کچھ روز پہلے محترمہ بینظیربھٹو شہید کا دسواں یوم شہادت
گذرا. میری نسل کی خوشقسمتی کہ ہم نے بینظیربھٹوجیسی بہادرخاتون کی سیاسی
جدوجہد کا کامیاب عروج دیکھا اورپھرہم ہی وہ بدقسمت ٹہرے کہ ایسی جانباز،
ذھانت سے بھرپور، عالمی سیاست کو سمجھنےوالی اورحقیقتا '' چاروں صوبوں کو
موتیوں کی لڑی کی طرح جوڑنےوالی اس عظیم خاتون کولیاقت باغ راولپنڈی میں
ایک سفاک منصوبے کےتحت شہید ہوتے دیکھا انکی شہادت نے اس جگمگ کرتی لڑی کو
توڑڈالا آج چاروں صوبوں میں رہنے والے عوام بری طرح بکھرچکے ہیں اور ایک
دوسرے سے دوراپنی اپنی راگنی بجا رہے ہیں
بینظیربھٹو کی زندگی اور شہادت کے بارے میں ان کی یوم شہادت پربہت کچھ لکھا
جاچکا ہے اور یہ شہید خاتون کا حق تھا
میں جب بھی نامورلکھاریوں کے ایسے آرٹیکل پڑھتی ہوں ضرور سوچتی ہوں کہ آج
آپ بی بی شہید کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں مگر گزری کل آپ کہاں تھے ؟
اور یہ جو ہم "ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم " غزل
کو بینظیر بھٹو شہید سے مخصوص کرتے ہیں تو ماضی میں کیا افتاد تھی کہ ہم اس
جوہرنایاب کو پتھر سمجھتے رہے اور ٹھوکروں میں لیے رہے ؟
آج بہت سے لوگ جو ٹی وی اسکرینز پر موجود ہیں یہی افراد جب اپنے ہاتھوں میں
قلم پکڑے تھےاور بینظیر کی بینظیر جدو جہد کو دیکھ رہے تھے ،کچھ ان میں
نوجوان تھے تو کچھ جوان اورادھیڑ عمر بھی تھے ،زیرک تھے ،جہاندیدہ تھے تب
انکی کیفیت ایسی کیوں نہ تھی ؟ اخبارات میں بینظیر بھٹو کی جدوجہد پرایک
مثبت تو انکے خلاف پانچ منفی مضمون چھپتے مساوات اور امن نامی دو اخبارات
کےعلاوہ تقریبا تمام اردو اخبارات محترمہ کے خلاف مضامین کو جگہ دیتے تھے
خاص طور پر انکی جونیجو حکومت کے دوران واپسی کے بعد تو ایک مکمل مہم تھی
جس میں انپرہر اس شخص سے تعلقات یا شادی کا ٹیگ لگایا گیا جوعوامی رابطہ
مہم میں انکی گاڑی ڈرائیو کرتا تھا
کبھی مخدوم خلیق الزماں توکبھی فیصل صالح حیات سےانکا رشتہ جوڑا جاتا
اس وقت کے ڈیکٹیٹر کے یہ الفاظ بہت سے کالم نگاروں نے کوٹ کیے کہ جوان لڑکی
ہے اس لیے لوگ جلسوں جلوسوں میں دیکھنے چلے آتےہیں
یہ جملہ ضیاالحق کی نام نہاد" اسلامی سوچ " کو تو بتا ہی رہا ہے ان لوگوں
کا سوچیں جوقلم تھام کریا ریاستی ٹی وی پرآکر بھی ایسی فضول گوئی کرتےتھے
کچھ نفرت میں تو کچھ نوکری کے لیے
بینظیربھٹو کی شادی ہوئی تو اکثر لوگوں کی افواہ سازی کو دھچکہ لگا مگر ایک
نیا کھیل ہاتھ لگایہ کہ آصف علی زرداری دیکھنے کی حد تک اس قابل ہرگز نہیں
کہ بینظیربھٹو جیسی حور ان سے شادی کرتیں اس وقت ایک عام تاثر دیا گیا کہ
لڑکا بہت امیر ہے باقی کوئی خاص خوبی نہیں ! جبکہ آج کی سوشل میڈیا نسل یہ
کہتے نہیں تھکتی کہ تانگہ چلانے اور سینما ٹکٹ بلیک کرنے والے نے دولت اور
اختیار ہتیآنے کے لیے بینظیر سے شادی کی
اسی ایک مثال سے غیرمتعصبانہ سوچ رکھنے والے قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ
عوام میں کس طرح بے پر کی اڑائ جاتی رہی
جونیجو حکومت کا خاتمہ پھر ضیا کی موت اوراسکے بعدالیکشنزہوۓ مگرمحترمہ اور
پیپلزپارٹی کے خلاف نت نئے الزمات اور جھوٹی خبریں پھیلتی ہی رہیں آج کی
طرح ان دنوں بھی " بھٹو کی پیپلزپارٹی دفن ہوچکی " کےعنوان سےکالم چھاپے
