا میڈیا کے سامنے ٹسوے بہانا بھی اس کے کسی کام نہ آیا۔ توگڑیا کی حالت زار پر کسی ہندو نواز رہنما کا دل نہیں پسیجا۔ مودی کے خوف سے کوئی مزاج پرسی کی ہمت نہیں کرپایا۔وی ایچ پی کے رہنما سوامی چنمیانند نے یہاں تک کہہ دیا کہ توگڑیا کا وشوہندو پریشد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم اپنے آئندہ اجلاس میں اس کو لاحق خطرات پر غور تک نہیں کریں گے۔

پروین توگڑیا کے بعد کرناٹک کی ہندو شدت پسند تنظیم رام سینا کے صدر پرمود مطلق نے بھی خدشہ ظاہر کیا کہ اس کو سنگھ سے جان کا خطرہ ہے۔آرایس ایس اس کو مرواسکتا ہے۔ ہندوتوا کا عظیم محافظ پرمود مطلق تو یہاں تک کہہ گیا کہ میں نے اپنی زندگی کے ۴۰ سال ان لوگوں کے پیچھے برباد کردیئے۔ یہی احساس ادھو ٹھاکرے کو بھی ہورہا ہوگا۔ جس ہندوراشٹر میں خود ہندوتواوادیوں کی جان کے لالے پڑے ہوں وہاں عام شہری جان و مال کے تحفظ پر کس حدتک مطمئن ہوسکتا ہے اس لیے کہ دستور تو نافذ کرنے والوں کے مرہونِ منت ہوتا ہے۔ جولوگ خود اپنے ہی ہم مسلک لوگوں کی دشمنی میں ان کی جان کے درپہ ہوں وہ بھلا کسی غیر کے دوست کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ادھو ٹھاکرے نے مودی جی کو احمدآباد میں نیتن یاہو کے ساتھ پتنگ اڑانے کے بجائے لال چوک پر ترنگا لہرانے کا چیلنج کیا ہے۔ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں بی جے پی کو لال چوک اور ترنگا اسی وقت یاد آتا ہے جب اقتدار ہاتھ میں نہیں ہوتا ورنہ کرسی کے ملتے ہی یہ لوگ عیش و طرب میں ساری دیش بھکتی کے فتوے بھول کر محبوبہ کے محبوب بن جاتے ہیں ۔ ادھو ٹھاکرے نے بھیما کورے گاوں کے حملے میں پوشیدہ ہاتھ کا ذکر بھی کیا۔ آئی جی کے ذریعہ پونہ کے نائب مئیر اور آر پی آئی (اٹارولے) کے سدھارتھ دھینڈے کی رہنمائی قائم کردہ ایک کمیٹی نے صاف کہا ہے کہ یہ فساد نہیں حملہ تھا جو ایک بوٹے اور بھِڈے کے اشتعال انگیزی کے باعث ہوا۔ مزے کی بات ہے دونوں ملزم ایف آئی آر کے باوجود ہنوز آزاد گھوم رہے ہیں اور اب دھینڈے کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

دستور کی پاسداری کا حق کسی حد تک عدالتِ عظمیٰ ادا کررہی ہے حالانکہ اس سے بھی بیچ بیچ میں کوتاہی سرزد ہوجاتی ہے جس کا اعتراف پچھلے دنوں چار ججوں نے پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ پدماوت کو لے کر سپریم کورٹ کا موقف ابتداء سے نہایت بے لچک رہا اوراس نے کرنی سینا تو دور صوبائی حکومتوں کے دباو میں آنے سے بھی صاف انکار کردیا۔ اس دوران عدالت عظمیٰ نے ہادیہ کے معاملے میں بھی ایک قابلِ تعریف جو فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے ہادیہ کے اپنے شوہر کو منتخب کرنے کے دستوری حق کی توثیق کردی اورماضی کی گومگوں کیفیت سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس نے آگے بڑھ کر قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کو غیر دستوری مداخلت سے منع کر دیا ۔ عدالت عظمیٰ کا یہ دوٹوک فیصلہ ’لو جہاد ‘ کے نام برپا کیے جانے والے فساد کے سرپر ہتھوڑا ہے۔ اب کیرالہ جیسے کسی ہائی کورٹ کے لیے اسلام قبول کرنے والوں کو پریشان کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے جشن جمہوریہ منانے والوں کا مشاعرہ میں جاکر اس طرح کےا شعار سے لطف اندوز ہونا جائز قرار پاتا ہے؎
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1453381 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.