ٹرمپ اسلام اور پاکستان کا بد ترین دشمن

نام نہاد سپر پاور امریکہ ہمیشہ خود کوایک فلاحی ریاست ظاہر کرتا آیا ہے مگر جس معاشرے میں سماجی عدم تحفظ ہو، وہاں کی روحانی اور اخلاقی قدریں کمزورہو جاتی ہیں۔ امریکہ میں جہاں ایک طرف سیاست پیسہ کمانے کا ذریعہ نہیں وہاں دوسری طرف ہر خاص و عام کی تمیز کیے بنا بنیادی حقوق فراہم کیے جاتے ہیں۔جہاں ایک طرف بے زبانوں کے لیئے بھی آواز بلند کی جاتی ہے، وہاں دوسری طرف سوشل سکیورٹی نہ ہونے کے برابر ہے جس کے سبب ملک کا نائب صدر بھی بیٹے کے علاج کیلئے اپنی جائیداد فروخت کرنے پر مجبور ہے ۔ امریکہ میں خاندان کا تصور تقریبا خاتمے کے قریب ہے۔

نئی نسل صرف ریاست کی ذمہ داری ہے لبرل ازم کے تصور نے والدین اور اولاد کا حقیقی رشتہ تقریبا ختم کردیا ہے رشتوں کا احترام اسطرح نہیں ملتا جس طرح ایشیائی ممالک میں ملتا ہے۔وہ معاشرہ جہاں آپ اس وقت تک قابل قبول ہوتے ہیں جب تک آپ ایک مستعد شہری کے طور پر اپنی زندگی گزارسکتے ہیں بعدازاں جس طرح بے کار پرزوں کو کباڑ میں پھینک دیا جاتا ہے اسی طرح ایجڈ ہونے کے بعد شہریوں کو اولڈ ہوم میں منتقل کردیا جاتا ہے اور اسکے بعدچاہے زندگی سہل بنانے کے لیے ہزار سہولیات دی جائیں لیکن یہ غم کا متبادل نہیں ہوسکتا اوریہ غم ہمیشہ کے لیے ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ کم عمری میں ہی بچے ڈرگس کی طرف مال ہونے لگتے ہیں اور جنسی جرائم کاگراف کافی بلند نظر آنے لگتا ہے۔ میڈیا معاشرے میں جنسی ہیجان پیدا کرنے کا ایک اہم سبب ہے تھرلر کا شوقین پڑھا لکھا طبقہ بھی اس میں شامل نظر آئے گا الغرض آپ کہا جا سکتا ہے کہ بظاہر ترقی یافتہ اور مضبوط نظر آنے والا ملک اندر سے اخلاقی گراوٹ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

امریکی معاشرے کی روحانی اقدار پر سب سے کاری ضرب امریکی نیو ورلڈ آڈر کے عہد میں لگی جس میں امریکہ نے دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر کرہ ارض کے تمام انسانوں کی قسمت کے فیصلے خود کئے۔ا س عہد میں مسلم دنیا کو دشمن قرار دے کر مصنوعی بدامنی اور انتشار کو فروغ دیا گیاجس کی وجہ سے امریکی اور مغربی معاشروں میں تعصب اور تنگ نظری کی جڑی مضبوط ہوگئیں اور یہ معاشرے اندر سے کھوکھلے ہوتے چلے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین اور مشرق کے دیگر ممالک کی ابھرتی ہوئی معیشتوں نے مغربی معیشتوں میں مقابلے کی صلاحیت کم کر دی۔ تعصب، تنگ نظری نے مزید صورت حال خراب کر دی ہے۔اس پس منظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب اور بحیثیت صدر پہلے خطاب کے خلاف شدید عوامی ردعمل دیکھنے میں آیاہے۔ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ منتخب امریکی صدر کی حلف برداری کے موقع پر امریکہ کے مختلف شہروں کے ساتھ ساتھ برطانیہ، کینیڈا، جاپان، جرمنی اور فلسطین میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ لاکھوں امریکی خواتین نے زبردست مظاہرہ کیا جس میں صدر ٹرمپ کی متنازع پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ حلف برداری کے موقع پر امریکہ سمیت دنیا بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع ترین صدر ہونے کا تاثر پختہ کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ دنیا سے اسلامی دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ ٹرمپ کی اس بات سے پوری دنیا کے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔ وہ پہلے امریکی صدر ہیں، جنہوں نے اسلامی دہشت گردی کی یہ نئی اصطلاح استعمال کی ہے حالانکہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب یا قوم نہیں ہوتی۔ صدر ٹرمپ نے اس تاثر کو درست ثابت کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں۔ صدر ٹرمپ نے پہلے امریکہ کا نعرہ بھی لگایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ امریکیوں کو نوکریاں دی جائیں اور امریکی مصنوعات خریدی جائیں۔ اس طرح انہوں نے تارکین وطن کے خلاف امریکی قوم پرستی مہم شروع کر دی ہے۔ جس سے تنگ نظر نسل پرستی کا تاثر مل رہا ہے۔ دنیا میں ٹرمپ کے سبب عالمی امن کیلئے خدشات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