جاتے اسٹیٹ ٹی وی پر دو چار شکلیں مستقل اسی کام پر معمور تھیں کہ پی پی پی
کے خاتمے کی خبروں کو چبا چبا کر پیش کریں
الیکشن مہم چلی تو پنجاب میں بینظیربھٹو اورانکی والدہ کی بیہودہ تصویریں
سرکاری خزانے سے بنوائی گیں اورپھیلائی بھی سرکاری ہیلی کاپڑوں کے ذریعے
گئیں
پنجاب کے عوام کے مذہبی لگاؤ کی وجہ سے بینظیر بھٹو کو بےراہ رواورمغرب کی
تھذیب کی دلدادہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا
اس گندی مہم کا اثر ہوا تھا یا نہیں یہ بتانامشکل ہےمگر بینظیر بھٹو کی
جماعت سے الیکشن چوری کرنے کا اعتراف پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسی کے مائی
باپ نے یونیفارم اتارنے کے بعد بہ نفس نفیس ایک بار نہیں بار بار کیا . سو
قصہء مختصر کہ پنجاب سن 1977 کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کوکبھی نہ مل سکا
مزید یہ کہ انہی ریاستی اداروں نے محترمہ کو کبھی بھی پارلیمنٹ میں دو
تھائی اکثریت حاصل نہ کرنے دی
الیکشنز چوری کرنے کے باوجود بھی حقدارکواسکا بچا کچا حق دینےکی بجاۓ "ڈیل
" کی سیاست کی گئی .یہ ڈیل جنہوں نے کروائی بعد میں اسی ڈیل پر بےنظیر کی
سیاست کا مذاق بھی اڑاتے رہے یہ حکومت شاید ڈیڑھ سال کے لگ بھگ تھی جس میں
بدنامی پھیلانے کے لیے کبھی بینظیر بھٹو شہید کے شوہر کے نام کو استعمال
کیا جاتا تو کبھی سب سے بڑے شہر جو کہ پورے ملک کی کمائی کا واحد ذریعہ تھا
ہر ہفتے دو بار معمولی معمولی مطالبات پر بند کر دیا جاتا جس سے معیشت بری
طرح ہل جاتی اور لوٹ مار قتل و غارت کا بازار الگ جمایا جاتا
کچھ دیر کے لیے سوچیں کہ دس گیارہ سال کی فوجی آمریت کے بعد ایک کمزورسی
جمہوریت آتی ہے جہاں سب سے بڑے صوبے میں ڈیکٹیٹرکا چہیتا سفید و سیاہ کا
مالک ہےاوردوسری طرف محترمہ کےاپنے صوبے کا سب سے بڑا شہر جو کچھ کما کر
معیشت کو مضبوط بنا سکتا ہے لسانی گروہ کے ہاتھوں یرغمال ایسے میں کیا ہونا
چاہیے تھا ؟ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ڈیڑھ سال کی اس کمزور جمہوریت اور نو
کانفیڈینس مہم سے بچتی بچاتی حکومت عوامی مسایل کا کوہ ہمالیہ سر کر لیتی
تو ایسا شخص صرف فاطر العقل ہی ہوسکتا ہے
اس مختصرمدت کے دوران بھی بینظیر بھٹو کا تختہ الٹنے کے منصوبے چلے اور
مختلف سازشیں کی گیں جمہوری حکومت سے عوام نے غیر معمولی امیدیں لگا لیں
تھیں جو کسی طرح بھی ایک سال میں پوری نہ ہو سکتی تھیں بلکہ اگربینظیر بھٹو
کو لگاتار دو ٹرم ملتیں تو شاید تب بھی وہ گیارہ سالہ فوجی حکومت کا
پھیلایا گند صاف نہیں کر سکتی تھیں خاص طور پر جب آمریت کے دور میں ظلم
سہنے والے لوگوں اپنے مطالبات لیے کھڑے تھے اور ریاست کےپالےغنڈےبلیک میلنگ
پر اترے ہوے تھے
اس تھوڑے سے عرصے میں بھی مسلسل ہم سے جھوٹ بولا جاتا رہا کہ "بینظیر
سیکیورٹی رسک ہیں " چور اور ڈاکو ہیں ، کرپشن کوئین ہیں ،انکے دوپٹے قومی
خزانے سے خریدے جاتے ہیں اور فرانس سے منگواۓ جاتے ہیں انکا میک اپ کروڑ ہا
روپیہ برباد کرکےکیا جاتا ہے،انکے شوہر آصف زرداری انکو مارتے پیٹتے ہیں
انکے چہرے پر نیل ڈال دیتے ہیں ، ہرآنے جانے والے سے کمیشن پکڑتے ہیں
جایزکام کروانے کے لیے بھی زرداری سے لیٹر پکڑنا پڑتا ہے
اخبارات ایسی خبروں سے بھرے ہوتے ،مضامین چھاپے جاتے ،کراچی ہڑتالوں کی زد
