انتخابی دنگل میں بی جے پی چاروں شانے چت

بجٹ کا مہورت بی جے پی کے لیے شبھ نہیں رہا اس لیے کہ بی جے پی کا پانچوں میچ میں صفایا ہوگا اور وہ ؁۲۰۱۸ کی پہلی سیریز بری طرح ہار گئی۔ بنگال میں جو ہوا وہ تو ہونا ہی تھا ۔ بی جے پی لاکھ یہ کہہ کر اپنے آپ کو بہلائے کہ انہوں کمیونسٹوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے مگر ۶۳ ہزار اور ۳ لاکھ ووٹ کا فرق معمولی نہیں ہوتا۔ نوپاڑہ ترنمول نے بی جے پی سے ۳ گنا زیادہ ووٹ حاصل کیے اور فرق بی جے پی کے جملہ ووٹ سے ڈیڑھ گنا ہے۔ اولوبیریا تو خیر مسلمانوں کا علاقہ ہے۔ وہاں پر ترنمول کی امیدوار اور مرحوم سلطان احمد کی بیوہ ساجدہ احمد نے ۲ لاکھ ۹۰ ہزار کے فرق سے کامیابی درج کرائی۔ مسلمانوں کو حاشیے پر بھیجنے والوں نے دیکھ لیا کہ جہاں ان کی طاقت ہوتی ہے وہ کس طرح اپنے مخالفین کو تڑی پار کرتے ہیں۔

بی جے پی کے لیے اصلی خطرے کی گھنٹی راجستھان میں بجی جہاں ۷ ماہ بعد صوبائی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ ؁۲۰۱۳ میں یہاں پر بی جے پی نے ۲۰۰ میں سے ۱۶۳ نشستوں پر کامیابی درج کراکے کانگریس کو ۲۱ پر پہنچا دیا تھا لیکن اس بار منڈل گڑھ سے کانگریس کے وویک دھاکڑ نے تقریباً۱۳ ہزار ووٹ کے زیادہ فرق سے کامیابی حاصل کر کے ثابت کردیا کہ زمانہ بدل گیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے شرم کا مقام ہے کہ ؁۲۰۱۴ میں جہاں اس نے کل ۲۵ میں سے ۲۵ مقامات پر کامیابی حاصل کرکے کانگریس کو جڑ سے اکھاڑ دیا تھا اس بار خود دونوں نشستوں پر ناکام ہوکر بے نام و نشان ہوگئی ۔اجمیر میں کانگریس کے رگھو شرما کو ۳ لاکھ ۴۶ ہزار ووٹ ملے جبکہ بی جے پی کے رام سوروپ لامبا ۲ لاکھ ۷۵ ہزار پر لمبے ہوگئے ۔ اس طرح کانگریس نے ۷۰ ہزار کے فرق سے آگے ہے اور اس کے ووٹ کا تناسب ۷۴ء۵۴ فیصد غیر معمولی ہے۔ الور میں کانگریس کی بڑھت ایک لاکھ چالیس ہزار کو پھلانگ چکی ہے ابھی ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔

اس چمتکار کی گتھی سلجھانے کے لیے گزشتہ تین سالوں کی سیاسی اتھل پتھل کا جائزہ لینا ہوگا۔ بی جے پی دراصل تین ماتاوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ درگا ماتا، گئو ماتا اور ماتا پدماوتی ۔ بنگال میں اس نے درگا ماتا کو رام کرنے لاکھ کوشش کی مگر اس کا آشیرواد ممتا بنرجی کو حاصل رہا ۔ راجستھان میں بی جے پی نے گئوماتا اور ماتا پدماوتی پر انحصار کیا۔ الور میں گئوتنک واد کو لے کر سب سے زیادہ قتل و غاتگری ہوئی۔ پہلو خان کی شہادت کے بعد ان کے سارے ساتھیوں پر گائے کی اسمگلنگ کا مقدمہ ٹھونک کر مجرموں کو چھوڑ دیا گیا۔ ایسی اندھیر نگری کسی اور صوبے میں دیکھنے کو نہیں ملی ۔ پرتاپ گڑھ کے ظفر خان کو قتل کرکے ملزمین کو بری کرنے کے لیے کہہ دیا گیا کہ وہ فطری موت تھی۔ بی جے پی کو توقع تھی کہ غنڈہ گردی کی یہ پشت پناہی اسے ووٹ سے مالامال کر دے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ بھول گئے اس حلقۂ انتخاب میں ۳ لاکھ میو مسلمان رہتے بستے ہیں۔ وہ نہ ڈرتے ہیں اور نہ بکتے ہیں۔

اجمیر کا حلقۂ انتخاب چتوڑ اور بدنامِ زمانہ راجسمند سے قریب تر ہے۔ یہاں پر بی جے پی خود اپنے دام میں پھنس گئی۔ وہ آخر تک راجپوتوں کی خوشنودی کے لیے فلم پدماوت کی مخالفت کرتی رہی لیکن اس کی ریلیز کو روکنے میں ناکام رہی ۔ اس لیے راجپوتوں نے ان کے ساتھ ہونے والے دھوکہ دہی کی سزا دیتے ہوئے بی جے پی کو سبق سکھا دیا ۔ ان انتخابی نتائج پر چنتن کرکے بی جے پی کو آگے کا راستہ طے کرنا پڑے گا۔ اس نے اگر آئندہ انتخاب میں ’سب کا ساتھ اور سب کا وکاس‘ کے نعرے کو چھوڑ کر کاس گنج کی حکمت عملی اختیار کی تو ملک بھر میں اس کا وہی حال ہوگا جو راجستھان میں ہوا ہے۔ ان نتائج سے اس بات کا امکان روشن ہوگیا ہے کہ ارون جیٹلی جی کا یہ آخری بجٹ ہوگا اور آئندہ انہیں اس کی زحمت سے چھٹکارہ مل جائے گا ۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1220556 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.