آ ج امت مسلمہ ظلم وبربریت کا شکار ہے ،مسلمانوں کی آہیں
اورسسکیاں چاراطراف سنی جاسکتی ہیں ،دہشت گردی سے متاثر امت مسلمہ کو دہشت
گرد اورناپسندیدہ قوم قرار دینے کی سازشیں کی جارہی ہیں ،صہیونی سامراجی
قوتیں متحد ہوکر مسلمانوں کی شناخت ختم کرنے کے درپے ہیں ہمسایہ ملک انڈیا
میں گائے ماتا کے نام پر معصوم نہتے مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے آج
ہماری آواز نقار خانے میں طوطی کی صدائے بے گوش بن چکی ہے ہم اپنے آبا ء کے
کارنامے بھلاچکے ہیں باہمی نفرت اورانارکی کی آگ میں جھلس رہے ہیں کئی
دہائیوں تک مذہبی منافرت نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کیے رکھا اب سیاسی
انتہاپسندی کے سحر نے ہمیں ایک دوسرے کا مخالف بنا دیا ہے ہونا یہ چاہیے
تھا کہ ہم اپنے آباء کی طرح بہادر اورعلم دوست ہوتے مگرافسوس ہم جہالت
اورظلمت کی چادر لیے تھکاوٹ اورگراوٹ کے بستر پر ندامت کی نیند سورہے ہیں
مایوسی جیسے کفر سے تعبیر کیا جاتا ہے ہمارے خیالات پر قابض ہوچکی ہے دورِ
حاضر کا مسلمان کسی معجزے کا منتظر ہے کہ کوئی مہدی برحق یاعیسیٰ ہی آئیگا
تو اس قوم کو نصرت نصیب ہوگی آج کا مسلمان ھادی اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم کی
تہذیب وتمدن کو اپناتے ہوئے گھبراتا ہے ،یہود وہنود کی تہذیب کو پسندیدہ
سمجھ تے ہوئے اختیار کرتا ہے ایسا کیوں ہے ؟ بحثیت قوم ہمیں اس نقطہ
کوسمجھنا ضروری ہے اس کی اثرات کا تعین کرنا ضروری ہے یہ ضروری ہے ہم اپنے
بچوں کواسلام کی روشن اور تاباں تاریخ سے روشناس کروائیں ہمیں بتانا ہوگا
ہم مفتوح تھے آج مغلوب کیوں ہیں؟ہمارے علاقوں اوردماغوں پر حقیقی حکمرانی
اسلام کی تھی آج مغربی افکار کی کیوں ہے ؟سائنس اورٹیکنالوجی میں آج
کامسلمان پیچھے کیوں ہے ؟ ہم اسلحہ خریدتے ہیں بیچتے کیوں نہیں ؟ہم تو یثرب
میں بیٹھ کر قیصر وکسریٰ کی نگرانی کے پاسبان تھے آج صر ف مکہ ومدینہ کی
نگرانی کے لیے پریشان کیوں ہیں؟ ذرا مجھے بتائیے ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ
مفاجات آخر علامہ اقبالؒ نے ضعیفی کو جرم کیوں کہا؟خالق کائنات نے تو ہمیں
حکم دیا تھا کہ ہم اپنے گھوڑے تیار رکھیں ،پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایاتھا’’کمزور مومن سے طاقتور مومن بہتر ہے ‘‘ ہمیں سوچنا ہوگا ہم کس
درجہ کے مومن ہیں ؟
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمیں اپنوں کے لیے ریشم اور غیروں کے لیے فولاد ہونا چاہیے تھا مگر ہم نے
اس کے برعکس عمل کیا ہم اغیار کے لیے ریشم اوراپنوں کے لیے فولاد کی مانند
ہیں یہ ہی بنیادی وجہ ہے ہماری شیرازہ بندی کی ہمیں اپنی سمت درست کرنا
