بسم اﷲ الرحمن الرحیم
تحریر : کاشف ظہیر کمبوہ
پاکستان اور اِنڈونیشیا کے تعلقات تاریخی طور پر برادرانہ اور دوستانہ
بنیاد پر قائم ہیں۔انڈونیشیا نے 17اگست 1945 کو آزادی کا اعلان کر دیا لیکن
اقوام متحدہ اور دوسرے مغربی ممالک نے انڈونیشیا کو آزادی ملک کے طور پر 27
دسمبر1949 کو مان لیا۔ پاکستان اور انڈونیشیا کے تعلقات آزادی سے بھی پہلے
کے ہیں۔قائدِ اعظم محمد علی جناح انڈونیشیا کی آزادی کے حوالے سے بہت
فکرمند تھے۔آپ نے بارہا انڈونیشیا کی آزادی کے لیے آواز بلند کی۔
1945میں قائدِ اعظم نے برٹش آرمی میں موجود مسلمانوں کو انڈونیشیا کے فریڈم
فائٹرز کے ساتھ مل کر لڑنے کو کہا۔600 سے زائد مسلمانوں نے انڈونیشا کی
آزادی کی جنگ میں حصہ لیا۔500شہید ہوئے جبکہ 100 واپس آگئے۔17اگست1995 میں
پچاس سالہ تقریبات میں ان پاکستانی مسلمانوں کوخصوصاً انڈونیشیا بُلایاگیا
اور جنگ آزادی کے ہیرو کے ایوارڈ دیئے گئے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی
خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے انڈونیشیا نے اپنے سب سے بڑیسِول
ایوارڈ سے آپ کو نوازا۔پاکستان کی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت ساو?تھ ایشیا
میں بنیادی مقام کی حامل ہے۔بالکل اِسی طرح انڈونیشیاء کی جغرافیائی حیثیت
جنوب مغربی ایشیاء میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔انڈونیشیاء جنوب مغربی ایشیاء
کا ایک جزیرہ نما ملک ہے۔جس کے جزائر کی تعداد تقریباً 17500ہے۔اس کی آبادی
26کروڑ سے زائد ہے۔آبادی کے لحاظ سے یہ مسلم دُنیا کا سب سے بڑا اور دُنیا
کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ قدرتی وسائل میں قدرتی گیس،سونا، تانبا اور پام آئل
شامل ہیں۔OIC، UNO، ASEAN، کا ایکٹیو ممبر ہے۔انڈونیشیا کا جزیرہ بالی دنیا
کی خوبصورت اور پُر کشش جگہ ہے۔دفاع کے شعبہ میں پاکستان اور انڈونیشاء کے
تعلقات مثالی ہیں۔اِس کی سب سے بڑی مثال 1965 کی جنگ ہے۔جب انڈونیشیاء نے
پاکستان سے رابطہ کیا اور ہر طرح کی مدد پہنچانے کی پیشکش کی۔یہاں تک کہ
انڈونیشیاء نے نکوبار اور انڈمان کے جزیروں کا گھیراو? کرنے کی تجاویز بھی
دی تاکہ بھارت کی توجہ کشمیر سے ہٹائی جا سکے۔2005 میں انڈونیشیاء میں
سونامی نے تباہی مچائی اور بہت نقصان ہوا۔پاکستان اِن پہلے ممالک میں شامل
تھا جس نے انڈونیشیاء کی مدد کی۔امدادی سامان پہنچایا گیا.زراعت، تجارت،
دفاع اور سیاحت میں دونوں ممالک کے اچھے تعلقات ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ
تعلقات مزید بہتر سے بہترین کی طرف گامزن ہیں۔ انڈونیشیاء کی برآمدات میں
پام آئل، پٹرولیم، ٹیکسٹائل اور الیکٹرونکس کا سامان شامل ہے۔پاکستان اور
انڈونیشیاء کی تجارت 2010 میں 700بلین ڈالر تھی۔2012 میں پاکستان اور
