محبت کی اس جنگ سے عوام ہوئے تنگ

محبت ہر جگہ اپنی جگہ بنا لیتی ہے اور وہ کسی سے بھی ہو سکتی ہے اور کبھی بھی ہو سکتی ہے اور اگر وہ کسی سیاسی لیڈر سے ہو جائے تو پھر ایک ہی ہونا چاہیے اور اگر لیڈر دو یا اس سے زیادہ ہوں تو ان کی آپس کی رقابت عوام تک پہنچ جاتی ہے اور اس محبت میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہوجاتی ہے جو کسی حد تک بھی جا سکتی ہے اور پھر وہ محاورہ بڑی بے دردی سےاسے استعمال ہونے لگتا ہے کہ " محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے" اور یہ ناجائز حد تک جائز ہونے لگتا ہے اور یہاں تو جنگ اور محبت دونوں بیک وقت جاری اور اخلاق سے عاری اور عوام پر بھاری اور پریشان کاروباری اور سیاست میں تو سب ہیں مفاہمت کے مداری اور میڈیا کی توجہ اُن پر ساری کی ساری اور ایک مزہبی کزن اور ایک خوبصورت کھلاڑی اور ایک الفاظ کا سگاری اور ایک معصوم کاروباری تو ایک زر کا بھاری اور کچھ بیچارے اناڑی مگر پیچھے ہاتھ بھاری کچھ کی آواز مدھم اور کچھ کی ذرا کراری اور کسی کے پاس مرسڈیز اور کسی کے پاس فراری اور عوام کا علاج سرکاری اور سُنے کوئی نہ ہماری کیا کرے عوام بیچاری

اور وردی کا رنگ خاکی اور خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری اور نہ ناری اور وقت کے حساب سے بدلتی اُس کی سواری اور جو محبت ہوتی ہے ووٹر کی یا کارکن کی تو یہ کہا جا سکتا ہے کو کسی شاعر کا کہا ہے
زمانے پر بھروسہ کرنے والو
بھروسے کا زمانہ جا رہا ہے
تیرے چہرے میں ایسا کیاہے آخر
جسے برسوں سے دیکھا جا رہا ہے

بات کچھ بھی ہو سیاست میں محبت ہو یا محبت میں سیاست دیکھنا یہ ہو گا کہ کہاں کھڑی ہے ریاست اور ریاست کی صدارت عوام کے پاس ہونا چاہیے اور عوام کو ہی اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق ہونا چاہیے اور امن وامان کی ذمہ داری اور سرحدوں کی حفاظت وہی کرسکتا ہے جس نے کر کے دکھایا ہے اور عوام کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ اپنی سوچ پر کس کو سوار کر رہے ہیں اور برسرِ اقتدار کر رہے ہیں اور کس سے پیار کررہے ہیں اور کس سے کاروبار کرہے ہیں اور ان کے لیے اسمبلی میں بیٹھ کر کون سوچ بچار کرتے ہیں اور کون ان ہی پر وار کرتے ہیں اور کون اس پیارے ملک سے پیار کرتے ہیں -

انصاف کا کردار ادا کرنے والے انصاف کا کردار ادا کر رہے ہیں اور عوام تک سستا انصاف پہنچ رہا ہے ؟نظریہ ضرورت کی ضرورت تو نہیں رہی جس سے وکیلوں کی مہم میں اجتماعی توبہ کی گئ تھی اور ریاست ماں کے جیسی نہ سہی کم از کم باپ کے جیسے ہوی ہے ؟ ان سوالوں کے جواب بھی عوام نے ہی ڈھونڈنے ہیں

اور آج کل جس کا دل چاہتا ہے دروازہ کھٹکھٹا دیتا ہے عدالت کا جیسے دستک دے کر بھاگنے کا انداز بچپن کی شرارت کا اور اقبال کا کتنا خوبصورت شعر اور منہ بولتا ثبوت ان کی فہم و فراست کا

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جاے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

اب اس شعر کا بھی کیسا غلط استعمال کچھ اس طرح ہوا ہے کہ عدالت پر ہو ہاتھ کسی کی شجاعت کا اور کسی کو ہٹا کر لیا جائے کام کسی اور سے امامت کا اور ماضی میں یہ سبق کسی اور کو پڑھا کر کسی اور کو گرا کر کسی اور کو چڑھا کر کسی اور سے امامت کا کام لے کر پھر اُسی امام کو بھکا کر خود امام کے مصلے پر مسلح ہو کر کھڑے ہونا اور کسی اور کا بیرونی حکم مان کر نیا سیاسی مصالحہ بنا کر مُصلح قوم کے فرائض کی انجام دہی اور عوام کا مسئلہ حل کرنے کا دعوہ کیا جاتا رہا ہےاور جس کا خطرہ آج بھی محسوس کیا جاتا ہے اور عوام بیچارے یہ کہنے پر مجبور ہو جایں کہ
میں خیال ہوں کسی اور کا
مجھے سوچتا کوی اور ہے