میں اور پنجاب خودمختاری کے نعروں پر .... جھوٹ اور الزمات پر مبنی مہم
چلائی جاتی اور پھر بینظیر بھٹو کی جایز حکومت کو ختم کر دیا جاتا اسکے بعد
کونسی بہتری آئی ؟ میں نہیں جانتی بلکہ آج تک کوئی بھی نہیں جانتا !! حالات
مزید بد تر ہوئے مگر کوئی یہ نہ پوچھ سکا کہ وہ الزمات کیا ہوۓ ،مقدمات کیا
ہوے ؟اس حکومت کو الٹنے کے لیے کراچی میں مہاجر موومنٹ نے جو ہنگامے کرواۓ
لوگ قتل ہوۓ ،ہڑتالوں سے جو پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچا اسکا کیا
ازالہ کیا گیا ؟ " جاگ پنجابی جاگ "کے نعرے سے پنجاب کو کیا فایدہ ہوا ؟
اورپنجاب سے یہ نعرہ حلال اور باقی صوبوں سےصوبائی خودمختاری کی آوازیں
حرام کیوں کر ہوئیں ؟
کچھ پتہ نہ چل سکا
ہوسکتا ہے جو لوگ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر زیادہ نظر نہیں رکھتے یا
مخالفانہ ذہن رکھتے ہیں انکا خیال ہوکہ پیپلزپارٹی کی کارکردگی اس قابل نہ
رہی ہوگی یا پیپلزپارٹی کے وزراء نام نہاد کرپشن میں ملوث ہونگے جسکا ڈنکا
اخبارات بجاتے تھےانکے لیےبہترین دلیل ریاستی اداکاروں کا اعتراف جرم ہے
کہ" ہم نے محترمہ سے الیکشن چرائے" اب کوئی بے وقوف ہی ہوگا کہ ناکام
حکومتی کارکردگی سے بیزارعوام جس کو ووٹ دینا ہی نہیں چاہتے اسی پارٹی سے
الیکشن چوری کرنے کے لیے تمام ایجنسیوں، عدالتوں اور صحافیوں کو لالچ اور
خوف کے ذریعے اپنے جرایم کا حصہ دار بناۓ
نواز شریف سے ریاستی اداکاروں نے کبھی الیکشنز نہیں چرا ئے انکو ہربار"ہیوی
مینڈیٹ " دیا گیا مگر جس طرح کا ہیوی مینڈیٹ انکوٹرے میں سجا کردیا جاتا
تھا اس کے بعد ریاستی اداکاروں کی نواز شریف سے یہ شکایت بنتی نہیں کہ جناب
"امیر المومینین " بننے کی کوشش کیوں کرتےہیں ؟؟
دوسری بار محترمہ شہید کی تین سالہ حکومت صرف جھوٹے الزاموں اورنام نہاد
نااہلیت کی خبروں سے ختم نہ کی گئی بلکہ اس بارانکی حکومت کا خاتمہ
انکےبھائی کےلہو سے کیا گیا نوکری پیشہ صحافی پہلے ہی ایک خاص ماحول بنا
چکے تھے
یوں " ایک بھٹو کےخاتمےکےلیےدوسرے بھٹوکوختم کردیا گیا "اور اس سب کے بعد
سن ١٩٩٧ء الیکشنزمیں مطلوبہ نتایج حاصل کرنا کونسا مشکل کام تھا ؟؟؟
جن نام نہاد نا اہلیت کی خبروں ، کرپشن کےالزمات اورقتل وغارت کے واقعات
پرمحترمہ کی اٹھارہ ماہ اورتین سال کی دو منتخب حکومتو ں کا "تختہ الٹا "
گیا وہ حکومتوں کے خاتمے کے ساتھ ہی دھواں بن جاتےرہے
یہ "ہیڈ لاینز" صرف اس وقت تک موجود رہتیں جب تک کہ حکومت کا خاتمہ نہ کر
دیا جاتا
ھوٹ کے یہ ڈھانچے" ایوانوں اورعدالتوں میں تو شاید اپنے مقا صد کےحصول کے
لیے لٹکاۓ جاتے رہے مگر اخبارات میں ان سب افواہوں کا نام و نشان نہ ہوتا
جہاں انکواسی لیے جگہ دی جاتی تھی کہ عوام کو زہریلے پروپیگنڈا سےمتاثرکیا
جاۓ تاکہ جب ریاست کے پیشہ وراداکارحکومت کا تختہ الٹیں توعوام ذہنی طورپر
تیار ہوں
اگرکوئی آج یہ سمجھ رہا ہے کہ وقت بدل گیا ہے اورریاست نےعوام دوستی کی روش
اپنا لی ہے تو وہ یا تو ذہنی پختگی میں کمی کا شکارہے یا جان کرانجان بن
رہا ہے آج بھی پیشہ ورریاستی اداکاروہی کام کر رہے ہیں جھوٹ ، الزام ،
بہتان طرازی، ڈرامہ بازی، عوام مخالف سازشیں........ ہاں ایک فرق ضرورآگیا
ہے اور وہ ہے" اداکاروں" کی تعداد میں بےپناہ اضافہ ............... اور
یہی آج کا سچ ہے |