ہوگی راحت اورسکون کی بجائے سخت محنت کام کام اورکام کو اپنا شعار بنانا
ہوگا دیانت داری سے اسلامی اصولوں اپنانا ہوگا اپنے آباء کے نقشِ پا کی
پیروی اور اتباع کرنا ہوگی ادنیٰ کی بجائے اعلیٰ وارفع منزل کا نتخاب کرنا
ہوگا ہمیں وہ تمام علمی ،حلمی اوراخلاقی کمزوریاں دور کرنا ہوں گی،اس کے
علاوہ ہماری حکومت کمزور، اپوزیشن کمزور،ہماری شہرت کمزور ہم مرگِ مفاجات
کا شکار ہورہے ہیں ہم نے مغرب کے دسترخوان کی چچوڑی ہوئی ہڈیوں کو چبانا
اپنا فیشن بنالیا ہے۔ ہمارا کشکول والا ہاتھ ہمیشہ ورلڈ بینک اورآئی ایم
ایف کی طرف اٹھتا ہے۔ بھکاریوں سے بدتر، فقیروں سے کم تر، مغربی ممالک کے
ائیر پورٹوں پر ہمارے جوتے تک اتروالیے جاتے ہیں عام وخاص وزراء مشیران تک
کو نہیں بخشا جاتا اورہم ہیں کہ صہیونیوں کے تلوئے چاٹتے نہیں تھکتے ،ذلت
برمبنی مصالحت نے ہماری خودداری اورغیرت کو یورپ کے بازاروں میں نیلام
کردیا ہے صحیح کہا تھا اقبال نے :
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
اﷲ تعالیٰ نے عالم اسلام کو کیا کچھ ہے نہیں دیا ،جوان ہمارے پاس سب سے
زیادہ ،وسائل ہمارے پاس سب سے زیادہ ،دشمن کے سامنے نعرہ تکبیر کہنے والے
بہادر سپاہی ہمارے پاس زیادہ ،اسلام اوراپنی سرزمین پر زندگی قربان کردینے
والے سپوت ہمارے پاس زیادہ ،گیس اور،آئیل کے ذخائر ہمارے پاس سب سے زیادہ
پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں دنیا ناپسندیدہ قراردینے کے لیے سرگرم ہے قارئین
کرام ہمیں اپنی خودی کو بیدار کرنا ہوگی امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع
کرنا ہوگا سعودی عرب کی موجودہ قیادت اس عمل کے لیے سرگرم نظر آتی ہے جنرل
راحیل شریف کی قیادت میں چالیس مسلم ممالک کی افواج کا ایک پلیٹ فارم پر
جمع ہونا بہت خوش آئند عمل ہے اسلام دشمن قوتیں چاہتی ہیں یہ اتحاد پارہ
پارہ ہوجائے مگر اس مرتبہ ایسا نہیں ہونے دیا جائے گاکیونکہ موجودہ سعودی
قیادت کاعزم غیرمتزلزل ہے جب ارادے پختہ ہوں تب آگ کے دریا بھی پار کیے
جاسکتے ہیں پہاڑوں کی برفانی چوٹیوں پر جھنڈے گاڑے جاسکتے ہیں طلاتم
خیرموجوں کے سینے کو چیرکر دشمن کو شکست فاش دی جاسکتی ہے اﷲ تعالیٰ پر
کامل یقین ہوتو آندھیوں اورطوفانوں کے رخ کوبھی موڑ جاسکتا ہے اور تاریخ
ایسے بہادر اقوام اورانسانوں کو ہمیشہ یادرکھتی ہے بقول شاعر:
یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو
روک لیتے ہیں جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو
قارئین کرام ہماری تاریخ تین سو تیرہ کی تاریخ ہے جس کے متعلق اقبال نے کہا
تھا :
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
کل بھی وہی قوم تھی اور آج بھی وہی.
جو نہیں ہے تو اتحاد نہیں ، ایمان نہیں، یقین نہیں
|