گناپورہ شوپیان میں بھارتی فوج کے ہاتھوں نہتے
شہریوں کی تازہ ہلاکتوں کے بعد ایک نئی صورتحال نے جنم لیا ہے۔ حکمران بی
جے پی بھارتی فوجیوں کو سزا نہ دینے کی کھل کر حمایت کر رہی ہے۔اس پر نئے
مباحثے ہو رہے ہیں۔پیدا شدہ مباحثے نے کئی اہم نکات کو سامنے لایا ہے۔
بیشتربھارت نواز اور آزادی پسند جماعتیں نہتے شہریوں کی ماورائے عدالت
ہلاکتوں کو قابل تعزیر جرم قرار دے رہی ہیں اور اسکی منصفانہ تحقیقات کرنے
اور واقعات میں ملوث بھارتی فوجی اہلکاروں کیخلاف کارروائی عمل میں لانے پر
متفق ہیں۔برسراقتدار اتحاد کی اہم اکائی بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی
ریاستی دہشتگردی کو معمول کی کارروائی قرار دیکر کشمیریوں کی ہلاکتوں کو
بھارتی فوج کا حقکے طور پر پیش کرتیہے۔وہ پولیس کی جانب سے درج کئے گئے ایف
آئی آر سے ملوث اہلکاروں کے ناموں کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ یہ پہلا
موقع ہے کہ جب کٹھ پتلی حکومتی اتحاد کی کسی اکائی کی جانب سے ایسا مطالبہ
پیش کیا گیا ہے، حالانکہ ماضی میں بھی اتحادی حکومتوں کے دوران ایسے واقعات
پیش آتے رہے ہیں تاہم حکومتی اکائیوں کی جانب سے یکساں نوعیت کی آواز سننے
کو ملتی رہی ۔ لیکن آج حکومتی اراکین ہی حکومتی کارروائی کی سمت بدلنے کے
درپے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پی ڈی پی کے کئی اراکین اسمبلی نے کھل
کر اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے تحقیقاتی عمل کو شفاف انداز سے انجام کو
پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں ریاستی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے
بھی بھاجپا رکن رویندر رینہ کے اس مطالبہ کہ فوج کیخلاف درج ایف آئی آرواپس
لیا جائے، کو یکسر مسترد کرتے ہوئے باور کیا کہ انتظامیہ کی جانب سے شروع
کیا گیا تحقیقاتی عمل اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔مقامی میڈیا اور
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں بھی مقبوضہ کشمیر
میں ریاستی دہشتگردی کے پے درپے واقعات ہوئے۔ ہلاکتوں کی تحقیقات کے درجنوں
واقعات عمل میں لائے گئے ۔لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ردی کی ٹوکری
میں ڈالا گیا۔ اور چند ایک واقعات کے سوا کسی کیس میں قانونی عمل مکمل نہیں
کیا گیا۔ اس بارے میں ایک دوست نے خوبصورت تبصرہ کیا ہے۔ موجودہ صورتحال سے
یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ مقبوضہ ریاست کی حکومتی اکائیوں میں کشمیر
کے اندر سیکورٹی آپریشنوں کے حوالے سے واضح اختلافات موجود ہیں لیکن اس
صورتحال سے نمٹنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی،جس کی وجہ سے عام لوگوں
کے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خون آشام صورتحال پر سیاست
کا بازارگرم کیا گیاہے، جو کسی نہ کسی عنوان سے کہیں نہ کہیں پر سیاست کرنے
والوں کے لئے تقویت پہنچانے کا سبب تو بن رہا ہوگا لیکن عوام الناس کیلئے
سوہان روح سے کچھ کم نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ریاست کے اندر گزشتہ28برسوں
سے کالا قانون افسپا نافذ ہے، جس کے توسط سیقابض فورسزاداروں کو قانون
کاتحفظ حاصل ہے ۔مگر اسکے ناجائز استعمال کے سبب عالمی سطح پرمثبت فکر
