26 جنوری 2018 کو بھارت نے ایک بار پھر اپنا یوم جمہوریہ
منایا۔ بھارت میں حکومت جمہوری ہے اور یہ جمہوری حکومت ظاہر ہے وہاں کی
اکثریت یعنی ہندؤں کے ہاتھوں منتخب ہوتی ہے یعنی اکثریت کی حکومت اکثریت کے
لیے اکثریت کے ذریعے اس میں اقلیت کے کچھ نمائندوں کے نام تو ضرور آجاتے
ہیں کام یا حصہ ان کا حکومت میں کہیں نہیں یوں جمہوریت کا تسلسل قائم ہے
اکثریت حاکم ہے اقلیت محکوم اور محکوم بھی ایسی کہ جسے آئے روز حاکم اکثریت
کے پر تشدد حملوں اوررویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس عظیم جمہوریہ کی
پارلیمنٹ میں صرف چند ایک مسلمان اراکین ہیں خود بھارت کے سرکاری اعداد و
شمار کے مطابق مسلمان بھارت کا 19% ہیں جو کہ مسلمان ذرائع کے مطابق اس سے
زیادہ ہیں لیکن اس کے لوک سبھا میں صرف 23 مسلمان اراکین ہیں جو کل 543
نشستوں کا تقریباََ 4 فیصد ہے۔ بی جے پی نے انہی 543 نشستوں میں سے صرف
پانچ پر مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ دیے جن میں سے تین مقبوضہ جموں و کشمیر سے
تھے جن میں وہ لوگ شامل تھے جو جیت کے قریب بھی نہ پہنچے جبکہ باقی پورے
بھارت سے صرف دو لوگوں کو ٹکٹ دیا گیا یہی حال دوسری جماعتوں کا بھی رہا ۔اُتر
پردیش جیسی ریاست میں جہاں مسلمانوں کی تعداد کروڑوں میں ہے سے کوئی مسلمان
نمائندہ موجود نہیں لوک سبھا میں اس ریاست کی 80 نشستیں ہیں جس میں بی جے
پی نے اکتہر جتیں لیکن نہ تو مسلمان امیدوار تھا اور ظاہر ہے نہ کوئی رکن
ہے، لہٰذا یہ ہے بھارت کا جمہوری رخ کہ بیس کروڑ آبادی کی نمائندگی صرف 23
لوگ کر رہے ہیں ایسی پارلیمنت میں مسلمانوں کے حق میں یا ان کی بھلائی کا
کونسا قانون بن سکتا ہے۔ پورا بھارت ہندو بلکہ اونچی ذات کے ہندو کی مٹھی
میں ہے یہ صورت حال اُن ممالک میں تو قابل قبول ہے جہاں اقلیت کا تناسب دو
چار فیصد ہو لیکن جہاں ایک اقلیت کل آبادی کا پانچواں حصہ ہو اور تناسب کے
حساب سے کم سے کم بھی 20 فیصد ہو تو پھر کیسی جمہوریت، کیسی جمہوریہ اور
کیسا یوم جمہوریہ اور جب اس جمہوریہ کا سربراہ بھی ایک شدت پسند ہندو بلکہ
دہشت گردہو تو بھارت پھر اپنا یوم جمہوریہ کیوں مناتا ہے۔ 1950 سے شروع
ہونے والے اس دن کی بجائے اب تک وہ اپنا رویہ جمہوری بنانے پر اتنی توجہ
دیتا جتنا اس دن کے منانے پر دے رہا ہے تو شاید اُسے کچھ افاقہ ہو ہی جاتا۔
اُسے ہر سال اپنے یوم جمہوریہ پر ملک کے مختلف علاقوں سے مختلف قسم کی
مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اُس کے سکیولر چہرے کے لیے ایک آئینہ ہے
جس میں اُس کا سچ اور جھوٹ نظر تو آتا ہے لیکن وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا
ہے یہ اور بات ہے کہ آنکھیں بند کر لینے سے حقیقت بدل نہیں جاتی۔ کشمیر،
مسلمان، دِلت، اچھوت، نکسل باڑی، سکھ سب جب اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو
ڈھول کا پول خود بخود کھل جاتا ہے ۔ بھارت اپنی اقلیتوں کو جو اہمیت یا
قبولیت دیتا ہے اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ سکھ جو بھارت کی
فوج کا انتہائی اہم حصہ ہیں اسی سکھ رجمنٹ کو 2016 کی یوم جمہوریہ کی پریڈ
سے باہر کیا گیا اور جب ان کی طرف سے باقاعدہ احتجاج ریکارڈ کرایا گیا تو
اگلے سال کی پریڈ میں اسے دوبارہ شامل کیا گیا۔ ویسے بھی سکھ مختلف مواقع
پر احتجاج کر کے 1984 کے آپریشن بلیوسٹار کی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں۔
باقی کی اقلیتوں کو تو وقتاََ فوقتاََ نشانہ بنایا جاتا ہے اور ظاہر ہے ان
کا احتجاج سامنے آتا ہے لیکن کشمیری تو گویا بھارت کے لیے مال مفت ہیں جب
