مسئلہ یہ ہے کہ پارلیمانی نظام میں منتظمہ بنانے کا حق
ایک فرد کو نہیں اکثریت رکھنے والی پارٹی کو دیا جاتا ہے اسی لیے حکومت کسی
فرد کو نہیں بلکہ پوری کابینہ کو کہا جاتا ہے، جس کا سربراہ چیف ایگزیکٹو
کہلاتا ہے۔ مگر اسے فیصلہ کرنے کا صوابدیدی اختيار نہیں ۔ آسان الفاظ میں
اسے چیف منسٹر یا پرائم منسٹر کہا جاتا ہے۔
پرویز مشرف کی صدارت میں ظفراللہ جمالی، چودھری شجاعت، شوکت عزیز وزیراعظم
بنے۔ مگر ایک پارٹی کی حکومت نے مدت پوری کی آصف زدراری کے دور صدارت میں
یوسف رضا اور پرویزاشرف وزیر اعظم رہے مگر ایک پارٹی کی حکومت نے مدت پوری
کی ممنون حسین کی صدارت میں ایک پارٹی کی حکومت اپنی مدت پوری کر رہی ہی۔
صرف وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے والا چہرہ بدلا ہے۔ نیا چہرہ بھی پرانے
چہرے کا صوابدیدی انتخاب ہے۔ کابینہ کا چیف نہ کہلا کر سکون نہیں مل رہا
حالانکہ نوازشریف ہی چیف کا چیف ہے۔ شائد پریشانی یہ ہوگی کہ سیاسی پارٹی
کے چیف کیلئے ریاستی ادارے کے چیف کو اپنا ماتحت کہنا ممکن نہیں ۔ اس مسئلہ
کے حل کیلئے پارلیمنٹ سے بل پاس کرانا نون کیلئے مشکل نہیں مگر چیف جسٹس سے
منسوخی کا انہیں یقین ہے۔
آئین میں ”چیف“ کا اردو متبادل استعمال کیا ہوتا تو نون والے اپنی چادر کے
مطابق پاؤں پھیلاتے۔ |