تقریب حلف برداری میں صرف عیسائی پادریوں کی شرکت بھی ٹرمپ کی اسلام دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ واشنگٹن کے کیپٹل ہل میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر امریکہ منقسم نظر آیاہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ دنیا کو ایک بار پھر جنگوں کے ذریعے فتح کرنا چاہتے ہیں۔سب سے پہلے امریکہ کا نعرہ لگا کر انہوں نے امریکی قوم پرستی کی آڑ میں تنگ نظر نسل پرستی کو رائج کر دیا ہے اور یہ باور بھی کرا دیا ہے کہ امریکہ دیگر ابھرتی ہوئی مشرقی معیشتوں کی وجہ سے دفاعی پوزیشن پر چلا گیا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ انہوں نے امریکی اسٹیبلشمنٹ پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ اس نے امریکی سرحدوں کی بجائے دوسرے ملکوں کی سرحدوں کی حفاظت کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کی داخلی سلامتی کو وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی نسبت زیادہ بے رحمانہ سامراجی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دنیا میں امریکہ کو پسپائی حاصل ہو رہی ہے۔ان کے اس طرز عمل نے امریکہ میں رہنے والی مختلف قومیتوں کے بیچ ایک واضح تفریق پیدا کردی جس کی بناء پر امریکی عوام کا بھی شدید ردعمل سامنے آیاہے ۔

ایک ایسا معاشرہ جو اپنے ہی سربراہان سے نالاں ہو اور ان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہو، جس معاشرے کی اپنی ہی اخلاقی قدریں اس حد تک گر چکی ہوں کہ سدباب کا کوئی مؤثر حل نہ نظر آتا ہو جہاں ایک خودسر اور نسلی امتیاز رکھنے والا حکمران ہوایسا ملک کسی دوسرے ملک کو اخلاقیات کی تعلیمدے گا تو اوروں کو نصیحت ، خود میاں فضیحت والا محاورہ صادق آئے گا۔حالیہ زینب کیس کو لے کر اکثر یورپی ممالک نے پاکستان کے اندر سیکس ایجوکیشن کو لازمی قرار دے کر اسے رائج کرنے پر زور دیاہے جبکہ وہ خود اسکے منفی نتائج بھگت رہے ہیں۔یہ درست ہے کہ اس حوالے سے ایک باقاعدہ مضبوط لائحہ عمل اپنانے اور اسے رائج کرنے کی ضرورت ہے لیکن پھر بھی ہم اپنے معاشرے کو مغربیت میں ضم ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
تحریر: ڈاکٹر رابعہ اختر

Dr Rabia Akhtar
About the Author: Dr Rabia Akhtar Read More Articles by Dr Rabia Akhtar: 17 Articles with 11631 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.