محترمہ تاشیانہ شمتالی ۔
شعبۂ اردو ۔ اسٹیٹ کالج ۔ ماریشس
علّامہ محمد اقبالؔ ۔ حیات و خدمات
(۱۸۷۷ء ۔ ۱۹۳۸ء)
اقبالؔ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں ۱۸۷۷ء میں پیدا ہوئے ۔ ان کا خاندان
کشمیری برہمنوں کا خاندان تھا۔ ان کے جدِ اعلیٰ دو سو سال قبل اسلام قبول
کر چکے تھے اور صلاۃ و تقویٰ کا رنگ خاندان میں قائم رہا۔ خود اقبالؔ کے
والد ایک صوفی منش انسان تھے۔
اقبال ؔ کی انگریزی تعلیم اپنے شہر کے اسکول میں ہوئی جہاں کا امتحان
امتیاز سے پاس کر کے وہ شہر کے کالج میں پڑھنے لگے۔ وہاں سید میر حسن جیسے
کامل استاد سے سابقہ پڑا جو اپنے تلامذہ میں اپنا رنگ اور علمی ذوق پیدا کر
دینے میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ اقبالؔ بھی ان سے متاثر ہو کر علومِ اسلامیہ
کی طرف متوجہ ہوئے اور آخر عمر تک ان کا احسان نہ بھلا سکے۔
سیالکوٹ سے لاہور جاکر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور فلسفہ ، عربی
اور انگریزی مضامین اختیار کر کے بی۔ اے کی سند لی۔ وہیں مسٹر آرنلڈ اور سر
شیخ عبد القادر ( مدیرِ مخزن) سے متعارف ہوئے۔ ۱۹۰۱ء میں اقبالؔ کی نظم
’’چاند‘‘ اور دوسری نظمیں ’’ مخزن ‘‘ میں شائع ہوئیں جو ادبی حلقوں میں ایک
نئی آواز سمجھی گئیں اور اس نوجوان شاعر کی طرف تحسین کی نگاہیں اٹھنے
لگیں۔
اسی عرصے میں اقبالؔ نے فلسفہ میں امتیاز کے ساتھ ایم ۔اے کیا۔ نیز تاریخ ،
فلسفہ اور سیاسیات کے لکچرر کی حیثیت سے اورینٹل کالج لاہور میں ان کا تقرر
ہوا۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج میں فلسفہ اور انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔
وہاں پر طلباء اور اساتذہ نے ان کی علمیت و فضیلت کا لوہا مان لیا اور
انہوں نے محکمہء تعلیم کے ذمہ داروں کا اعتماد حاصل کیا۔
۱۹۰۵ء میں اقبال کیمبرج میں داخل ہوئے اور فلسفہ و معاشیات کی امتیازی
ڈگریاں پا کر تین سال تک لندن میں قیام پزیر رہے۔ دریں اثنا، اسلامی
موضوعات پر خطبات و مقالات کا سلسلہ بھی جاری رہا جس سے ان کی شہرت و
مقبولیت علمی حلقوں میں پھیل گئی۔ اسی مدّت میں پروفیسر آرنلڈ کی غیر
موجودگی میں لندن یونیورسٹی کے شعبہء عربی میں تدریسی فرائض سر انجام دئے
اور Munich جا کر فلسفہ میں ڈاکٹریت (PhD degree) حاصل کی۔ بعد ازاں لندن آ
کر قانون کا اعلیٰ امتحان پاس کر کے کامرس کالج لندن میں استاد ہوگئے۔
پھر سیاسیات و اقتصادیات میں امتیاز پیدا کرنے کے بعد ۱۹۰۸ء میں اپنا وطن
لوٹ آئے
رو لے اب دل کھول کر اے دیدۂ خونا بہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیبِ حجازی کا مزار
یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ جن امتیازات کا پہلے ذکر کیا
گیا ہے، یہ سارے امتیازات اقبالؔ کو ۳۲ یا ۳۳ سال کی عمر میں حاصل ہوا۔
واپسی پر دوستوں اور قدر دانوں نے ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا اور
اقبالؔ نے وکالت شروع کی۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ان کے اکثر اوقات غور و فکر
، تصنیف اور سخن سنجی میں صرف ہوتے تھے۔
علاوہ ازیں اقبالؔ انجمنِ حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسوں میں پابندی کے ساتھ
شرکت فرماتے تھے۔ ان ہی دنوں انہوں نے چند مشہور و مقبول نظمیں قلم بند
کیں۔ مثلاً ’’ شکوہ‘‘، ’’جوابِ شکوہ‘‘ ، ’’ترانہء ہندی ‘‘ اور ’’ترانہء
ملّی‘‘۔
پھر اس کے بعد ۱۹۱۴ء میں جب یورپ میں جنگِ عظیم کا لاوا پھوٹا اور عالمِ
اسلام پر جو حالات و حوادث گزرے انہوں نے ان کو درد مند شاعر ، مجاہد داعی