چاہے ان بے بس غلاموں کو انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہی
وجہ ہے کہ بھارت کے تمام قومی دن کشمیریوں کے لیے یوم سیاہ ہیں اور وہ اسے
نہ صرف کشمیر اور بھارت کے اندر بلکہ پوری دنیا میں بطور یوم سیاہ ہی مناتے
ہیں اور چاہے ان کا یہ احتجاج پر امن بھی ہو انہیں اس پر انتہا درجے کے
مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس یوم جمہوریہ پر بھی کشمیری انہی مصائب سے
گزرے لیکن وہ اپنا حق مانگنے سے باز نہیں آئے اور اس بار اس دن پر انہوں نے
پورے زور و شور سے احتجاج کیا اور دنیا کو یاد دلانے کی کوشش کی کہ آج کی
اس مہذب دنیا میں ایک قوم ایک دوسری قوم کی غلام ہے اور اس کے ہاتھوں روز
نہ صرف اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتی ہے بلکہ اپنی نسلوں کو معذور ہوتے
دیکھتی ہے پیلٹ گنوں سے نکلنے والی گولیوں سے صحتمند پیدا ہونے والوں کو
اندھا ہوتے ہوئے دیکھتی ہے اپنی پاکیزہ بیٹیوں کی بے عصمتی کا دکھ دیکھتی
ہے وہ کشمیری اپنے یہ سارے دکھ لے کر بلجئیم کے دارلحکومت بر سلز میں
بھارتی سفارت خانے کے سامنے پہنچے اور زبردست احتجاج کیا یورپ میں بسنے
والے یہ کشمیری اپنے وطن سے دور ہیں لیکن خطہء کشمیر پر برسنے والی آگ ظاہر
ہے انہیں چین نہیں لینے دیتی اور وطن سے دوریہ کشمیری اپنوں کا درد نہ دیکھ
سکتے ہیں نہ برداشت کر سکتے ہیں لہٰذا یہ احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے یورپی
کشمیر کونسل کے زیر اہتمام اس مظاہرے میں پاکستانیوں کشمیریوں، انسانی حقوق
کی تنظیموں کے نمائندوں اور صحافیوں نے شرکت کی جنہوں نے کشمیر میں ہونے
والے مظالم کے خلاف بینرز،پلے کارڈز اور تصاویر اٹھا کر دنیا کا ضمیر اور
احساس جگانے کی کوشش کی اور یورپی یونین، اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی
اداروں سے اس مسئلے پر سنجیدگی دکھانے کا مطالبہ کیا۔ مقررین نے کشمیر میں
ہونے والے مظالم کی پر زور مذمت کی اس مظاہرے کو یورپ میں وسیع پیمانے پر
میڈیا کو ریج دی گئی ۔ کشمیریوں نے بھارت کے یوم جمہوریہ پر لندن میں بھی
احتجاج کیا جسے ہیومن رائٹس واچ اور کشمیر گلوبل کونسل نے منعقد کیا جس میں
خاص طور پر تیار کی گئی ڈیجیٹل گاڑیاں لائی گئیں جن پر کشمیر کی آزادی کے
مطالبات درج تھے۔ منتظمین کے مطابق بھارت اور ’’را‘‘نے ان گاڑیوں کو روکنے
کی ہر ممکن مدد کی اور بھارت کے حمایتی بھی میدان میں آئے اور یوں ایک پر
امن مظاہرہ بھی بھارت برداشت نہ کر سکا تاہم پولیس اور مظاہرے کے پر امن
شرکاء کی مدد سے انہیں اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا گیا اور یوں
عالمی منظر نامے پر کشمیر کے مسئلے کو پھر سے اجا گر کرنے کی کوشش کی گئی
اور ساتھ ہی بھارت کی جمہوریت کا بدنما چہرہ بھی دنیا کو دکھا یا گیا کہ یہ
وہ جمہوریت ہے جو ایک ریا ست کو زبردستی غلام بنائے ہوئے ہے اور اس ریاست
کے شہری مسلسل اس کے مظالم کی زدمیں ہیں کشمیری اپنے حق آزادی سے دست بردار
ہونے کو کسی طور بھی تیار نہیں وہ اپنی آواز مسلسل بلند کیے ہوئے ہیں اپنی
آزادی کے لیے مسلسل شہادتیں اور گولیاں برداشت کر رہے ہیں نسلوں کی یہ
قربانیاں آخر کار رنگ لائیں گی لیکن دنیا کے ’’ انصاف پسند‘‘ اپنے چہیتے
بھارت کو اِن مظالم سے باز رکھنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے میں اور کتنی
دیر لگائیں گے اور کتنے انسانوں کا خون بہانے کی اسے اجازت دیں گے کیا اب
بہت نہیں ہو گیا کیا اب دنیا کو بھارت کو لگام نہیں ڈال دینی چاہیے تاکہ
برصغیر میں امن قائم ہو اور یہاں کے عوام سکون کا سانس لے سکیں۔ |