انڈونیشیاء نے تجارت کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔جس کے بعد دونوں ممالک کی
تجارت 2.5 ملین ڈالر سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔اِس معاہدیکے مطابق انڈونیشیاء
نے پاکستان کو 223 اشیاء ٹیرف لائن پر برآمد کرنے کی اجازت دی جس میں 103
اشیاء پر زیرو ٹیرف تھا۔جبکہ پاکستان انڈونیشیاء کو ٹیرف لائن پر اشیاء
برآمد کرنے کی اجازت دے چکا ہے۔صدر جو کو وڈوڈوکے 25 جنوری 2018 کے حالیہ
دورہ کے دوران باہمی تجارت کے مختلف معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔اُمید کی
جاتی ہے کہ آنے والے دِنوں میں پاکستان اور انڈونیشیاء کا تجارتی حجم مزید
بڑھے گا۔ابھی تک تجارتی معاملات میں برآمدات کا جھکاو? انڈونیشیاء کی طرف
ہے۔اِس کی بنیادی وجہ پاکستان کی طرف سے برآمد کی جانے والی زیادہ تر اشیاء
خام مال پر مشتمل ہے۔پاکستان کی طرف سے انڈونیشیاء کو برآمد کی جانے والی
اشیاء میں کاٹن، کینو، مچھلی، ٹیکسٹائل مصنوعات، جراحی کے آلات، چاول، گندم
اور قالین شامل ہیں۔ضرورت اِ س اَمر کی ہے برادر مُلک کیساتھ ٹیکنالوجی اور
سائنس کے شعبہ میں تعلقات بڑھائے جائیں تاکہ پاکستان خام مال کی جگہ فِنش
پروڈکٹس (Finish Products) ایکسپورٹ کر سکے۔صدر ایوب کے دور میں پاکستان
اور انڈونیشیاء میں معاہدہ کیا گیا جس کے مطابق پاکستان نے انڈونیشیاء کے
طالبِ علموں کو پاکستان یونیورسٹیز میں داخلہ دیا۔68-1967 میں شعبہ ابلاغ
میں تعلقات بڑھانے پر بھی معاہدہ کیا گیا۔ انڈونیشیاء کی شرح تعلیم 91فیصد
سے زائد ہے۔ جبکہ پاکستان بمشکل 58فیصد کا حدف پورا کر پا یا ہے۔تعلیم کے
شعبہ میں انڈونیشیاء سے تعلقات بڑھا کر پاکستان کے تعلیمی شعبہ میں نمایاں
بہتری لائی جا سکتی ہے۔۔پاکستان نے انڈونیشیاء کو جے ایف 17 تھنڈر مشترکہ
مینوفیکچرنگ کی دعوت بھی دی ہے۔انڈونیشیاء کے صدر کے حالیہ دورہ پاکستان کے
دوران اِن کو JF-17تھنڈر سے متعلق بریفنگ دی گئی اوراِس کی ٹیکنالوجی کے
بارے میں آگاہ کیا گیا۔پاکستان کی طرح انڈونیشیاء کی خارجہ پالیسی میں
مُسلم دنیا کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔اِس کا اندازہ پاکستان کی پارلیمنٹ
سے صدر جوکو وڈوڈو کی تقریر سے لگایا جاسکتا ہے۔جس میں انہوں نے اِس بات کی
نشاندہی کی کہ دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ مُسلم ممالک ہیں۔ انڈونیشیاء
واحد مُلک ہے جس کے ساتھ پاکستان کے سیاسی، تجارتی، مذہبی اور سماجی تعلقات
موجود ہیں۔یہی وجہ ہے کہ 2014 کے بی بی سی کے سروے کے مطابق پاکستان کو
انڈونیشیاء میں سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔اس سروے کے مطابق دُنیا میں
سب سے زیادہ انڈونیشیاء کے لوگ پاکستان کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں- |