، فلسفی، حکیم اور دیدہ ور مبصر بنا دیا جو حالات سے مستقبل کا اندازہ کر
لیتا اور پیشن گوئی کرتا اور حقائق کو نظم کا لباس پہناتا ، اپنی آتش نوائی
اور شعلہ نفسی سے ایمان و یقین ، خودی اور بے جگری کی آگ بھڑکاتا ہے۔
اس زمانے میں ان کے سینے کا جوش ، دل کا فیضان اور طبیعت کا سیلان اپنے
عروج پر تھا۔ اس وقت انہوں نے جو نظمیں کہیں ، ان میں ’’ خضرِ راہ ‘‘ گل
سرسبو کا حکم رکھتی ہے جس کا ہر بند شعر و ادب ، دروں بینی اور حقیقت شناسی
کا شاہکار ہے لیکن ’’طلوعِ اسلام ‘‘ بین الغزل کا حکم رکھتا ہے جس کی مثال
اسلامی ادب میں مشکل سے کہیں اور مل سکے گی۔
۱۹۲۴ء میں ’’بانگِ درا ‘‘ منظرِ عام پر آیا اور اب تک اردو زبان و ادب کی
افق پر اس کا ستاروہ غروب نہیں ہوا۔ اس کی اشاعت کے بعد کا دور ان کی وفات
تک فکری پختگی اور دائرۂ علم کی وسعت و بے کرانی کے لئے مشہور ہے۔ اسی دور
میں ان کا نصب العین اور دعوت و پیغام میں وضاحت و قطعیت پیدا ہوئی اور ان
کا فارسی مجموعہء کلام بھی سامنے آیا۔
البتہ یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اقبالؔ نے فارسی کو اپنے اظہارِ خیال کے
لئے ترجیح دی کیونکہ اردو کے مقابلے میں اس کا دائرہ وسیع تھا اور عربی کے
بعد عالمِ اسلام کی وہ دوسری زبان کا درجہ رکھتی تھی۔
اس دور میں ان کے اردو مجموعوں کے علاوہ فارسی زبان میں ان کی مندرجہ ذیل
کتابیں شائع ہوئیں:
﴾ اسرارِ خودی
﴾ رموزِ بے خودی
﴾ پیامِ مشرق
﴾ زبورِ عجم
﴾ پس چہ باید کرد
﴾ مسافر
﴾ The Development of Methaphysics in Persia
بعد ازاں ’’مدراس لکچرز ‘‘ اور ’’کیمبرج لکچر‘‘ شائع ہوئے جن پر اہلِ ادب
اور اربابِ مذہب و فلسفہ نے یکساں طور پر توجہ کی اور ہاتھوں ہاتھ لیا۔
متعدد زبانوں میں ان کے تراجم ہوئے۔ ۱۹۳۰ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے
اجلاس کے خطبہء صدارت میں انہوں نے پہلی مرتبہ پاکستان کا نظریہ پیش کیا
اور پنجاب کے مجلسِ قانون ساز کے ممبر منتخب ہوئے۔
۳۱۔ ۱۹۳۰ء کی گول میز کانفرنس میں اقبالؔ نے مسلمانوں کی نمائندگی کی۔
اقبالؔ ایک مدّت تک طرح طرح کے امراض و عوارض کے شکار رہے ہیں لیکن اس حال
میں بھی شعر گوئی ، تصانیف اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ مزید برآں ان
دنوں کے مشاغل میں قومیت کے نظریے کی تردید ان کی تحریروں کا نہایت ہی
نمایاں حصّہ رہا۔ آخرکار ان کی صحت نے جواب دے دیا اور وہ صاحبِ فرش ہو
گئے۔
کہا جا تا ہے کہ اپنی وفات سے دس منٹ پہلے اقبالؔ نے وہ قطعہ کہا جو شوق و
حسرت کا بیان اور ان کی زندگی کی ترجمان ہے
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید !
سر آمد روزگارِ ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید!
الغرض اقبالؔ نے اپنے بوڑھے وفادار خادم کی گود میں آخری سانس لی اور عالمِ
اسلامی میں پھیلے ہوئے دوستوں ، شاگردوں اور قدردانوں سے منہ موڑ کر دین و
ادب کا آفتابِ عظمت و اقبال جس نے دلوں کو حرکت و حرارت ، روشنی اور گرمی
عطا کی تھی، ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کا سورج نکلنے سے پہلے غروب ہو گیا۔
اقبالؔ نے تین شادیاں کی تھیں لیکن ان کی ازدواجی زندگی زیادہ خوش گوار
نہیں رہی اور اس کا ایک سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کی مالی حالت کبھی بہت
اچھی نہیں رہی۔
۱۰ جنوری ۱۹۳۷ء کو اقبالؔ کو نزلہ ہوا جو انفلوئنزا میں تبدیل ہو گیا۔ پھر
آواز بیٹھ گئی ۔ نیز دل کا عارضہ بھی ہو گیا۔ مرض بڑھتا گیا ۔ بالآخر ۲۱
اپریل ۱۹۳۸ء کو اقبالؔ دائیِ اجل کو لبیک کہہ گئے۔
|