حلقوں کی جانب سے، اسکے نفاذ کو حقوق انسانی کی بدترین پامالی قرار دیا جا
رہا ہے۔دہلی میں دائیں بازو کے اتحاد کی حکومت برسراقتدار آنے کے بعد میڈیا
کے ایک حلقے،بھارتی حکومت کی بھر پور حمایت حاصل ہے، کی طرف سے کشمیر اور
کشمیر کی سیاست و سیاسی تاریخ کے حوالے سے جو بھر پور مہم منفی شروع کی گئی
ہے اُس نے ظاہری طور پر اپنے اثر دکھانا شروع کر دیئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ
انسانی حقوق کی پامالیوں کی حمایت میں کھلم کھلا سامنے آنے کی ایک روایت ہر
گزرنے والے دن کے ساتھ شدت اختیار کر رہی ہے۔ افسوسناک امریہ ہے کہ ان
بھارتی ٹی وی چینلوں کے مباحثوں میں ایسے افراد بھی پیش پیش ہوتے ہیں، جن
کے خلاف کشمیر کے اندر قتل و غارت اور حقوق انسانی کی پامالیوں کی رپورٹیں
ابھی بھی متعلقہ تھانوں میں درج ہیں، لیکن افسپا کی آڑ میں وہ بچ نکلنے میں
کامیاب ہوگئے ہیں۔گزشتہ چند مہینوں کے دوران پتھراؤ کی آڑ میں شہری ہلاکتوں
کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اُسکا کوئی قانونی جواز نہیں اور اگر ایسا ہوتا
توبھارت کی دیگر ریاستوں میں ایسے واقعات پیش آنے پر بندوقوں کے دہانے کیوں
نہیں کھل جاتے؟ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے چند رو ز قبل ہی بھارت کی کئی
شمالی ریاستوں میں ایک متنازعہ فلم پدماوت ریلیز کئے جانے کے خلاف احتجاج
کے دوران نہ صرف گاڑیوں اور املاک کو نذر آتش کر دیا گیا بلکہ پولیس پر
پتھراؤ کے شدید واقعات رونما ہوئے لیکن کہیں پر ایسی کوئی کارروائی نہیں کی
گئی جو بات بات پر کشمیر کے طول و عرض میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ کشمیر میں
موجود صورتحال کے دوران پیش آنے والے واقعات کو اس کے تاریخی تناظر میں
دیکھ کر اس کاسدباب کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اسے فقط سیکورٹی کے نکتہ نگاہ سے
دیکھنے کی کوشش کی جائے تو ظاہر بات ہے کہ اُن عناصر اور حلقوں کی تجوریاں
بھرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے، جن کے سیاسی و اقتصادی مفادات خون خرابہ کی
صورتحال س جڑے ہوتے ہیں۔ بھارت دنیا کے بڑے جمہوری ممالک میں شمار ہو نے کا
دعوی کرتاہے، لہٰذا جمہوری اصولوں کا اطلاق اس کے شایاں شان نہیں۔ ابھی چند
روز قبل ہی بھارت نے اپنا یوم جمہوریہ منایا ہے جس کے دوران بھی مقبوضہ
کشمیر کے عوام کو یرغمال بنا دیا گیا۔ انسانی حقوق روز پامال کئے جاتے
ہیں۔بھلے ہی خون خرابے کی صورتحال سے فی الوقت بھارتی اور ریاستی حکمران
حلقوں کے مفادات کی آبیاری ہوتی ہو لیکن طویل المدتی سطح پر یہ بھارتی
جمہوریت کے مفاد میں نہیں ہے۔ مقبوضہ ریاست کی برسراقتدار حکومت کی اکائی
پی ڈی پی اس حوالے سے ایک واضح اور قطعی موقف اختیار نہ کر سکی۔ نیشنل
کانفرنس کے دور میں بھی صرف اقتدار کی خاطر عوام کو قربان کیا جاتا رہا ہے۔
اب پی ڈی پی بھی اس سے کئی قدم آگے نکل گئی ہے۔بھارتی میڈیا پر بھی انتہا
پسندوں کا قبضہ ہے۔ جو بھارتی فوج کو کشمیریوں کو قتل عام کرنے کی کھلی
چھوٹ دینے کی وکالت کرتے ہیں۔ ان کے سامنے کشمیری عوام کیڑے مکوڑے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں قتل عام میں شدت آنے کے باوجود انسانی حقوق کی عالمی
دعویدار بھی خاموش تماشائی بنے ہیں۔ دنیا کو بھارت کی اس کالونی کی طرف بھی
توجہ دینی چاہیئے۔
|