اب اگر ایسا کچھ دنوں سے نہیں ہورہا ہے تو اس کی حوصلہ افزای ہونی چاہئے اور اگر عوام چل پڑے ہیں اور جمہوریت کے حسن میں کچھ نکھار آرہا ہے اور کچھ منصوبے عوام کے لیے پایہ تکمیل تک پہنچ رہے ہیں اور معیشت کا پہیا دھیرے دھیرے چلنے لگ گیا ہے اور معاشی راہداری سی پیک کی شکل میں چل پڑی ہے اور خدا کے فضل سے اور مسلح اداروں کی کوشش سے امن قائم ہوتا نظر آرہا ہے اور انصاف کی مسند سے عوامی اُمور میں دلچسپی اور عدالت کا انصاف بھی کسی حد تک چل پڑا ہےتو اس کو چلنا چاہیے اور چلنے دینا چاہیے اور مصنوعی طریقے سے دھاڑ کی آواز کو مدھم کرنے اور مخالف قوتوں کو زبردستی منظم کرنے کے بجاے عوام سے ہی ان کی رضا مندی ووٹ کے ذریعہ معلوم کرنے کا تھوڑا سا انتظار کر لینا چاہئے -

اور عوام ادارے اور سیاست دان اگر کسی حد تک ایک بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ اب امریکہ کی سابقہ بے وفایوں اور زبردستی جنگ مسلط کرنے کی پالیسی پر بھروسہ نہیں کرنا ہے اور دہشت گردی کو دوبارہ داخل ہونے نہیں دینا ہے اور گمراہ کن مزہبی انتہا پسندی جو کہ اتنے پیارے سلامتی والے مزہب کی لاعلمی سے پروان چڑھتی ہے جس کو پنپنے نہیں دینا ہے اور فرقہ پرستی کو روکنا ہے اور دوسروں کی جنگ میں نہیں کودنا ہے اور ٹرمپ کی ٹرمپ کارڈ کھیلنے والی کھلنڈری اور بچکانہ اور مستانہ اور جابرانہ زہنیت کو پڑھنا ہے جس نے مسلط کی ہے جنگ اور پی رکھی ہے بھنگ اور اُن کی عوام بھی اُس سے تنگ اور چلنے پر مجبور اپنی اسٹبلشمنٹ کے سنگ بیچارے دُھن میں مگن انگریزی ملنگ اور پاکستانی بڑے دبنگ عوام کو مشترکہ دھرنا نہیں چاہیے اور عام لوگوں کا جینا دشوار کرنا نہیں چاہئے اور میڈیا کو تجاوز بھی حد سے کرنا نہیں چاہیے اور اتنا بھی محبت میں دم بھرنا نہیں چاہیے اور کسی پر اتنا مرنا نہیں چاہیے اور بات واپس محبت پر آچکی ہے اور انسانوں سے محبت ہی کی جا سکتی ہے اور جیسے لیڈر سے عوام کرتے ہیں ایسے اگر لیڈر عوام سے کرنے لگ جایں تو جھگڑا ہی ختم ہو جاتا ہے اور برا بھلا کہنے میں جو مقابلہ ہو رہا ہے اور جس پر شعر یاد آیا -

شکر کیا لب پہ اُس کا نام نہیں
اس سے معقول انتقام نہیں

جب جسے چاہیے برا کہیے
اس سے آسان کوی کام نہیں

اور مخالف جس کو برا بھلا کہا جا رہا ہے وہ یہ کہ سکتا ہے

دل بھی توڑا تو سلیقے سے نہ توڑا تم نے
دشمنی کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں

اور واقعی سیاست کے اور سیاسی بیان بازی کے بھی کچھ آداب ہونے چاہیے اور مقابلہ زبان درازی کی جگہ منصوبہ سازی میں ہونے لگے اور عوام سے محبت کی بازی میں ہونے لگے تو کسی کو کیا اعترازض ہوسکتا ہے اس محبت اور اس جنگ پر جو محبت کی جنگ ہو گی جس میں کوی بھی جیتے فتح
عوام کی ہی ہو گی

‎نَصْرٌ مِّنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ

Noman Baqi Sddiqi
About the Author: Noman Baqi Sddiqi Read More Articles by Noman Baqi Sddiqi: 28 Articles with 27104 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.